انتخابات،دھاندلی،ایم ایم اے اور مولانا فضل الرحمان

حالیہ انتخابات سے متعلق ہمارے بہت سے اندازے غلط ثابت ہوگیے جن میں معلق پارلیمنٹ ، عمران خان کی وزرات عظمی سے محرومی ، جیپ اور آزاد امیدواروں کی متاثر کن تعداد میں کامیابی وغیرہ کے اندازے شامل ہے ۔

تاہم ایک کلی اور مجموعی تصویر یہ دکھائی دے رہی تھی کہ جوبھی صورت ہو ملک میں مزید بے اطمینانی انتشار اور عدم استحکام پیدا ہوگی ۔

اب انتخابی نتایج اور پھر ان انتخابی نتایج سے متعلق متاثر ہونے والی جماعتوں کی شدید اور انتہائی ردعمل سے یہ خدشات درست ثابت ہوتے نظرآرہے ہیں ۔

بندہ کی ایک ذاتی بدگمانی یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو جتوا کر بھی انتخابات کی نتایج کو کسی حدتک قابل قبول صورت دی جاسکتی تھی ۔ لیکن جان بوجھ کر ایسے مرتب شدہ معلوم ہورہے ہیں کہ تقریبا تمام بڑی جماعتوں کی قیادت صرف شکست نہیں بلکہ ذلت بھی محسوس کریں اور یوں وہی ہوجاے جو تنگ آمد بہ جنگ آمد کی صورت میں ہوتاہے ۔ ظاہر ہے کہ اصل ہدف یہ نتایج نہیں بلکہ ان نتایج کی بنیاد پر بننے والے گدلے پانی میں پکڑی جانے والی مچھلی ہے ۔

نہیں کہاجاسکتا کہ آگے کی کیا منصوبہ بندی ہے لیکن آل پارٹیز اجلاس کی یہ راے کہ حلف نہ اٹھا کر وہ دوبارہ انتخابات کی انعقاد حاصل کرسکیں گے ، ایک طفلانہ حدتک غیرحقیقی توقع لگتی ہے ۔

نو منتخب پارلیمنٹ کو تو چلنے نہیں دیاجاے گا اب آگے دوہی صورتیں ہوسکتی ہیں کہ یاتو حلف نہ اٹھانے والے ممبران کی نشستوں پر ضمنی الیکشن کیے جائیں یا پھر پوری بساط لپیٹ کر کوئی بیورکریٹک یا براہ راست عسکری انتظام کرلیاجاے ۔ بظاہر ن لیگ کل کی مشاورت میں بھی حلف نہ اٹھانے کی راے سے اتفاق کرتی نہیں دکھائی دیتی اور اگر ن لیگ پارلیمنٹ کے اندر اپنا کردار جاری رکھنے کافیصلہ کرتی ہے تو یہ ایک خوش آیند بات ہوگی ۔

الیکشن سے پہلے قاید جمعیت مولانافضل الرحمن کے تین انٹریوز مختلف ٹاک شوز میں نشر ہویے ۔ ان انٹریوز میں سے ایک میں انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بعد جوبھی نتایج آجاے ہم نے ظاہر ہے انہی میں رہ کر راستہ بنانا اور گنجایش نکالنی ہے کیونکہ ڈیڈلاک ملک اور نظام دونوں کیلیے نقصان دہ ہے ۔

لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بات ڈیڈ لاک کے جانب بڑھ رہی ہے ، اس ڈیڈ لاک سے فایدہ تو کسی کو بھی نہ ہونے پاے گا لیکن اگر سسٹم کو نقصان ہوتاہے جس کے امکانات بظاہر زیادہ لگتے ہیں تو مذہبی جماعتوں کی اتحاد متحدہ مجلس عمل کو تاریخ معاف نہیں کرے گی ۔

ایک موقع تھا کہ ایم ایم اے ملاملٹری الاینس کی پھبتی اور ماضی کے داغ سے دامن چھڑالیتی لیکن جو کردار اب بن رہی ہے ایسا نہ ہو کہ پھر لوگ یہ کہے کہ 2002 کی ایم ایم اے پہلے سے موجود مارشل لاء کا دست وبازو بننے کیلیے تھا اور 2018 کی ایم ایم اے جمہوریت کو بریک لگانے کی اسٹیبلشمنٹ کی ایجنڈے کیلیے سہولت کار کا کردار آدا کرنے کی خاطر بنی ہے ۔

انتخابات کے فوری بعد ڈیڈلاک پیدا ہونے کی مثالیں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں گزری ہیں ایک 1970 کے انتخابات کے بعد اور ایک 1977 کے الیکشن کے بعد ۔
دونوں مرتبہ معاملات کو بند گلی میں دھکیلنے کی وجہ سے لگنے والے زخموں کو ملک اور جمہوریت آج تک چاٹ رہے ہیں ۔ اب کے بار بھی کوئی خیر کی خبر نہیں آے گی ۔

اصولا یہ ہوناچاہیے کہ جو پارٹی سیکنڈ لارجسٹ پارٹی کی مینڈیٹ لے کرآئی ہو وہ دھاندلی کا الزام لگاتے ہوے الیکشن کے پورے عمل کو مسترد کردے اور پھر آگے کی حکمت عملی کی قیادت سنبھال لے ۔ یعنی پورے انتخابی عمل کو مسترد کرنا حکومت سازی کی حق سے محروم ہونے والی پارٹی کی حق ہے ۔ وہ جماعتیں جن کی توقع پندرہ نشستوں کی ہو اور انہیں دس ملی ہوں یا چار سیٹیں جیتنے کااندازہ لگاے بیٹھے ہوں اور ملی دو ہوں ان کو پورے انتخابی پراسیس پر حرف زنی کا حق ہے بھی نہیں ۔

صرف کسی پارٹی کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد ہی اس دعوے کیلیے کافی نہیں ہے کہ سارے عمل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا بوجھ اٹھایاجاے ورنہ متحدہ مجلس عمل کو حالیہ الیکشن میں ٹوٹل 25 لاکھ ووٹ پڑے ہیں اور تحریک لبیک کو 22 لاکھ ۔ تو کیا علامہ خادم رضوی کو کسی بھی معنی میں مکمل نظام کا سٹیک ہولڈر بننے کاحق دیاجاسکتاہے ؟

اس حوالے سے ہونے والی بے قاعدگی یاعجلت کا نتیجہ اب یہ نکل آیاہے کہ دھاندلی کی دعوے اور مسئلے کی لاش ایم ایم اے کے گلے پڑگیاہے ۔ بجاے اس کے کہ بڑی جماعتیں پلیٹ فارم مہیا کرکے چھوٹی جماعتوں کی منتیں کرتی ، چھوٹی پارٹیاں بڑی پارٹیوں سے درخواستیں کررہی ہیں – بجاے اس کے کہ معمول کے مطابق بڑی پارٹیوں کی مخالفت سے پیدا ہونے والی پریشر سے چھوٹی جماعتیں اپنے لیے مراعات حاصل کرلیتی ، بڑی پارٹیاں چھوٹی جماعتوں کے ساتھ ملنے کی آپشن کو بطور کارڈ استعمال کرکے اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط کررہی ہیں ۔ شہباز شریف کے مبہم جواب اور آصف زرداری کی ٹال مٹول کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت بھی دونوں دوسری طرف ممکن گنجایشیں نکلوانے میں لگے ہویے ہیں ۔

اور پھر ان سب چیزوں کے علاوہ بھی ،

پاکستان میں آج تک دھاندلی کے خلاف جتنی بھی تحریکیں چلی ہیں ، خواہ ان کی قیادت نوابزادہ نصراللہ خان جیسے باباے جمہوریت نے ہی کیوں نہ کی ہو – ان تمام تحریکوں کافایدہ آخر میں تحریک اٹھانے اور چلانے والوں نے نہیں ، طالع آزماووں نے ہی اٹھایاہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے