"بشیر استاد”

بشیر بچپن میں ہی والد کے سائے سے محروم ہو گیا تھا۔میرے نانا ایوب خان کے زمانے میں بلدیات کے نمائندے اور اپنے علاقے کے چیئرمین تھے۔نانا کا گھر علاقے کے لوگوں کے لئے ایک شیلٹر ہوم بھی تھا۔بشیر کی ماں نے اس نیت کے ساتھ کہ وہ یہاں پل بھی جائے گا اور پڑھ بھی بشیر کو نانا کے ہاں چھوڑ دیا۔لیکن بشیر طبیعت کا شرارتی اور تعلیم میں دلچسپی نہ لینے والا بچہ تھا۔بہت بار سکول میں داخل کروایا گیا مگر پڑھنے سے اس کی جان جاتی تھی۔اس زمانے علاقے کی اکلوتی گاڑی یعنی جیپ  میرے نانا کے پاس ہوتی تھی۔میراعلاقہ سنگل یونین کونسل بکوٹ  ضلع ایبٹ آباد کی پہاڑی بیلٹ میں واقع گلیات سے متصل ہے۔لہذا یہاں فور بائی فور جیپ ہمیشہ سے ہی بہترین سواری رہی۔پہاڑی علاقے میں چلنے والی جیپوں کے ساتھ ڈرائیور کی معاونت کے لئے ایک ہیلپر جسے حرف عام میں کنڈکٹر کہا جاتا ہےکا ہونا بہت ضروری ہے۔کیوں کہ ہینڈ بریک اور دوسرے پارٹس اکثر اونچائی میں کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں تو پتھر پھینک کر گاڑی کو روکا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کام کنڈکٹر کے ذمہ ہوتے ہیں۔خیر یہ فیصلہ کیا گیا کہ بشیر کو نانا کی جیپ کے ساتھ کنڈکٹر چھوڑ دیا جائے اور بشیر اس کام میں خوش بھی بہت تھا۔بشیر جیپ کے ساتھ خوشی خوشی جڑ گیا۔تندہی سے کام کرنے لگا اور کیوں نہ کرتا اس کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا ورنہ پھر سے اسے سکول کی کتابوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا۔میری والدہ بتاتی ہیں کہ بشیر ہمارےگھر کے ایک فرد کی حیثیت سے تھا۔وہ۔ہم بہن بھائیوں کے ساتھ بطور بھائی ہی رہا اور اس نے اس تعلق کی ہمیشہ لاج رکھی۔کچھ سال گاوں میں نانا جان کی جیپ کے ساتھ گزارنے کے بعدجب وہ تھوڑا بڑا ہو تو  اپنے لڑکپن میں اس نے شہر کا رخ کیا اور یہاں سے باضابطہ ڈرایئور بن کر وہ اپنے گاوں پیخونکر جو یو سی بکوٹ میں ہی واقع تھا واپس چلا گیا۔بشیر کے ڈرائیور بننے کے مرحلے کے دوران ساتھ آٹھ  برس کا عرصہ بیت چکا تھا۔علاقے کچھ دیگر لوگوں نے بھی جیپ خرید لی تھی۔بشیر دیہاڑی پر گاوں کے ایک شخص کی جیپ چلانے لگ گیا۔جوانی نے جب بشیر پر دستک دی تو اب وہ "بشیر استاد ” بن چکا تھا۔سارا علاقہ اس کو جانتا تھا۔محنت کی کمائی اور کچھ لوگوں سے ادھار لینے کے بعد بشیر نے اپنی ایک گاڑی خرید لی۔یہ گاڑی ولی (willy)تھی۔مگر اسکو بھی سب جیپ ہی کہتے ہیں۔بشیر کے دن بدلنے لگے وہ پیخونکر کی واحد جیپ کا اکلوتا مالک تھا پورا گاوں فخر سے دوسرے گاوں والوں کو بتاتا تھا کہ یہ جیپ ہمارے بشیر استاد کی ہے۔بشیراستاد کی جیپ میں دروازہ کوئی بھی نہیں تھا۔مکمل ہوادار اور کھلی چھت والی گاڑی تھی۔لوہے کا جانگلہ ضرور تھا جو سامان کو گرنے سے بچاتا تھا۔بشیر اس لئے بھی مشہور تھا کہ یہ منوں کے حساب سے سامان ایک فیرے میں لے جاتا۔یہاں تک کہ دو تین تھیلے بمپر پر رکھنے کے ساتھ ساتھ بارہ چودہ سواریا ں بھی بٹھا کر لے جاتا۔

 لتا،الکا یاگنک ادت نارئن، نور جہاں، مہدی حسن غلام علی کے گانوں کے ساتھ ساتھ پہاڑی ٹپے اور ماہیے بشیر کی گاڑی کے سپیکر پھاڑتے رہتے تھے۔اور بشیر بلانا غہ پیخونکر سے براستہ مولیا کوہالہ کے فیرے لگاتا۔

 بشیر اس بات پر ہمیشہ فخر محسوس کرتا تھا کہ وہ ایک جیپ ڈرائیور ہے لوگ اسے بشیر استاد کہتے ہیں اس نے پچیس سال تک اپنے علاقے میں جیپ چلائی۔اس کے بہت سے شاگرد بھی آج ڈرائیور ہیں۔

پہاڑی علاقے میں جیپ چلانے والے ہر روز موت کے کنویں میں گزارتے۔یہاں زندگی روز ہی ازرائیل کو بلاتی ہے۔بل کھاتے موڑ،تنگ سڑک ،گہری کھائیاں، چٹانیں ،موسم کی۔سختیاں اور نہ جانے کیا کچھ پہاڑوں  کی سنگلاخیاں۔پہاڑوں کے بارے ایک محاورہ بھی ہے کہ "پہاڑ "ہمیشہ دور سے خوبصورت نظر آتے ہیں۔ڈرائیور یہ حقیقت بخوبی جانتے ہیں۔

آج سے قریب چار سال پہلے فون کال آئی کے بشیراستاد کی جیپ پیخونکر کے کسی موڑ سے نیچے آگئی ہے۔اور بشیر استادزخمی ہوگیا ہے کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ بشیراستاد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوے چل بسا۔بدقسمتی یہ کہ وہ موڑ جہاں جیپ نے بشیر سے بے وفائی کی اس کے گھر کے قریب تھا۔

جیپ کی بے وفائی کا آغاز فور بائی فور کے کام چھوڑ جانے سے ہوتا ہے۔پھر گیر نکل جانا اور بریک فیل ہو جانا آخری سلسلہ ہوتا ہے۔میں درجنوں ایسے جیپ ڈرائیورز کو جانتا ہوں جو جیپ چلاتے ہوے جان سے گئے۔جیپ ایک ایسی گاڑی ہے اس سے اگر کوئی اور گاڑی بھی ٹکرائے تو جیپ کونقصان کم ہی ہوتا مگر جیپ میں بیٹھے لوگوں کے نقصان کا خدشہ ہمیشہ رہتا۔

 بشیر کی تدفین کے بعد جیپ کے حصوں کو گہری کھائی سے لے جا کر پھر سے جوڑا گیا اور یوں جیپ اپنی اصل شکل میں واپس آگئی۔جسے بعد میں بشیر  کی بیوہ نے فروخت کر کے گزر اوقات کی وہ جیپ آج بھی کہیں نہ کہیں چل رہی ہوگی جیپ کو کچھ نہیں ہوتا مگر بشیر استاد جیسے کئی استاد ہیں جنہیں یہ استعمال کرنے کے بعد گہری کھائی میں پھینک دیتی ہے اور وہ استاد  سے مرحوم کہلاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے