مولانا کی بصیرت، دینی مدارس اور عمران خان

تحریک انصاف نے نوجوانوں پہ محنت کی جنہیں آپ نے یوتھیا کہہ کر مذاق اڑایا اور کہا کہ یہ 2008 کے بعد کی پیداوار ہیں ۔ انہیں نوجوانوں نے باہر نکل کر تمام ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ سے باہر کر دیا جو تبدیلی کے مخالف تھے ۔ ہمارے دانشوروں نے پہلے زرداری کی سیاسی بصیرت کی تعریف کر کر کے اس کا بیڑا غرق کیا اور اب جناب مولانا فضل الرحمن صاحب کو ڈبو دیا ۔

زرداری صاحب اور مولانا صاحب پارلیمانی سیاست کے ماہر ہیں لیکن عوامی سیاست میں دونوں صفر ہیں ۔ بھٹو صاحب اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو ڈونوں عوامی اور پارلیمانی سیاست کے ماہر تھے ۔ عمران خان عوامی سیاست کے ماہر ہیں اور آنے والے پانج سالوں میں ان کی پارلیمانی سیاست کا امتحان ہو گا ۔ زرداری صاحب کے دور میں پورا ملک روتا رہا ، ادارے تباہ ہوئے لیکن مولانا صاحب مسکراتے رہے کہ زرداری میرا دوست ہے پھر عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے زرداری صاحب پہ اپنا غصہ نکالا اور ان کی جماعت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ۔ نوازشریف صاحب کے دور میں کچھ کام ہوئے لیکن پھر بھی باقی جماعتیں جہاں کوئی کمی دیکھتی تھیں وہاں عوام کی ترجمان بن کر آواز اٹھاتی تھیں لیکن مولانا صاحب پورے پانج سال عمران دشمنی میں بس نوازشریف صاحب کو مشورے دیتے رہے کہ حکومت کیسے بچانی ہے اور عوامی غم و غصے کا اداراک نہ کر سکے ۔

اب جب عوام نے انہیں مسترد کیا رو وہی کام کرنے جا رہے جس پر 73 کے آئین کے تناظر میں وہ عمران پر تنقید کیا کرتے تھے ۔ مولانا صاحب کا ساتھ کسی جماعت نے نہیں دینا اس لیے مولانا صاحب کو چاہیے کہ اب وہ فارغ ہیں ان کے پاس کافی ٹائم ہے۔ وہ اپنی سیاست کا رخ مکمل تبدیل کریں اور عوامی مسائل پر بات کریں ۔ مدارس کو کوئی خطرہ نہیں ہے نہ اسلام کو کوئی خطرہ ہے ۔ اب یہ منجن نہیں چلنے والے ۔ سوشل میڈیا کا دور ہے عوام باشعور ہو چکی ۔

اہل مدارس سے گزارش ہے کہ عمران خان آپ کا بھی وزیراعظم ہے ۔ آپ اگے بڑھیں یہ آدمی سیدھا اور صاف آدمی ہے ۔ اسے آپ کی بات سمجھ آ گئی تو یہ آپ لے لیے سب کچھ کر گزرے گا ۔ میں نے پہلے لکھا بھی تھا کہ دینی مدارس کے لیے عمران خان سب سے بہتر ثابت ہو گا ۔ دینی مدارس کی اسناد کا مسئلہ ہے اور بہت سے مسائل ہیں جو خان صاحب سے حل کروائے جا سکتے ہیں ۔ وہ لوگ جو اسلام کی حفاظت کے لیے مولانا کا اسمبلی میں ہونا ضروری سمجھتے ہیں وہ بھی اس بار دیکھ لیں گے کہ مولانا کی عدم موجودگی میں بھی اسلام کا کچھ نہیں بگڑنا ۔ اس اسلام اور دینی مدارس نے مولانا کو بچایا ہوا نہ کہ مولانا نے انہیں ۔ جماعت اسلامی ایک صاف ستھری جماعت ہے لیکن ان کی بدقسمتی ہے کہ یہ ہمیشہ روایتی سیاست دانوں کے حق میں اپنا وزن ڈالتے ہیں جس سے یہ نقصان اٹھاتے ہیں ۔

نوازشریف کے خلاف بھی یہ سب سے آگے اور پھر مولانا کے ساتھ مل کر نوازشریف کو بچانے میں بھی یہ سب سے آگے ۔ جماعت اسلامی کے کارکن بجائے نوجوانوں کو اپنا سرمایہ سمجھنے کے پورے پانچ سال نوجوانوں کے خلاف صف آراء رہے جس کا نتیجہ بدترین شکست کی صورت میں ملا ۔ یہ جماعت آج تک فیصلہ ہی نہیں کر سکی کہ اس نے کس چرز کی سیاست کرنی ۔ کبھی تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور کبھی نظام کے محافظ بن جاتے ہیں ۔ جب عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے تو یہ کہتے ہیں کہ لوگ اسلام مخالف ہیں ۔ حد ہے اور بے حد ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے