"عمران خان کی مخالفت میں "

25 جولائی کا الیکشن بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں بھی ہر جگہہ موضوع بحث ہے لندن سے لے کر بریڈفورڈ پھر برمنگھم سے گلاسگو تک پاکستانی صرف الیکشن الیکشن کھیل رہے ہیں اور بڑے پرجوش دکھائی دیتے ہیں سوشل میڈیا اور وٹس اپ گروپوں میں ہونے والی لڑائیاں اپنی جگہہ لیکن مساجد کے اماموں اور مقتدیوں سے لے کر پاکستانیوں کا جہاں بھی میل ملاپ ہوتا ہے موضوع الیکشن ہی ہیں اس دفعہ پریشان کن بات یہ ہے کہ میاں نوازشریف پر تنقید یا مخالفت کا مطلب عمران خان یا پی ٹی آئی کی حمایت سمجھا جاتا ہے جبکہ عمران خان پر تنقید کا مطلب سیدھا سیدھا نوازشریف یا انکی پارٹی کی حمایت نکالا جاتا ہے

ماضی کے فوجی آمروں پر تنقید کرنے والوں کو پاک افواج کی مخالفت سے تعبیر کیا جاتا ہے ایم ایم اے کے سیاسی اتحاد کو جو کہ صرف ووٹ کے حصول کے لئے مزہبی جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد ہے اس پر لب کشائی یا طنز کرنے والوں کو اسلام مخالف سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایم ایم اے کی ساری تگ ودو اسلام کا نفاذ قطعی نہیں ہے ماضی میں ایم ایم اے کو آزمایا جاچکا ہے

اسی طرح اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ جہانگیر ترین کے خلاف آتا ہے تو ن لیگ والے عدلیہ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں جب اسی عدلیہ نے میاں نوازشریف کے خلاف فیصلہ دیا تو اسلام آباد سے لے کر واشنگٹن پھر لندن یورپ تک عدلیہ کے ججوں کا نام لے لے کر انہیں رسوا کیا جاتا ہے اپنی افواج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو بدنام کیا جاتا ہے ان تمام تر خرافات اور تنازعات کے باوجود افواج پاکستان، عدلیہ ،سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عوام یہ چاہتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت میں ہی ہے اسی لیے الیکشن وقت پر منعقد ہورہے ہیں یہ ایک اطمینان بخش بات ہے

الیکشن کے نتائج کے جتنے بھی سروے سامنے آئے ہیں پی ٹی آئی کو مضبوط پوزیشن میں دکھایا گیا ہے پنجاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان مقابلہ ہے وسطی اور جنوبی پنجاب میں حالات قدرے پی ٹی آئی کے بہتر دکھائی دیتے ہیں لیکن پنجاب کا معرکہ سر کرنا پی ٹی آئی کے لئے آسان ہدف نہیں ہے پنجاب ہمیشہ دائیں بازو کی جماعتوں کا بیس کیمپ رہا ہے پی ٹی آئی اور ن لیگ دونوں دائیں بازو کی جماعتیں ہیں سندھ جو پیپلزپارٹی کا گڑھ ہے جی ڈی اے اور پی ٹی آئی سندھ میں مل کر پی پی کے لئے کسی حد تک خطرہ ہیں بلوچستان میں مقابلہ پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان متوقع ہے

بلوچستان کے مخصوص حالات میں کچھ بھی ہوسکتا ہے
کے پی کے میں پی ٹی آئی بظاہر سب جماعتوں سے آگئے نظر آتی ہے یہاں متحدہ مجلس بعض جگہوں پر روایتی سیٹیں لے سکتی ہے جماعت اسلامی کو اور جے یو آئی کا مزہبی اور مسلکی بنیاد پر ہمیشہ یہاں ووٹ بینک رہا ہے لیکن نوجوانوں میں پی ٹی آئی نے جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کا زور توڑ دیا ہے خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ کو بھی سیٹیں ملیں گئیں لیکن زور عمران خان ہی ہے

اس دفعہ الیکشن معرکے میں جیسا کہ پہلے ہی عمران خان ایک مضبوط سیاسی طاقت کے ساتھ سامنے آئے ہیں اسی وجہ سے ملک کی ساری سیاسی جماعتوں کی بندوقوں کا رخ ان کی جانب ہے انکی سیاسی قوت کو گزند پہنچانے کے لئے عوام میں تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ امریکہ یا یہودیوں کا ایجنٹ ہے کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ فوج اور عدلیہ کا چہتا ہے انتخابی عمل کو مکمل ہونے میں زیادہ وقت باقی نہیں رہ گیا ہے جلسوں، جلسوں اور ریلیوں کی بہار ہے مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی، متحدہ مجلس عمل اور ایم کیو ایم کے نزدیک ساری سیاست عمران خان اور پی ٹی آئی کے گرد گھوم رہی ہے عمران خان کی عوام میں مقبولیت کو نقصان پہنچانے کے لئے اس کی کردار کشی کے لئے کبھی ریحام خان کا پٹاخہ چھوڑا جاتا ہے کبھی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سیتا وائٹ اور ٹرین کا مقدمہ لڑنے الیکشن کمیشن میں چلے جاتے ہیں جس میں انہیں ناکامی ہوتی ہے

الیکشن ہارنے اور عمران خان کی مخالفت میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت پاک افواج کو بدنام کرنے کے لیے الیکشن میں فوج کی مداخلت کا بے بنیاد شوشہ چھوڑ رہے ہیں پرویز رشید، رضا ربانی اور دیگر رہنما بین الاقوامی میڈیا نیویارک ٹائمز، اکنامک ٹائمز اور وال سٹریٹ جنرل کی تحریروں کے حوالے دے کر عمران خان کو فوج کا منظور نظر قرار دے رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن، بدعنوانی اور اقرباء پروری کے خلاف عمران خان نے جسطرح ثابت قدمی سے مہم چلائی ہے اور 2013 کے بعد دھرنوں، جلسوں اور جلوسوں کے زریعے عوام اور نوجوانوں کو متحرک رکھا ہے اور بڑے پیمانے پر محاز کھولے رکھا ہے اور ایک بیداری اور ملک گیر سطح پر شعور دیا ہے یہ اس کا نتیجہ ہے کہ عوام سوال کرنے کے قابل ہوئے ہیں اور 2013 اور 2018 کے درمیان کرپشن کچھ فیصد کم ہوئی ہے

پاکستان میں سیاسی قائدین عمران خان کی مخالفت تو کر ہی رہے ہیں اور اس کا تعلق بیرون ملک پاکستان کے حریفوں سے جوڑ رہے ہیں لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ امریکہ اور انٹرنیشنل اسٹبلیشمنٹ عمران خان کی مخالفت اس کے قومی ایجنڈے کی وجہ سے کررہے ہیں عمران خان کا گیارہ نکاتی ایجنڈا خود انحصاری ہے(self sufficient ) جس کی بنیاد ٹیکس اکٹھا کرنا غربت کا خاتمہ اور بیرونی قرضوں سے جان چھڑانا ہے پچھلے دس سالوں میں پاکستان کو سود پر اتنے مہنگے بیرونی قرضے دئیے گئے ہیں کہ انکی واپسی پاکستان کے لئے انتہائی دشوار مرحلہ ہے عمران خان کی مخالفت بیرونی دنیا سے اس لئے بھی ہورہی ہے پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں پٹھو قسم کے حکمرانوں کی پشت پناہی کی جاتی رہی ہے عمران خان تو آکسفورڈ کا پڑھا لکھا انسان ہے جو ڈرنے جکھنے ان کو دکھائی نہیں دے رہا ہے 2013 کے الیکشن سے پہلے اور بعد میں پاکستان میں ڈراون حملوں کے خلاف عمران نہ صرف امریکہ کے خلاف ریلیاں نکالتا رہا بلکہ سی این این بی بی سی اور عالمی زرائع ابلاغ کو اپنے مختلف انٹرویوز میں امریکہ نیٹو کے خلاف کھل کر بولتا رہا جس پر اسے طالبان خان کہا گیا

ایک اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی اسٹبلیشمنٹ عمران کی حمایت کررہی ہے اگر کسی لیڈر کا ایجنڈا قومی اور ملکی ہو تو پاکستان کی اسٹبلیشمنٹ کا بھی تو وہی ایجنڈا ہے کہ قومی مفاد میں کام کرنا ہے جس کا اس نے حلف آٹھایا ہوا ہے

آجکل ایک اور واویلا مچایا جارہا ہے کہ سارے کرپٹ اور آزمودہ لوگ پی ٹی آئی میں آگئے ہیں یہ ہر الیکشن سے پہلے ہوتا ہے جیسا 2013 کے الیکشن سے پہلے مشرف کی کابینہ ساری کی ساری مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئی تھی پاکستانی میڈیا کی ایک سیکشن عمران کی مخالفت میں اتنی بدنام ہوچکی ہے کہ خبرنامہ اور ٹالک شو شروع ہونے سے پہلے ہی ناظرین کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس پروگرام میں یا نیوز بلیٹن میں کیا کچھ نشر کیا جائے گا جبکہ دوسری میڈیا کی سیکشن دوسری انتہا پر ہے لیکن پاکستانی عوام کو اس کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے یہ سب پیسے اور مفاد کا کھیل ہے اور میڈیا کمرشل ہے برطانیہ کے گزشتہ الیکشن میں اپوزیشن لیڈر جرمی کوربن کی برطانوی میڈیا نے مخالفت کی تھی اور ان کے خلاف منفی مہم چلائی تھی لیکن جرمی کوربن نے لیبرپارٹی کو پہلے سے زیادہ سیٹیں دلوا دی تھیں
آخر میں اتنا عرض ہے کہ عمران خان کی گفتگو طرزعمل اور پی ٹی آئی بحثیت جماعت کا تنقیدی جائزہ لیں تو ہزاروں نقائص نکلتے ہیں لیکن عمران خان کا ایجنڈا قومی مفاد میں ہے یہ الگ بات وہ اس کو عملی جامہ پہنا سکیں گے یا نہیں یا ملک کے وزیراعظم بنیں گئے بھی یا نہیں 2013 کے الیکشن سے پہلے عمران خان کو یقین تھا کہ وہ الیکشن جیتیں گئے اس دفعہ سارے اندازے ،حالات،تجزیے اور سروے یہ بتا رہے ہیں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی ملک گیر الیکشن جیتے گئی لیکن عمران خان کو یقین نہیں ہے شاید اسی لیے وہ بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر الیکشن نہ جیتے تو اپوزیشن میں بیٹھیں گئے شاید انہیں آزاد امیدواروں کی شکل میں ایک اور قوت ابھرتی ہوئی نظر آرہی ہے جو پی ٹی آئی کی کمزور حکومت قائم کرنے کے لئے بن گئی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے