واشنگٹن کا رویہ امریکی کمپنیز کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا: اقتصادی ماہرین

(خصوصی رپورٹ):۔ رواں ماہ جولائی کے پہلے ہفتے میں امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ امریکی سٹیک ہولڈرز ٹیرف سے ایک سال کے لیے استثنی حاصل کرنے کے لیے متعلقہ چینلز کے زریعے اپلائی کر سکتے ہیں، اس ضمن میں بہت سے لوگ امریکی حکومت کے اس فیصلے سے ورطہ حیرت میں مبتلا ہیں کہ ایک ایسے وقت جب امریکی انتظامیہ کی جانب سے چینی درامدات پر سخت پالیسی کا اعلان کیئے چند گھنٹوں کا عمل ہی ہوا ہے اور دوسری جانب امریکی انتظامیہ متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے اس پالیسی کے خلاف استثنی حاصل کرنے کے لیے مواقع بھی فراہم کر رہی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جن 59فیصد مصنوعات پر ٹیرف ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے وہ اشیاء مختلف ملٹی نیشنل کمپنیز چین میں تیار کرتی ہیں ، اس حوالے سے چین کی وزارتِ کامرس کے ایک سابق نائب وزیر وئی جیانگئو نے کہا کہ امریکہ کبھی بھی یہ برداشت نہیں کریگا کہ عالمی صنعتی سطع پر ان ناگزیر پارٹس پر مستقلا نقصان کا سامنا کرے، اس طرح سے ٹیرف کے حوالے سے اسٹیک ہولڈرز کو اعلان کردہ استثنی پر عمل درامد کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے، سیاحت کے حوالے سے مختلف بنیادی اشیاء بشمول ٹرالی، پرس،والیٹس اور بیک بیگس بھی ان ممکنہ مصنوعات کی فہرست میں شامل ہیں۔ان مصنوعات کی مارکیٹ ویلیو کا تخمینہ 31بلین ڈالرتک لگایا گیا ہے جن میں سے 87فیصد تک مصنوعات چین سے تیار ہو کر آتی ہیں اور یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ بڑے کاروباری عناصر جیسے نیشنل ریٹل فیڈریشن کے نائب صدر جوناتھن گولڈ امریکہ کیجانب سے روں رکھی گئی اس تجارتی محاز آرائی کے بڑے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں اور اس کا بنیادی محرک یہ ہی ہے کہ ان مصنوعات کا متبادل ان کے پاس موجود پروسی ممالک میں موجود نہیں ہے۔اس تناظر میں چائینیز سنٹر برائے انٹر نیشنل اکنامک ایکسچینج کے نائب صدر وئی نے کہا ہے کہ امریکہ کی بیشتر ہائی ٹیکنالوجی کمپنیز چین کے متعلقہ صنعتی پروگرامز کے ساتھ قریبی اسٹریٹیجک معاہدات میں مشترکہ طور پر کامکر رہی ہیں۔ اور امریکی انتظامیہ نے حالیہ فیصلوں سے ان کمپنیز کے مستقبل کو مخدوش کردیا ہے اور ان حالات میں ان امریکی کمپنیز کے پاس اس کے سوا کوئی متبادل نہیں ہو گا کہ یہ بھی ٹیسلا کی تقلید کرتے ہوئے اپنے ہیڈ کوارٹرز اور پروڈکشن مراکز کو چین منتقل کر لیں۔ وئی نے مزید واضح کیا کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چینی مصنوعات پر200بلین ڈالر کااضافی ٹیرف عائد کرتی ہے تو اس صورت امریکی کمپنیز کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ کو ممکنہ مخالفت کا سامنا پیش آ سکتا ہے کیونکہ امریکی کمپنیز کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ وہ کھپت کے حوالے سے چین کی بڑی مارکیٹ تک رسائی کے مواقع کو گنوائیں یا طرفین میں تجارتی تعاون کے حوالے سے عوامل کو کھو دیں۔گزشتہ چند سالوں میں بہت سے امریکی کمپنیز کے چین میں سرمایہ کاری ریٹرن کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔جسے ٹرمہپ انتظامیہ اور امریکی عوام نے نا انصافی قرار دیا ہے جب کے دوسری جانب بہت سی امریکی کمپنیز کو سرمایہ کاری ریٹرن میں کمی کا سامنا اور اس طرح کے تجربات کا سامنا دیگر ممالک بشمول آسٹریلیا اور جاپان میں بھی ہے، یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ کمپنیز کسی نئے مقام پر ابتداء میں شرح منافع کافی حد تک کماتی ہے تاکہ بعد ازاں وقت گزرنے کیساتھ اس شرح منافع پر بتدریج کمی واقع ہوتی ہے اور یہ ایک خاص سطع پر مستحکم ہو جاتی ہے،یوں رواں سال کے پہلے چھ مہینوں میں نئی غیر ملکی سرمایہ کاری انٹر پراسئیز کی شرح میں سالانہ کی بنیاد پر 96.6فیصد اضافہ ہوا ہے اور چین کی وزارتِ تجارت کے مطابق آئیندہ پانچ سالوں میں یہ شرح دوہرے عدد تک پہنچ جائیگی۔اس تناظر میں چین ملک میں اصلاھات اور اوپننگ اپ پالیسیز کے تسلسل کے لیے پر عزم ہے اور آزادانہ تجارت اور کثیر الجہتی تجارتی نظام کی بقاء اور تسلسل کے لیے کوشاں اور پر عزم ہے،بالخصوص ایک ایسے وقت جب مغربی قوتیں اور امریکی قیادت تجارتی تحفظ پسندانہ عوامل کو ہوا دے رہے ہیں۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے