ایوب خاں سے آج تک!

یہ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے، اللہ جانے ہم دوستوں کو گالیاں دینے کی عادت کیوں پڑگئی تھی۔ جنرل ایوب خان کا دور تھا، ایک دن ہم سب دوستوں نے محسوس کیا کہ گالی دینے کی گندی عادت دن بدن زور پکڑتی جارہی ہے، یہ ختم ہونی چاہئے۔ ہم ماڈل ٹائون لاہور میں رہتے تھے اور ہم دوستوں کی ٹولی کے معزز ارکان میں مسعود علی خان، اکی، منیر احمد خان، مالک اور عارف کے علاوہ کچھ پارٹ ٹائم دوست بھی تھے۔ بعد میں عارف کے علاوہ میرے سمیت ایک ایک کرکے سب امریکہ چلے گئے۔ میں تو دو سال بعد ہی واپس پاکستان چلا آیا کہ پاکستان میری پہلی اور آخری محبت ہے۔

مسعود بیس برس بعد پاکستان لوٹا اور بہترین آرکیٹیکٹ کے طور پر بہت شہرت پائی۔ ایم ایم عالم روڈ کے تقریباً ان سب ریستورانوں کا ’’خالق‘‘ میرا یہ دوست ہی ہے، جو سپرہٹ جارہے ہیں۔ عارف تبلیغی ہوگیا تھا اور ایک بار لندن سے تبلیغی دورے سے واپسی کے دوران سارا جویا کے مقام پر ایک مسجد میں نماز کے دوران ہارٹ اٹیک سے اس کا انتقال ہوگیا اور آج وہ وہیں مدفون ہے۔خالد ی امریکہ سے اپنی چینی اہلیہ کے ساتھ ہانگ کانگ منتقل ہوگیا اور وہیں اس کی وفات ہوئی۔ مالک جو سب سے زیادہ شیطان تھا، ابھی تک امریکہ میں ہے، وہ بنیادی طور پر انجینئر ہے مگر امریکہ میں ایک بنگالی دوشیزہ کے عشق میں مبتلا ہوگیا ۔ وہ ایک ڈاکٹر کو پسند کرتی تھی جس پر مالک نے ڈاکٹر بننے کا ارادہ کیا اور اس وقت اس کا شمار لاس ویگاس کے بہترین ڈاکٹروں میں ہوتا ہے مگر کیا فائدہ وہ بنگالی دوشیزہ تو پھر بھی ہاتھ نہ لگی۔

میں اس تمہید کے لئے معذرت خواہ ہوں، میں آپ کو بتارہا تھا کہ ہم نے گالیوں کے سدباب کے لئے ایک’’ نسخہ کیمیا ‘‘ ایجاد کیا اور وہ یہ کہ جو گالی دے سب دوست باری باری اسے پانچ پانچ مکے دشمنوں کی طرح ماریں۔ اس کے بعد ایک سناٹا سا طاری ہوگیا۔ گفتگو کا مزا جاتا رہا، لگتا تھا سالن میں نمک نہیں ، ہماری سب باتیں پھیکی پھیکی سی لگتی تھیں۔ ملاقاتوں کا مزا جاتا رہا تھا۔

میرے یہ فتنہ پرداز دوست جانتے تھے کہ مجھے آمریت سے سخت نفرت ہے۔ یہ ایوب خان کا دور تھا اور ظاہر ہے سب جمہوری آزادیاں سلب کرلی گئی تھیں۔ ان کی مدح کے علاوہ اخبارات میں کچھ شائع ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ میرے ان سب دوستوں کو علم تھا کہ میں اپنی زبان زیادہ تر ان کے کے ذکر پر ہی خراب کرتا تھا، چنانچہ اکی کے خبیث ذہن میں ایک شیطانی خیال آیا اور اس نے مجھے مخاطب کرکے کہا’’طاوویار، (بےتکلف دوستوں کا یہ’’گینگ‘‘ مجھے عطا کے بجائے طاوو ہی کہتا تھا) تم ایوب خان کے خلاف کیوں ہو؟‘‘۔ میں گالی پر مکوں والی سرزنش بھول بھال گیا اور میری زبان سے بےساختہ گالی نکل گئی، جس پر اکی نے کہا’’یار بری بات ہے، کسی کو گالی نہیں دیتے‘‘۔ اس پر میں نے دو گالیاں اوردے دیں۔

اس دوران میری نظر اکی کی انگلیوں پر گئی جو گالیاں گن رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے زبان پر تالہ لگالیا، مگر مجھے دوستوں کا ایک قہقہہ سنائی دیا، جس کے ساتھ اکی کی آواز بھی شامل تھی۔’’تین گالیاں، فی گالی پانچ مکے، یہ بن گئے پندرہ۔ میں، مسعود، خالدی اور عارف اب پندرہ کو چار سے ضرب دو، یہ ہوگئے ساٹھ مکے، چل طاوو پتر سیدھا ہوجا!‘‘۔ اس کے بعد میں تھا اور ساٹھ مکے تھے اور مکے بھی دوستانہ نہیں، ’’حسب معاہدہ‘‘ دشمنانہ! اللہ جانتا ہے میری حالت غیر ہوگئی۔ اگلے روز ہم دوستوں نے بذریعہ کار مری جانا تھا۔ میں تو ایسے بیٹھا رہا جیسے میرے منہ میں زبان ہی نہیں۔ میرے دوستوں نے تین چار بار ایوب خان کے بارے میں تعریفی کلمات بھی کہے، مگر میں نے جیسے سنے ہی نہیں، مگر تین گھنٹے کے سفر کے بعد کسی ایسے ہی موقع پر کتی زبان قابو میں نہ رہی اور پھر وہی ہوا جس کا ان دوستوں کو گزشتہ تین گھنٹوں سے انتظار تھا۔

پھر میرے یہ دوست امریکہ چلے گئے، بدقسمتی سے میں بھی ان کے ساتھ تھا اور ہم سب ایک ہی شہر سینٹ لویٹس میں رہتے تھے۔ اس عرصے میں مجھے یحییٰ خاں کے حوالے سے مکے پڑتے رہے۔ پاکستان واپس آیا تو کئی سربراہ بھگتائے، جنرل ضیاءالحق، جنرل پرویز مشرف اور جنرل راحیل شریف۔ ان جرنیلوں کے دور میں مجھے مکے مارنے والا تو کوئی نہیں تھا، مگر جنرل قمر باجوہ کے علاوہ ان جرنیلوں کے دور میں زبان کے بجائے اپنے قلم سے کام لیا، جنہوں نے ملک میں مارشل لاء لگایا اور مختلف النوع نتائج بھگتے۔ان دنوں میں جنرل قمر باجوہ کے حوالے سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر کیوں کہوں۔ انہوں نے تو کوئی مارشل لاء نہیں لگایا، تمام ریاستی ادارے آزادی سے اپنا کام کررہے ہیں۔ عدالتوں نے نواز شریف کو نااہل قرار دینے اور پھر انہیں اور ان کی صاحبزادی کو اڈیالہ جیل بھجوایا، ظاہر ہے یہ سب قانونی تقاضوں کے مطابق ہوا ہوگا۔

پنجاب پولیس نے پچھلے چار روز میں سترہ ہزار چھ سو چھ کارکن گرفتار کئے، گرفتار ہونے والوں میں مسلم لیگ(ن) کے سولہ ہزار آٹھ سو اڑسٹھ16868اور تحریک انصاف کے 39کارکن شامل ہیں۔ 656دوسری جماعتوں کے بھی تھے، ظاہر ہے شرپسندوں کو گرفتار کرتے وقت یہ تو نہیں دیکھا جاتا کہ ان کا تعلق کس جماعت سے ہے، سب شرپسند مسلم لیگ کے کیوں ہیں، بلکہ ان کے رہنمائوں راجہ ظفر الحق، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور تقریباً پوری قیادت کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات الگ قائم کئے گئے ہیں اور میاں نواز شریف تو پہلے ہی دس سال کے لئے جیل بھیجے جاچکے ہیں۔ تمام ٹی وی چینلز کو ہدایت کی گئی ہے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ان دنوں خبروں میں آٹے میں نمک کے برابر دکھائی دیتی ہے۔

جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خاں اور جنرل ضیاء الحق نے تو ملک کو مارشل لاء کا تحفہ دیا،اب تو ایسی کوئی غیر آئینی حرکت نہیں کی گئی، نہ اس میں کسی کا کوئی ہاتھ ہے۔ مسلم لیگ کو آئندہ انتخابات میں آئوٹ کرنے کا تاثر اگرچہ عام ہے، جو کہ بہرحال ممکن نہیں ہوگا، مگر میں جنرل قمر باجوہ کی دل سے عزت کرتا ہوں کہ انہوں نے مارشل لاء نہیں لگایا ورنہ پرانے دوستوں میں سے مسعود علی خاں تو لاہور ہی میں ہے۔ اسے اگر شبہ بھی پڑجاتا کہ میرے ذہن میں غصے کے جذبات پرورش پارہے ہیں تو وہ پرانا والا معاہدہ ری نیو کرتا اور اپنا سارا کاروبار چھوڑ کر تمام وقت میرے ساتھ گزارتا اور اپنا مکا تیز کرنے کے ساتھ ساتھ انگلیوں پر میری گستاخیاں گننے میں مشغول رہتا۔مگر میں ایسا کیوں کروں گا میرا ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے