داخلوں اورحبس کاموسم

برسات او رداخلوں کا موسم شروع ہونے والا ہے اور یوںایک توپسینہ بہت آتا ہے اور دوسرے داخلے کے امیدواربہت آتے ہیں۔ یہ ان دنو ںکی بات ہے جب میں ایک کالج میں ’’پروفیسر‘‘ یعنی لیکچرر تھا۔ اصولاً تو سب امیدواروںکو براہ راست متعلقہ کالجوں کے پرنسپل صاحبان کےپاس جانا چاہئے تھا لیکن پرنسپل صاحبان ان دنوں اپنی پرنسپلی سے بیزاربیٹھے ہوتے چنانچہ یار لوگ واقفیتیں ڈھونڈتے پھرتے اورپھر بالآخر کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجاتے جو ان کی مشکل آسان کرسکے۔

داخلے کے امیدواراکیلے نہیںآتے تھے بلکہ اپنے کسی بڑے کے ساتھ آتے تھے اور اس ’’بڑے‘‘ کی باتیں ’’دہی بڑے‘‘ کی طرح مزیدارہوتی تھیں، یہ گفتگو اگر نکتہ وار بیان کی جائے توکچھ اس طرح کی ہوتی تھی۔

میرا بیٹا ماشاء اللہ بہت ذہین ہے۔

مگر پچھلے دنوں ذرا بیماررہا ہے۔

جس کی وجہ سے نمبرکچھ کم آئے ہیں۔

امتحان تو آرٹس میں پاس کیا ہے۔

مگر داخلہ میڈیکل میں لینا چاہتا ہے۔

آپ ایک دفعہ داخل کروا دیں ساری کمی پوری کرلے گا۔

کم نمبروں والے والدین کی یہ گفتگو مجھے اتنی اچھی طرح ازبر ہوگئی تھی کہ میں ان والدین کی ادھوری بات مکمل کردیتا، جس سے وہ حیران ہوجاتے اور مجھے استاد کم اور نجومی زیادہ سمجھنے لگتے۔

چنانچہ ایک روز ایک صاحب تشریف لائےاورکہنے لگے’’بیٹے کو کالج میں داخل کرانا ہے۔‘‘ اس کے بعد میں نے انہیںبات نہیں کرنے دی اورکہا ’’ماشاء اللہ خاصا ذہین ہوگا؟‘‘ کہنے لگے ’’بالکل بالکل‘‘ میں نے کہا ’’مگر گزشتہ کچھ دنوں ذرا بیمار شماررہا ہوگا؟‘‘ بولے’’بالکل مگر آپ کو کیسے پتا چلا؟‘‘ میں نے کہا ’’اس کی وجہ سے نمبر کچھ کم آئے ہوںگے؟‘ کہنے لگے ’’واللہ! یہی معاملہ ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’امتحان آرٹس میں پاس کیا ہے، داخلہ میڈیکل میں لیناچاہتاہوگا؟‘‘

اس پرحیرت سےان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مگر میں نے انہیں بولنے کا موقع نہ دیااور کہا ’’داخلے کے بعد انشاء اللہ وہ ساری کمی پوری کرلے گا‘‘ بس یہ سن کر انہوں نےمیرے پائوں چھولئے اور کہنے لگے ’’آپ کو تو سب کچھ پتا ہے۔ فرمایئے بچے کو کب بھیجوں؟‘‘ میں نے کہا ’’بچے کو بھیجنے کی کیا ضرورت ہے، اتنےذہین بچے کے لئے تو پرنسل صاحب کو خود چل کر آپ کے پاس آنا چاہئے۔ آپ یہ ہیرا اس طرح نہ رولیں کیونکہ…..

’’ایہہ پتر ہٹاں تے نہیں وکدے‘‘ چنانچہ یہ صاحب میرے مشورے پرعمل کرتے ہوئے کافی عرصے تک گھرپر پرنسپل صاحب کا انتظار کرتے رہے ہوں گے بلکہ انہوں نے بیٹے کوبھی سختی سے سمجھا دیا ہوگا کہ کہیں اپنے آپ منہ اٹھا کر داخلے کےلئے نہ چلے جانا!

مگر سارے سفارشی حضرات ان صاحب کی طرح ’’شریف النفس‘‘ نہیںہوتے تھے بلکہ ان میں سے بیشترمیں تو لسوڑے کی صفات پائی جاتی تھیں۔

یہ اپنے برخوردار کے کوائف بتاتے جس کے جواب میں انہیں پوری تفصیل سے بتایا جاتاکہ یہ بچہ اگر داخل ہو بھی گیاتو ایف اے سے آگے نہیں جاسکے گا۔ وہ صاحب آپ کے ایک ایک نکتے سے اتفاق کرتے چلے جاتے مگر آخر میں کہتے کہ بچے کی ضد ہے پوری توکرنی ہے۔

اس کے بعد انہیں وہ مشکلات بیان کی جاتیں جو اس ہونہارکے داخلے کےضمن میں درپیش ہیں بلکہ مناسب لفظوںمیں یہ بھی سمجھا دیا جاتا کہ یہ داخلہ قریباً ناممکن ہے۔ وہ صاحب یہاں بھی پوری طرح اتفاق کا اظہارکرتے مگر آخر میں کہتے کہ جناب بچے کو داخل بہرحال ہونا ہے اور یہ آپ ہی نے کرانا ہے۔

ویسے یہ ساری تفصیل جو میں نے اب تک بیان کی ہے اس لحاظ سے آئوٹ آف ڈیٹ ہے کہ کچھ عرصے سے سفارشی حضرات کو پرنسپل یا پرنسپل کے متعلقین سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے انہیں کسی وزیر اور ایم پی اے، ایم این اے وغیرہ کی سفارش ڈھونڈنا پڑتی تھی اورتو اور ایک دفعہ ایک کالج کے پرنسپل میرے پاس تشریف لائےاور کہنے لگے ’’میں نےاپنے بھانجے کو کالج میں داخل کرانا ہے کوئی سفارش ہے؟ میں نےکہا ’’جناب آپ اپنے کالج میں داخل کرلیں۔‘‘ بولے ’’اپنے کالج ہی میں داخل کرانا ہے۔

اس کے لئے سفارش تلاش کر رہاہوں۔‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘کہنے لگے ’’صحیح کہہ رہا ہوں۔ میرے کلرک نے مجھے بتایاہے کہ داخلے پورے ہوگئے ہیں۔

اب مزید کی گنجائش نہیں۔ میں نے اس سے تفصیل پوچھی تو اس نے وزرا، ایم این ایز اور ایم پی ایز اور اے جی آفس سے آئے ہوئے سفارشی رقعوں کی علیحدہ علیحدہ فائلیں میر ےسامنے رکھ دیں۔ تب اندازہ ہواکہ داخلے واقعی پورے ہوچکے ہیں۔ اب صرف اسی قسم کی سفارش سے مزیدداخلہ ہوسکتاہے۔‘‘ پوچھنے لگے ’’تمہاری کوئی واقفیت ہے؟

‘‘ میں نے کہا ’’واقفیت بھی ڈھونڈلیں گے مگر آپ سے کس نے کہا کہ آپ ان لوگوں کی یہ سفارشیں ضرور مانیں؟‘‘کہنے لگے ’’کہا تو کسی نے نہیں مگر جب اسمبلی میں میرے خلاف تحریک پیش ہوگی، یا کالج میں ہنگامہ ہوگا یا میری اور میرے اساتذہ کی تنخواہیں رک جائیں گی اس وقت مجھ سےضرور کچھ کہا جائے گالہٰذا اب سوچ کر بتائو کہ تمہاری کوئی واقفیت ہے؟‘‘

باقی رہا معاملہ حبس کا تو میںکسی سیاسی حوالے کے بغیر جوشؔ کے اس مصرع کے ساتھ اپنی بات ختم کرتاہوں؎

وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے