ایٹمی امن کے اشارے

اگر پہلے نہیں تو اگلی صدی میں دنیا پر امن کے دروازے کھلتے دکھائی دے رہے ہیں۔عالمی حالات کے پیش نظرمجھے بہت دور تک عالمی امن کا دروازہ کھلتا نظر آرہا ہے اس کا فائدہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیری مسلمانوں کو ہو سکتا ہے۔

امکان یہ ہے کہ ایران‘اسرائیل کے ساتھ چھیڑ خانی کرے یا پرانی ایٹمی طاقتوںمیں سے کوئی اس خطرناک شعلے کوبھڑکا د ے ۔ ایلان جونز کا حالیہ مضمون انہی میں سے کسی ایک امکان کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے۔

ستمبر 2012ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے بلند چبوترے پر کھڑے ہو کر اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے فورم کی ایک یادگارتقریر کی۔ نیتن یاہو نے اپنے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ پکڑ رکھا تھا جس پر کارٹون کی شکل کا ایک بم بنا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا ”اس وقت ایران کو ایٹم بم بنانے سے دور رکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر سرخ لکیر لگا دی جائے‘‘۔

پھر نیتن یاہو نے پلے کارڈ پر لکھے ہوئے لفظ” Final Stage‘‘ کے نیچے ایک سرخ لکیر کھینچ دی۔نیتن یاہو کی اس بات کو حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے ذہن میں رکھنا پڑے گا‘کیونکہ اس وقت ایران کے ایٹمی پروگرام کا مستقبل غیر واضح ہے‘ کچھ پتہ نہیں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟ جنرل اسمبلی کے سامنے نیتن یاہو کی مذکورہ تقریر‘ ان کی جانب سے عالمی برادری کو تہران کے نیوکلیئر پروگرام کے خلاف متحرک کرنے کی علیٰ الاعلان سفارتی کوششوں میں سے ایک تھی۔ اسرائیل ایسی کوششیں ہمیشہ کرتا رہا ہے۔ ضمنی طور پر دی گئی یہ دھمکی اتنی ہی واضح تھی جتنی کہ نیتن یاہو کی پلے کارڈ پر الفاظ ”فائنل سٹیج‘‘ کے نیچے کھینچی گئی سرخ لکیر۔ اس سرخ لکیر کا مطلب بڑا واضح تھا کہ اگر دنیا نے ایران کا ایٹمی پروگرام رکوانے بلکہ بند کرنے کیلئے کچھ نہ کیا‘ تو اسرائیل کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا کہ وہ ایران کے خلاف مسلح کارروائی کرے۔

اس کے بعد ہم ذرا تیزی سے چلتے ہوئے آج کے حالات پر آ جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ ‘ایران معاہدے کو ختم کرنے کے اعلان کے بعد‘ اب اگلے چند ماہ میں اس نیوکلیئر ڈیل کے خاتمے کے ساتھ ہی ہم دیکھیں گے کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ یہ بات اس وقت حقیقت کا روپ دھار جائے گی جب تہران نے اس معاہدے سے پہلے والی سطح پر یورینیم کی افزودگی اور اسے ذخیرہ کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کر نے کا فیصلہ کر لیا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے خدشات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

یہ امکان ابھی باقی ہے کہ یورپی ممالک اس معاہدے کو ٹوٹنے نہ دینے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس طرح یہ معاملہ زیادہ خراب نہیں ہو گا‘ حتیٰ کہ اگر یورپ اس سلسلے میں اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوتا تو بھی ایران سے یہ توقع نہیں کہ وہ اس معاہدے کو توڑتے ہوئے ایٹم بم بنانے کی کوشش کرے گا‘ کیونکہ ایران نے اشارہ دیا ہے کہ اس معاہدے کا پابند رہے گا‘ اور بالفرض وہ ایسا کرتا بھی ہے یعنی یہ معاہدہ توڑتا بھی ہے تو اسے صرف ایک جوہری ہتھیار کا انشقاقی مواد تیار کرنے کیلئے اب بھی ایک سال سے زیادہ عرصہ درکار ہو گا۔ تاہم اس امر میں بھی کوئی ابہام نہیں کہ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے‘ اسے نقصان پہنچانے اور اس کے ردعمل کا سامنا کرنے کیلئے چھ سال پہلے کی نسبت زیادہ تیار اور بہتر پوزیشن میں ہے۔

جاری دہائی کے ابتدائی برسوں میں‘ جب اسرائیلی حکومت کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جا رہا تھا تو اس کارروائی کے کامیاب ہونے کے بارے میں بہت سے خدشات موجود تھے کہ اس طرح ایران کی ایٹمی تنصیبات کو واقعی نقصان پہنچایا جا سکے گا ۔ اسرائیل خود بھی ابہام کا شکار تھا۔ شام اور عراق کے ایٹمی پروگراموں‘ جن پر کیا گیا ایک حملہ ہی ان ممالک کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے کا باعث بن سکتا تھا‘ کے برعکس ایران کا ایٹمی پروگرام سادہ نہیں اور پورے ایران میں کئی درجن جگہوں پر پھیلا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک سائٹ تو فرانس‘ جرمنی اور سپین کی سائٹس کی کل جگہ سے بھی بڑی ہے اور اسرائیل سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ علاوہ ازیں ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نہ صرف جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹمز کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے بلکہ دوسرے حوالوں سے بھی اسے مضبوط اور محفوظ بنایا گیا ہے۔

انہی معاملات کو پیش نظر رکھ کر فوجی تجزیہ کاروں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایران کو نشانہ بنانے کیلئے اسرائیل کو ممکنہ طور پر کئی بار کارروائی کرنا پڑے گی اور ان کارروائیوں کی تکمیل میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ اسرائیلی طیاروں کو ایندھن بھروانے اور دوبارہ مسلح ہونے کیلئے متعدد بار ہزاروں میل کا سفر کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسا آپریشن اگر کسی سپر پاور کو کرنا پڑے تو اس کے لئے بھی یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ اسرائیل کی اتنی بساط نہیں۔ علاوہ ازیں لبنان میں موجود حزب اللہ تنظیم کی جانب سے اس پر شدید ترین رد عمل ظاہر ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اسرائیل پر ہزاروں راکٹ اور میزائل برسائے جا سکتے ہیں اور میزائلوں کی رینج اتنی ہے کہ اسرائیل کے کسی بھی علاقے تک پہنچائے جا سکتے ہیں۔اسرائیل کے پاس ایسا دفاعی نظام موجود نہیں‘ جو میزائلوں کے ایسے حملے کو روک سکے۔ آئرن ڈوم نامی نظام راکٹس کو راستے میں تباہ کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔

اس کی رینج ساٹھ میل ہے۔ لیکن یہ ابھی 2011ء میں آپریشنل ہوا ہے۔ اسے مکمل طور پر آپریشنل ہونے کے لئے ابھی مزید وقت درکار ہے۔ ڈیوڈ سلنگ ڈیفنس سسٹم میزائلوں کو راستے ہی میں تباہ کرنے کیلئے وضع کیا گیا ہے‘ لیکن یہ بھی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اسرائیل کی جانب ایسی کوئی حرکت کی گئی تو اس کی حزب اللہ کے ساتھ طویل جنگ چھڑ جائے گی اور عالمی برادری کی جانب سے بھی اسرائیل کی بھرپور مذمتوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف بہت سے اقدامات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ایسے اقدامات اور حزب اللہ کے ساتھ طویل جنگ لڑنے کیلئے اسرائیل کو امریکہ کی جانب سے ہر طرح کا تحفظ اور پشت پناہی درکار ہے۔ بارک اوبامہ کی جانب سے اسرائیل کو ایسا کوئی تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی جا سکتی تھی‘ لیکن ٹرمپ کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔

حالات اب خاصے تبدیل ہو چکے ہیں۔ اسرائیل پہلے کی نسبت مضبوط ہو چکا ہے اور خلیج کے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات بھی چند سال پہلے کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ممالک اسرائیل کو ایران پر حملے کیلئے کسی قسم کی سہولت فراہم کریں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران نے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے پچھلے کچھ عرصے میں کافی اقدامات کئے ہیں۔ جیسے اس نے روس سے فضا سے فضا میں مار کرنے والے دفاعی نظام حاصل کئے ہیں اور انہیں تزویری اہمیت کی حامل جگہوں پر نصب کیا گیا ہے۔ اسرائیل کی ان ساری تیاریوں کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہودی قیادت‘ ایران کے خلاف ضرور کارروائی کرے گی۔ اس کے امکانات کم ہیں۔ اسرائیل کو داخلی سطح پر دبائو کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ بین الاقوامی عوامل ایسے ہیں‘ جو اسرائیل کو ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روکتے ہیں؛ لیکن اسرائیل کی حربی تیاریاں ایسی ہیں جو نیتن یاہو کو زیادہ جارحانہ طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے