افغان طالبان نے سعودی علماء کے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے مطالبے کو مسترد کردیا

جدہ: سعودی عرب میں منعقد علماء کانفرنس میں شہزادہ خالد الفیصل نے زور دیا ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے تمام فریقین خطے میں امن و امان کی بحالی کے لیے مذاکراتی عمل شروع کریں تاہم طالبان نے مذکورہ اجلاس کے مطالبے کو مسترد کردیا۔

افغان میڈیا ’طلوع نیوز‘ کے مطابق ’امیر مکہ‘ شہزادہ خالد الفیصل نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ سعودی عرب اور اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے اشتراک سے افغانستان میں امن مذاکرات کے لیے نئے دروازے کھلیں گے جو جنگ زدہ ماحول کے خاتمے کا باعث بنیں گے۔

سعودی نیوز ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق شہزادہ خالد الفیصل نے واضح کیا کہ ’آج ہم بہت پرامید ہیں کہ ہماری کوششوں سے ماضی کا سیاہ باب بند ہو جائے گا اور نئے دور کا آغاز ہو گا، افغانستان میں استحکام اور سیکیورٹی کے حالات بہتر ہوں گے لیکن اس کی تکمیل کے لیے فریقین کو برداشت، مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا جیسا کہ مذہب اسلام اجازت دیتا ہے۔

جدہ میں منعقدہ 2 روزہ اجلاس کے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہزادہ الفیصل نے افغان حکام اور علماء سے خطاب کیا۔

شہزادہ الفیصل نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’سعودی عرب ابتدا سے افغانستان کے جنگ زدہ حالات سے واقف ہے اور مختلف ادوار میں انسانی بنیادوں پر اقتصادی سمیت دیگر امور میں معاونت فراہم کرتا رہا ہے‘۔

انہوں نے زور دیا کہ مختلف افغان علماء کے مابین تفریق اور اختلاف کو ختم کرنے کے لیے مسلسل سیاسی کوششیں جاری رکھی جائیں۔

او آئی سی کے جنرل سیکریٹری یوسف العثیمین نے اجلاس کے انعقاد پر سعودی عرب اور شہزادہ الفیصل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس کے اختتام پر ’مکہ اعلامیہ‘ منظور کیا گیا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’مکہ اعلامیہ افغانستان میں جاری بحران کے خاتمے کے لیے مثبت روڈ میپ فراہم کرتا ہے‘۔

اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ افغانستان میں فریقین جنگ بندی پر آمادگی کا اظہار کریں اور تشدد، تفرقے اور بغاوت کی مخالفت کرتے ہوئے اسلامی اقدار کے تناظر میں امن مذاکرات کا آغاز کریں۔

اعلامیہ میں زور دیا گیا کہ ’ہم افغان حکومت اور طالبان پر جنگ بندی اور براہ راست مذاکرات کے لیے زور دیتے ہیں، قومی مذاکرات ہی تنازعے کے حل کا باعث بن سکتے ہیں‘۔

دوسری جانب طالبان نے بیان جاری کیا جس میں سعودی عرب میں منعقد ہونے والے اجلاس کو مسترد کرتے ہوئے ’مکہ اعلامیے‘ کو رد کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں شریک شرکاء افغانستان میں امریکی ’قبضے‘ پر بات کرنے میں ناکام رہے اور کہا کہ مذکورہ اجلاس کا مقصد افغانستان کو دوسرے فلسطین میں تبدیل کرنے کے مترادف تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے