مہربان قدر دان!

مہربان قدر دان! اس وقت آپ کے سامنے یہ ڈب کھڑبا لال رنگ کا جو سانپ پڑا ہے اسے جونسرا کہتے ہیں۔ یہ گھروں میں اور مکانوں کی چھتوں میں پایا جاتا ہے۔ اسے دیکھ کر لوگوں میں دہشت پھیل جاتی ہے جس گھر سے سانپ برآمد ہو اس گھر کے مکین خوفزدہ ہو جاتےہیں۔ لیکن مہربان قدر دان یہ سانپ دیکھنے میں جس قدر موٹا تازہ ہے، اتنا خطرناک نہیں ہے۔ اسے ’’چوہے کھانا‘‘ سانپ کہتے ہیں۔ اسے صرف چوہے کھانے سے غرض ہوتی ہے۔ یہ انسان کو کاٹتا ضرور ہے کہ فطرت سے مجبور ہے۔ مگر قدر ت نے اس میں زہر نہیں رکھا۔ چنانچہ جس جگہ یہ کاٹے وہاں سے خون کی ایک بوند نکلتی ہے معمولی سا درد اٹھتا ہے اور پھر مارگزیدہ اگلے ہی لمحے ٹھیک ہو جاتا ہے۔

ڈب کھڑبا جونسرا سانپ بھی اگرچہ صرف چوہے کھانے سے غرض رکھتا ہے مگر جس گھر سے برآمد ہو ایک دفعہ وہاں ہراس پھیل جاتا ہے کیونکہ سانپ اور چور کی دہشت ایک جتنی ہوتی ہے۔ کسی گھر میں کوئی کمزور سا چور بھی گھس جائے تو گھر والوں پر خوف طاری ہوتا ہے، بڑا کڑیل سے کڑیل نوجوان بھی چور کے پائوں کی چاپ سن کر ایک دم اس کے سامنے نہیں آتا کہ پتا نہیں بھاگتا چور کیا کر گزرے۔ چنانچہ وہ اندر ہی اندر رعب دار آواز یں نکالتا ہے تاکہ چور وقت پا کر خود ہی فرار ہو جائے۔ سانپ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یہ لال رنگ کا ڈب کھڑبا جونسرا سانپ دن یارات کو غسل خانے کی موری میں نظر آتا ہےتو دیکھنے والے کی گھگی بند جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے ہوش و حواس برقرار رکھے تو اس پر قابو پانا مشکل نہیں ہوتا کہ یہ صرف ’’چوہے کھانا‘‘ سانپ ہے۔ اسے دو تین پلٹیاں دیں تو الٹا ہوش و ہوس کھو بیٹھتا ہے۔

مگر مہربان قدر دان! میرے پٹارے میں صرف لال رنگ کا ڈب کھڑبا جونسرا سانپ ہی نہیں ہے، دوسرے سانپ بھی ہیں۔ ابھی میں اپنی پٹاری میں سے جو سانپ نکالوں گا وہ جونسرے کی طرح موٹا تازہ نہیں، معمولی جسامت کا سانپ ہے لیکن اس کا ڈسا پانی نہیں مانگتا۔ صاحبان دو دو گز پرے ہو جائیں ایک نعرہ علی کا ماریں جیب پاکٹ سے ہوشیار رہیں۔

یہ سانپ میں نے زمین پر چھوڑ دیا ہے، اوئے منڈیا ذرا پرے ہٹ کے کھلو۔ یہ سانپ آندھی کی رفتار سے چلتا ہے، بغیر اشتعال کے حملہ کرتا ہے۔ اور پھر فوراً اپنے بل میں گھس جاتا ہے۔ یہ زیادہ وقت اپنے بل میںگزارتا ہے کسی کو ڈسنا ہو تو بل سے نکلتا ہے اور ڈسنے کے بعد دوبارہ بل میں گھس جاتا ہے۔ اگر لوگ اس کے بل کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر وہ بھی اس کا قلع قمع کرنے پر تل جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ کدال وغیرہ سے اس کا بل کھودنا شروع کردیتے ہیں اور پھر ایک وار میں اس کا خاتمہ کردیتے ہیں کیونکہ سانپ کی طاقت اس کے زہر میں نہیں اس کے بل میں ہے۔ بعد میں لڑکے بالے اس مرے ہوئے سانپ کو لکڑی پر لٹکائے ہوئے گلی گلی پھیرتے ہیں۔ مگر اس کی دہشت اتنی زیادہ ہے کہ اس کے قریب جانے کی ہمت بہت کم لوگ کرتے ہیں۔

اوئے منڈیا پرے ہٹ کے کھلو۔ یہ سانپ جو اس وقت آپ کے سامنے گرمی کی وجہ سے ادھ موا پڑا ہے، زندگی کی پوری حرارت سے محروم ہے۔ اوئے لڑکے تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے قریب نہ آئو۔ میں نے اس کے دانت نہیں نکالے کیونکہ میں سانپ کے دانت نہیں نکالتا انسانوں کے دانت نکالتا ہوں۔ اگر آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو وہ زنبور کے ساتھ دانت نکالے گا اور لہولہان کردے گا۔ میں انگشت شہادت سے دانت نکالتا ہوں۔ جن صاحب کا کوئی دانت کمزور ہو گیا ہو وہ آگے تشریف لائے۔

مہربان قدر دان میں نے سانپ کو پٹاری میں بند کردیا ہے اب ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انگشت شہادت سے دانت نکلوائیں، میں تیس سال سے یہی کام کرتا ہوں۔ پٹاری میں سے سانپ نکالتا ہوں اور انگشت شہادت سے دانت نکالتا ہوں۔ بسم اللہ، بسم اللہ! جی بابا جی، منہ کھولیں، منہ بند کرلیں، آپ کے منہ میں تو دانت ہی کوئی نہیں ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے