پتلی تماشہ

اگست 1947 جب برطانوی سامراج سے آزادی نصیب ہوئی تو ہمارے بزرگوں کو ایک امید دکھائی دی کہ اب آزاد وطن میں آزادی سے زندگی جئیں گے۔ جمہور کی حکمرانی ہوگی اور ایک آزاد فلاحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ لیکن آج 71 سال گزرنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر آنے والے دن کے ساتھ ہم نے آگے جانے کی بجائے پیچھے کا سفر کیا ہے۔ ایک قوم جس نے انگریز سرکار کو یہاں سے بوریا بسر گول کرا دیا اور ہزاروں قربانیوں کے بعد ایک ریاست کا حصول ہوا، وہی قوم آج سے 30 برس پہلے بھی حبیب جالب کے بقول "دس کروڑ گدھے” اور آج عمران خان صاحب نے بھی ساری نہیں تو آدھی قوم کو تو اسی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑ رہی ہے کہ یہ قوم فی الوقت انتہائی سطح کے اخلاقی زوال کا شکار ہو چکی ہے۔

آزاد وطن ملتے ہی ایک ایسا پتلی تماشہ شروع ہوا کہ کوئی بھی پتلہ دو، تین سال سے زیادہ ٹک نہیں سکا۔ قائد کا وصال، لیاقت علی خان کا قتل اور پھر ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اس تماشے کا جو آج بھی جاری و ساری ہے۔ نون و سہروردی کا آنا و جانا اور بالآخر ایوب کی دس سالہ آمریت۔ ایسا کیوں؟ مجھے تو سول حکمران و فوجی حکمران کی اصطلاح لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کیا کبھی فوجی بھی حکمران ہوتے ہیں جمہوری ملکوں میں؟ مگر یہاں تو حکمرانی ایک تماشہ بن گئی۔

عوام نے جب کبھی بھی کسی کو ووٹ کی طاقت سے ایوان اقتدار میں بھیجا وہاں سے یا تو انھیں زلیل کر کے نکالا گیا اور یا پھر پھندا پہنا کر۔ تب سے لے کر اب تک طاقت کا سرچشمہ "راولپنڈی” ہی رہا ہے اگر کوئی سول حکومت آئی بھی تو یا آئی جے ائی یا پھر ق لیگ کی صورت پتلیاں نچانے والوں نے کھیل جاری رکھا۔ نتیجتہ آدھے ملک کو کھو کر اور باقی آدھے تو بارود کی بو سے نہلا کر بھی وہی تماشہ بالکل ویسے ہی جاری ہے۔

امسال پشتون اٹھان کے بعد مجھے کافی امید پیدا ہوئی کہ شائد اب وقت آپہنچا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے جن کو بوتل میں بند کیا جائے۔ عوام کے دلوں میں جو بات تھی منظور نے انھیں زبان دی۔ وقت کا تقاضہ تو یہی تھا کہ ملکی سیاسی جماعتیں بھی کمر کستی اور ایک متحدہ جمہوری محاز بنا کر میدان میں اترتی اور اس جن کو ہمیشہ کیلئے بوتل میں بند کر دیتی۔ لیکن مایوسی ہوئی جب کہ عدالتی فیصلوں، پری پول رگنگ، بم دھماکوں، دھمکیوں کے باوجود بھی وہی رنگ برنگے جھنڈے اور نشان نظر آئے۔ کیا یہ وقت کی ضرورت نہیں تھی کہ سب سیاستدان مل کر اس پتلی تماشے کو ختم کرتے، اس جن کو بوتل میں بند کرتے جو اب اٹھارویں آئینی ترمیم کے درپے ہے۔ جو ہمیشہ کیلئے اپنی حکمرانی چاہتا ہے۔

جو ہمیشہ سے بلڈی سویلین کو اپنے ماتحت رکھنے کی ریت پرعمل پیرا ہے۔ کب تک قوم کو میڈیا "مینیپولیشن” کے زریعے گمراہ رکھا جائیگا؟ کب تک قوم کے بچوں کو مطالعہ پاکستان کے نام پر مغالطئہ پاکستان پڑھایا جائیگا؟ ملک کی سیاسی جماعتوں کو اب بہت سنجیدگی سے اس پر سوچنا چاہئے۔ کیا ہر 5 سال بعد ہم یا تو مشرفوں سے یہ سنیں گے کہ وہاں سے ہٹ کریں گے کہ پتہ ہی نہیں چلے گا۔ یا پھر ان کے پتلیوں کے فیصلے ہم پر مسلط کئے جائیں گے اور گدھے اور بھیڑوں سے تشبیہ دی جائے گی۔

قوم اب مزید یہ سب برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ جس قوم نے ایشین ٹائیگر بننے کا خواب دیکھا تھا آج اسکا نام گرے اور بلیک لسٹوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ معاشی حالت یہ ہے کہ چندہ لے کر ڈیم بنائے جا رہے ہیں۔ سیاسی قائدین غیر محفوظ ہیں۔ ہمسایوں کے ساتھ ہمیں سکون سے رہنے کب دیا جائیگا؟ کب تک ہم اپنے لوگوں کا سکون برباد کریں گے؟ کب یہ غدار اور محب وطنی کا کھیل بند ہوگا؟ تمام سیاسی ہیوی ویٹس کو اب قوم کی اس حالت پر رحم کرنا چاہئے، تمام جمہوری لوگوں کو ایک جھنڈے تلے جمع ہو کر آنے والی نسلوں کیلئے متحد ہونا چاہئے اور راولپنڈی کے اس بزنس اور لینڈ مافیہ اور ستر برس ملک پر حکمرانی کرنے والے اس جن کو بوتل میں واپس بند کرنا پڑے گا۔ قوم اور ملک اب مزید اس پتلی تماشے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے