کاش۔ اے کاش

ہفتہ کو شائع ہونے والا کالم جمعہ کو دوپہر سے قبل لکھ کر ایڈیٹر کو ارسال کرنا پڑتا ہے ۔ کبھی کبھی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات بھی لکھ لیتا ہوں ۔ آج صبح ساڑھے گیارہ بجے لکھنے بیٹھ گیا ۔

انتخابات کے ممکنہ نتائج سے متعلق کالم تقریباً مکمل کرچکا تھا کہ سامنے لگے ٹی وی نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ جیو نیوز پر پنجاب میں جعلی پولیس مقابلوں کے لئے مشہور ،ماورائے عدالت قتل کے ملزم عابد باکسر کی خبر چل رہی تھی ۔ وہ عابد باکسر جو بیرون ملک مفرورتھا اور کچھ عرصہ قبل انہیں واپس لایا گیاتھا۔ پراسرار طور پر غائب تھا اور آج پراسرار طور پر نکل آیا۔

جو فوٹیج چل رہا تھا اس میں وہ نہایت فاتحانہ انداز میں موبائل پر بات کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہورہا تھا ۔اس نے ایک روز قبل میاں شہباز شریف کے خلاف انکشافات کا عندیہ دیا تھا اور شاید اس لئے آج نہ اسے ہتھکڑی لگی تھی اور نہ زیر دبائو لگ رہا تھا بلکہ یوں دکھائی دے رہا تھا کہ جیسے وہ کشمیر فتح کرکے واپس لوٹا ہے ۔

میں حیران تھا کہ وہ کہاں غائب تھااور اب الیکشن سے چار روز قبل کیسے پراسرار طور پر ایک ہیرو کے طور پر نکل آیا ۔

ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ اچانک دوسری بریکنگ نیوز چل پڑی ۔ یہ خبر رائو انوار سے متعلق تھی ۔ وہ رائو انوار جو خود سندھ پولیس کے دعوے کے مطابق سینکڑوں جعلی پولیس مقابلوں کے علاوہ نقیب اللہ محسود اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو معصوم نوجوانوں کو جعلی مقابلے میں بے گناہ قتل کرنے کاملزم ہے۔

خود سندھ پولیس کے افسران کی انکوائری رپورٹ میں اسکو ذمہ دار قرار دلوایا گیا ہے ۔کافی دنوں سے مفرور رہا اور طویل انتظار کے بعد وی آئی پی انداز میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہوا ۔

رائو انوار فساد فی الارض کا بھی یوں مرتکب ہواکہ نقیب اللہ محسود کے قتل کی وجہ سے کراچی سے لے کر وزیرستان تک ہزاروں لوگ کھڑے ہوگئے تھے اور پختون تحفظ موومنٹ کے نام سے ایک ایسی تحریک کو مہمیز ملی تھی کہ جو ابھی بھی ریاست کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے ۔

رائو انوار کو سزا ہوتی تو اس تحریک کے غصے اور زور کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا تھا لیکن اگر اس کو چھوڑا جائے گا تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس تحریک کوزندہ رکھنے اور اس میں ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کے عنصر کو مزید فروغ دینے کے لئے ایک بڑی دلیل ہاتھ آئے گی ۔ نقیب اللہ محسود ایک عام نوجوان تھالیکن جس طرح رائو انوار دہشت کی علامت بن گیا ہے اسی طرح نقیب اللہ محسود اب مظلومیت کی ایک علامت بن گیا ہے ۔ یوں رائو انوار کو ملنے والی کوئی بھی رعایت فساد فی الارض کا موجب بن سکتی ہے ۔

کچھ روز قبل رائو انوار کو نقیب قتل کیس میں ضمانت مل گئی تھی جس کے بعد میں اپنے ٹی وی پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں ان کے بوڑھے والد محمد خان محسود کی مایوسی اور فریاد ملک کے حاکموں کو دکھا چکا تھا۔ اس پروگرام میں انہوں نے اپنے ساتھ کئے گئے چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وعدوں کا تذکرہ کیا اور امید ظاہر کی کہ وہ ان کو انصاف دلائیں گے ۔

وہ بتاچکے تھے کہ دیگر کوششوں کے علاوہ وہ کس طرح نقیب اللہ محسود کے مقدمے کی پیروی کے لئے آٹھ دس مرتبہ وزیرستان سے کراچی جاتے رہے اور کس طرح اب تک لاکھوں روپے خرچ کرچکے ہیں ۔ خلاف توقع کچھ روز قبل نقیب قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رائو انوار کی ضمانت منظور کرلی تھی تاہم ابھی دھماکہ خیز مواد رکھنے کے کیس میں اسکو ضمانت نہیں ملی تھی ۔

ہم امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس کیس میں وہ جیل میں رہےگا اور شاید ہائی کورٹ میں اس کی نقیب قتل کیس میں بھی ضمانت منسوخ ہوجائے گی لیکن عابد باکسر کی خبر کے بعد جیو نیوز پر جو دوسری بریکنگ نیوز چلی ، وہ یہ دل دہلانے والی خبر تھی کہ رائو انوار کی دوسرے کیس میں بھی ضمانت ہوگئی اور یوں اب وہ رہا ہوجائے گا ۔

میں اس سوچ میں گم تھا کہ جب سینکڑوں جعلی پولیس مقابلوں کے ملزم رائو انوار کل ایک بار پھر سینہ تان کر باہر آئے گا اور شاید دوبارہ ملازمت پر بھی بحال ہوجائے تو نقیب اللہ محسود اور اسی نوع کے دیگر مقتولین کے لواحقین کے دلوں پر کیا گزرے گی ۔ مجھے یہ فکر بھی لاحق ہوگئی کہ اس فیصلے پر اب پختون تحفظ موومنٹ اور قبائلی نوجوان کیا رد عمل دیں گے کہ اچانک جیو نیوز پر ایک اور بریکنگ نیوز چل گئی ۔

یہ خبر پی ٹی وی حملہ کیس میں عمران خان ، اسد عمر اور خرم نواز کی عدالت میں پیشی سے استثنیٰ سے متعلق تھی ۔ خبر کے مطابق اسلام آباد کی عدالت نے آج ان تینوں کی عدالت میں حاضر ی سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی کیونکہ ان کے وکلا نے درخواست دی تھی کہ سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ حاضر نہیں ہوسکتے ۔

میں سوچنے لگاکہ یہ کیسے ہورہا ہے کہ ایک طرف تو نوازشریف کو کوئی استثنیٰ نہیں مل رہا اور میاںشہباز شریف کو بھی بہر صورت نیب میں پیش ہونا پڑتا ہے لیکن عمران خان نیازی کو عدالت میں پیشی سے بھی استثنیٰ مل جاتا ہے، الیکشن کمیشن سے بھی اور نیب سے بھی ۔

اسی ہفتے انہوں نے ہیلی کاپٹر کیس میں نیب اور گالم گلوچ کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بذات خود پیش ہونے سے معذوری ظاہر کی تھی اور دونوں جگہ ان کی معذرت قبول کی گئی ۔

پھر میں خود اپنے آپ کو جواب دینے لگا کہ میں چونکہ قانون کو نہیں سمجھتا اس لئے شاید کسی قانونی وجہ سے یہ بظاہر امتیازی سلوک ہورہا ہو۔ ابھی میں اپنے آپ کو اس جواب سے مطمئن کرہی رہا تھا کہ جیو نیوز نے ایک اور بریکنگ نیوز سے مجھے دوبارہ سوچ میں مبتلا کردیا۔ یہ خبر میاں نوازشریف کے جان نثار اور شیخ رشید احمد کے مخالف امیدوار حنیف عباسی کے ایفی ڈرین کیس سے متعلق تھی ۔

یہ کیس گزشتہ کئی سالوں سے زیرسماعت ہے لیکن چند روز قبل لاہور ہائی کورٹ نے حکم صادر کیا کہ اس کیس کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر کی جائے اور بہر صورت انتخابات سے قبل فیصلہ سنا دیا جائے ۔ میں اس وقت بھی حیران تھا کہ کئی سال تک زیرالتوا رہنے والا کیس اگر مزید کچھ عرصہ زیرالتوا رہتا تو کیا قیامت آجاتی اور ایسے عالم میں جبکہ انتخابی مہم زوروں پر ہے تو حنیف عباسی کس طرح روزانہ عدالت میں پیش ہوسکیں گے لیکن پھر اپنے آپ کو جواب دیا کہ شاید کسی قانونی باریکی کا تقاضا ہو اور میں ناسمجھ ہونے کی وجہ سے نہیں سمجھ رہا ہوں۔

حنیف عباسی نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی تھی لیکن آج ان کی اپیل کو مسترد کردیا گیا ۔

چونکہ آئین بحال اور عدلیہ آزاد ہے ۔ چونکہ عدلیہ کی قیادت جسٹس ثاقب نثار جیسی بے چین روح اور بے قرار دل کی مالک شخصیت کررہی ہے اور آپ عدلیہ تو کیا وہ ملک کے دیگر اداروں کی اصلاح کے لئے بھی دن رات متحرک رہتے ہیں ۔بار بار عزم ظاہر کرچکے ہیں کہ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں اور کسی دبائو کو ذہن میں نہیں لاتے۔

یوںعدلیہ پر کسی بھی سطح پر دبائو کے خیال کو جگہ دیتے ہوئے بھی دل کانپ اٹھتا ہے ۔

میں قانون اور عدالتی معاملات سے نہ صرف نابلد ہوں بلکہ پانامہ سمیت کسی کیس کا فالواپ بھی نہیں کرسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سب کچھ قانون اور قاعدے کے مطابق ہورہا ہو اور ممکن ہے کہ قانونی نزاکتوں کی وجہ سے ایسا ہورہا ہو لیکن بار بار دل کو یہ سوال بے چین کرتے رہتے ہیں کہ اگر میاں نوازشریف ، رائو نواز اور میاں شہباز شریف ، شہباز باکسر ہوتے تو کیا یہ سب کچھ ایسا ہورہا ہوتا ؟

اگر عمران خان نیازی ، عمران شریف ہوتے تو کیا پھر بھی ان کو یہ پے درپے استثنیٰ مل رہے ہوتے ؟ یا پھراگر حنیف عباسی ، شیخ حنیف احمد ہوتے تو پھر بھی کیا اسی طرح ان کے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوتی اور فیصلہ انتخابات سے قبل سنایا جانا لازمی ہوتا؟

باقی تو سیاسی معاملات ہیں اور پاکستانی سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے ۔ کبھی ایک اور کبھی دوسرے کی باری ہوتی لیکن رائو انوار اور عابد باکسر کے معاملات میرے لئے انسانی اور پاکستان کی سلامتی کے معاملات ہیں ۔

اس لئے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کاش رائو انوار ، رائو انوار نہ بلکہ میاں انوار شریف ہوتے اور کاش عابد باکسر کا نام عابد عباسی ہوتا ۔ کاش ایسا ہوتا تو نقیب اللہ محسود اور عابد باکسر کے ہاتھوں پولیس مقابلوں میں مارے جانے والوں کے لواحقین کو انصاف مل جاتا بلکہ شاید ضرورت سے زیادہ اور مقررہ وقت سے پہلے انصاف مل جاتا۔کاش اے کاش ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے