اکرام اللہ گنڈا پور کی شہادت اور عمران خان کی بے مروتی

اسرار گنڈا پور سولہ اکتوبر دو ہزار تیرہ کو عید کے دن لوگوں سے عید ملتے ہوئے خود کش دھماکے کے ذریعے شہید کیے گئے ، انکی شہادت کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی مگر خاندان اسے سیاسی دہشت گردی سے تعبیر کرتا رہا ، خاندان کا موقف تھا کہ یہ کاروائی طالبان کی نہیں ہو سکتی ، یہ ہمارے سیاسی حریف علی امین گنڈہ پور اور انکے بھائیوں کی کارستانی ہے ، علی امین گنڈا پور ہم سے خوفزدہ ہے ، وہ کبھی الیکشن نہیں جیتے ، ماضی کا الیکشن جیتنے کی وجہ تحریک انصاف کی مقبولیت تھی ، علی امین گنڈا پور کے طالبان سے مراسم ہیں ، انہوں نے پچاس لاکھ روپیہ دیکر عید کے روز یہ کام کروایا تاکہ پورا خاندان ہی ختم ہو جائے ، نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ، انہوں نے صاف و شفاف تحقیقات کے لیے ہر فورم پر مطالبہ کیا مگر کسی نے انکی طرف توجہ نہیں دی ، یہ زخم تازہ تھا کہ انکے دوسرے بھائی کو بھی نشانہ بنا دیا گیا ، تین روز قبل اسرار گنڈا پور کے دوسرے بھائی اکرام اللہ گنڈا پور کو بھی شہید کر دیا گیا ، اکرام اللہ گنڈا پور جب اپنے بھائی کے قاتلوں کے خلاف مظاہرے میں شرکت کے لیے گھر سے نکلے تو ان پر بھی دھماکے سے حملہ کر دیا گیا ، دھماکہ اتنا شدید تھا کہ وہ بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے ، پورے ملک میں اس کاروائی کی مذمت کی گئی ، اسے بری نگاہوں سے دیکھا گیا ، ہر شخص نے دکھ کا اظہار کیا مگر افسوس عمران خان پر کہ انہوں نے بے مروتی دکھائی ، کاش وہ اس موقع پر پارٹی کے شہید ہونے والے امیدوار کے گھر جاتے ، انکے سر پر ہاتھ رکھتے اور جنازے میں شریک ہوتے مگر عمران خان نے ایسا کچھ نہیں کیا ، وہ اپنے امیدوار کا لاشہ چھوڑ کر کراچی جلسہ کرنے چلے گئے ، ایک صوبائی امیدوار مارا جا رہا ہے اور خان صاحب کو فکر ہی نہیں ، شاید وہ تعزیت کو کوئی فضول چیز سمجھتے ہیں یا اپنے امیدواروں کو ایویں ہی سمجھتے ہیں ،

حال ہی میں ہارون بلور شہید ہوئے ، سبھی پارٹی رہنماوں نے شرکت کی ، بلور خاندان کو دلاسہ دیا ، مگر عمران خان نے یہاں بھی تعزیت کرنا مناسب نہیں جانا ، اور پھر محترمہ بینظیر بھٹو انکی کلاس فیلو تھیں ، خان صاحب کا ان سے اچھا تعلق تھا مگر خان صاحب نے تعزیت کا فون کرنا بھی گوارہ نہیں کیا ، بلاول نے ایک بار کہا کہ ساری زندگی ہماری مخالفت کرنے والی جماعت اسلامی نے بھی ہم سے تعزیت کی مگر عمران خان نے یہ زحمت گوارہ نہ کی ، اور پھر فاروق خان صاحب جو عمران خان کے قریبی دوست تھے جنہوں نے پارٹی کے لیے کام کیا ، پارٹی کا منشور بنایا ، ابتدائی اوقات میں ساتھ دیا ، طالبان نے انہیں جب شہید کیا گیا تب بھی خان صاحب نے تعزیت گوارہ نہ کی، ملتان جلسے میں دس بندے دم گھٹنے سے شہید ہو گئے پھر بھی اپنی تقریر نہیں روکی ، کیا لیڈر ایسے ہوتے ہیں ؟ لیڈر تو باپ کی طرح ہوتا ہے ،

لیڈر کب یہ برداشت کر سکتا ہے کہ اسکا کارکن مارا جائے اور وہ جلسے کرتا پھرے ؟ موجودہ لیڈروں میں بلاول سب سے نوجوان ہے ، لاپرواہ اسے ہونا چاہیے تھا مگر جب ہارون بلور اور سراج رئیسانی پر حملہ ہوا تو اس نے تین دن اپنے جلسے منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا ، یہ دونوں لوگ اسکی پارٹی سے نہیں تھے اسکے باوجود بھی اس نے ایسا کیا ، اقتدار کسے اچھا نہیں لگتا ؟ کون ہے جو چاہتا ہے کہ اسکی الیکشن کمپئین رک جائے ؟ مگر بلاول نے یہ سب کیا اور دکھی لہجے میں بڑی ہی خوبصورت بات کہی ، کہا ایک طرف لاشیں اٹھائی جا رہی ہوں اور دوسری طرف میں جلسے کرتا پھروں ؟ زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتا پھروں ؟ ایک سیاستدان تو یہ کام کر سکتا ہے میں نہیں کر سکتا ، بلاول بھی سیاستدان ہے مگر وہ ایک دکھی دل رکھتا ہے ، ایک دکھی انسان ہی لاشیں اٹھانے کا دکھ جان سکتا ہے ، بلاول نے نانا ، ماموں ، اور ماں کی لاشیں اٹھائی ہیں اس لیے اسے یہ دکھ بھی اپنا لگا ، شاید عمران خان اس دکھ سے نہیں گزرے اس لیے انہیں ان چیزوں کی پرواہ نہیں ، اسے بے مروتی کہا جائے یا لا ابالی پن مگر عمران خان یہ اقدام اچھا نہیں لگا ، انہیں کراچی جلسے میں نہیں جانا چاہیے تھا ، انہیں یہ جلسہ منسوخ کر کے اپنے شہید کارکن کی لاش کو کندھا دینا چاہیے تھا ، ایک جھوٹی تسلی اور جھوٹا اعلان کر دیتے کہ میں ورثا کے ساتھ کھڑا ہوں تو ہم جیسوں کا منہ بند ہو جاتا ، افسوس عمران خان سے یہ بھی نہ ہو سکا ، سوال یہ ہے جسے اپنے ساتھیوں کی پرواہ نہیں وہ کسی اور کی پرواہ کرے گا ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے