بلاول کے لئے

اندیشہ ہے کہ پاکستانیوں کو آنے والے انتخابات کے بعد بھی‘ سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوگا۔ بظاہر تین بڑی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ باقی جتنی جماعتیں ہیں‘ ان میں سے بہت سی تو کسی نہ کسی بڑی جماعت کے ساتھ مل کر‘ اقتدار کے مزے اڑائیں گی۔ اگر آپ نے نوجوان بلاول بھٹو کے رجحانات کا اندازہ کیا ہو تو وہ پہلے ہی سے ” کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘کے مثل‘ اپنے سیاسی انداز سامنے لا رہے ہیں۔انہوں نے اپنی سیاسی مہم کی ابتدا پاکستان گیر سطح پر کی۔ ان کا زیادہ زور پنجاب پر تھا۔ لیکن جلد ہی بلاول کو اندازہ ہو گیا کہ یہ دال گلنے والی نہیں۔جتنا کچھ ممکن ہوا یا ہو سکتا تھا‘ چند روزہ انتخابی مہم میں وہ اتنا حصہ ہی لے سکے‘ جتنا انہیں مل سکتا تھا ۔

بلاول بھٹو سندھ کے سیاسی ”اثاثوں‘‘میں مناسب حصہ لے سکتے ہیں مگر انہیں وہ دستیاب ہی نہیں۔ بلاول جن سیاسی چہروں کو ساتھ لے کرآگے بڑھ رہے ہیں‘ وہ بھٹو صاحب کے سیاسی نظریات کے مطابق ہیں۔یہ بات میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بلاول بھٹو اور ان کے نانا کے سیاسی اثاثے اپنی ”بہار‘‘ کا موسم گزار چکے تھے۔

بلوچستان اور کے پی کے میں بھٹوصاحب کا زور تو بہت تھا‘ لیکن پختون بھائیوں کے ساتھ رفاقت کی بنیاد‘خاندانی رشتے ہونا اوراپنے تہذیبی رشتوں میں بندھے رہنا ہے۔ بلوچستان کا حال بھی قریباً یہی ہے۔ وہاں صرف دو مقامی زبانیں اور تہذیبیں ہیں‘ جو کہ پٹھانوں اور بلوچوں پر مشتمل ہیں۔ بلاول بھٹوکے سیاسی ساتھیوں میں ایسے لوگ شامل ہیں‘ جن کے لئے یا تو بھٹو صاحب ایک استاد یا گرو کی طرح تھے اور بہت سے لوگ صرف بھٹو صاحب کی عقیدت لے کر بلاول کے ساتھ چل رہے ہیں۔

ان کی عملی سیاست کا بڑا حصہ ‘ نوجوان بلاول کے نیازمندوں میں ”شمار‘‘ کیا جاتا ہے۔دونوں فریق اپنی اپنی جگہ مطمئن ہیں۔ لیکن بھٹوصاحب سے محبت کرنے والوں‘ ان کے نیازمندوں اور ان کے سیاسی فہم و شعورکے معاملے میں بہت کم لوگ ہوں گے ‘جو اُن کی نظر میں قابل ِاعتماد تھے۔بھٹوصاحب کی سیاسی ٹیم جنہیں وہ مشاورت کے قابل سمجھا کرتے ‘ ان میں عبدالحفیظ پیرزادہ‘حیات محمد خان شیر پائو‘ مولانا کوثر نیازی‘ محمد حنیف رامے‘ جے اے رحیم‘میاںمحمودعلی قصوری‘ مصطفی کھر‘رانا محمد حنیف‘ راجہ تری دیو رائے‘ مخدوم علی احمدتالپور‘ میر رسول بخش تالپور‘ خورشید حسن میر‘ غلام مصطفی خان جتوئی اور رفیق رضا شامل تھے۔ میں اپنے حافظے کے زور پر چند نام یاد کر پایا ہوں‘ ورنہ بھٹوصاحب کے ساتھی تو پورے ملک میں پھیلے تھے۔

بلاول بھٹو کی سیاسی ٹیم کا کوئی قصور نہیں‘ ان میں سے کوئی بھی عمر اور علم کے اعتبار سے ایسا نہیں‘ جو بھٹوصاحب کا عشر عشیر ہو۔ بھٹوصاحب اپنے دور کے منفرد سیاست دان تھے۔ ان کے بعد پارٹی کا سیاسی مقام محترمہ بے نظیر شہید نے حاصل کیا۔ بلاول بھٹوایک ہی ایسے انسان ہیں جو بھٹو صاحب یا بی بی شہید کے سیاسی ورثے پر دعویٰ کر سکتے ہیں۔ افسوس کہ آج کی پیپلز پارٹی کو وہ شعور‘ جذبہ قربانی اور فہم و فراست کا معیار میسر نہیں۔یہ ساری چیزیں بلاول کو قدرت نے عطا کی ہیں ۔

بھٹوصاحب پاکستان کے وہ پہلے رہنما ہیں‘ جنہوں نے اپنی کارکردگی اور خداداد صلاحیتوں کی بنا پر خود کو عالمی پائے کا لیڈر ثابت کیا۔اس میں بلاول کا کوئی قصور نہیں۔انہیں اپنے نانا کی صلاحیتوں تک پہنچنے کا موقع نہیں ملا۔ جب وہ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوئے تو ان کی والدہ محترمہ شہید ہو گئیں۔ بلاول موجودہ عہد کے لیڈروں سے ہی کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ جو کچھ انہوں نے حاصل کیا‘ وہ عالمی سطح کی سیاست کے معاملات میں خشخاش کے دانے سے قدرے زیادہ ہو گا۔بھٹوصاحب کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے سلامتی کونسل میںانتہائی حساس موضوع پر پاکستان کے موقف کی ترجمانی کی۔ان کی وہ تقریر آج بھی سلامتی کونسل کے بہترین خطابات میں سے ایک ہے۔

بھٹوصاحب نے جب سلامتی کونسل میں اپنی تاریخی تقریر کی‘ اس وقت ان کی عمر قریباً43 برس تھی۔یہ وہ عمر ہے جس میں شاید ہی کسی ملک کے لیڈر نے اتنے بڑے عالمی بحران میں ایسا کارنامہ انجام دیا ہو۔ یہ وہ موقع تھا جب بھارت‘ مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنے والا تھا۔ بھٹو صاحب سے تو خیر میری چند ملاقاتیں رہیں ‘لیکن شیخ مجیب الرحمن سے صرف دو مرتبہ ملا۔ یہ انٹرویو روزنامہ ”مشرق‘‘ لاہور میں شائع ہوا۔

یہاں مجھے سقوط ڈھاکہ کے دنوں کی ایک بات یاد آگئی۔ا س وقت بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ میں ایک پاکستانی وفد کے ساتھ ڈھاکہ گیا۔اس دورے کی یادیں تو بہت ہیں‘ مگر لکھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ جو فوجی جوان ہمیں ایئرپورٹ سے لینے آئے تھے‘انہوں نے خود ڈرائیور کو حکم دیا کہ تھوڑے ہی فاصلے پر وہ گائوں آئے گا‘ جس کو پاکستان میں تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ گاڑی سڑک کے کچے کنارے پر روک دی گئی۔ جوان نے جو واقعہ سنایا‘ اسے میں آج بھی پاک فوج کا ناقابل فراموش واقعہ تصور کرتا ہوں۔بھارت ڈھاکہ پر قبضہ کر چکا تھا۔اس کی فوجوں نے چاروں طرف سے ہمارے جوانوں کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ فصل کے کنارے ایک جگہ سے گزرتے ہوئے جیپ روکی گئی۔ سب نے ایک دوسرے کو اشارہ کیا۔

رائفلیں بھری ہوئی تھیں۔ جیپوں سے چھلانگیں لگا کر جوان دو قطاروں میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہو گئے ۔ دو طرفہ فائرنگ ہوئی اور ہمارے جوان وہیں شہید ہو گئے۔یہاں پہنچ کر میرے بال پوائنٹ سے روشنائی کی بجائے روشنی نکل رہی تھی اور اس کا رنگ سرخ تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے