کیا فاٹا اب بدلے گا

اکثر ہم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا زمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں. جو کے کافی حد تک ٹھیک بھی ہوتا ہے. مگر اس میں کچھ غلطی ہماری اپنی بھی ہوتی ہے اور ان غلطیوں کو ہم نظرانداز کردیتے ہیں. اگر میں کسی کو اپنی جگہ فیصلہ کرنے کی اجازت دیتی ہوں تو اس کے نتیجہ میں ہونے والے نتائج کے لے بھی مجھے ہی تیار رہنا چاہے. دوسرے کو قصوروار ٹھہرانے کا کوی فائدہ نہیں. ہم انسان ہیں غلطی ہوجانا ایک فطری عمل ہے مگر اس غلطی کو باربار کرنا جہالت ہے.

گزشتہ دنوں ہر طرف الیکشن کا ذکر تھا. یہ الیکشن بہت سی وجوہات کی وجہ سے خاص تھا. مگر میری نظر میں دو وجوہات پر. پہلا یہ کہ پاکستان کی عوام دو بار جمہوری عمل سے گز چکے ہیں. اس بار عوام نے خلاف روایت پاکستان تحریک انصاف کو موقع دیا ہے. دوسری وجہ فاٹا کے الیکشن ہیں. جو کے میرے لے خاص اہمیت رکھتے ہیں.

پچھلے تقریبا سات آٹھ سالوں سے فاٹا کو ایک الگ صوبہ بنانے یا اس کو خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے کا ممطالبہ کیا جارہا تھا. تاکہ فاٹا کے لوگوں کو اور فاٹا کو قانونی حثیت دی جائے . جو کے آخر کار 26دسمبر ۲۰۱۷ کو خیبر پختون خواہ میں شامل کر دیا گیا. جس پر فاٹا کی عوام نے بہت خوشی کا اظہار کیا. کیوں کے فاٹا کے قبائل آزاد ریاست کے باشندے ہوتے ہوے بھی آزاد نہیں تھے. بلکہ انگریزوں کے بناے ہوے قانون ایف سی آر کے تحت تھے.

اس سے پہلے بھی فاٹا میں الیکشن لڑے جاتے تھے. مگر اس میں نمائندگی آبادی اور رقبے کے حساب سے کم تھی اور فاٹا کے نمائندگان بھی صدر مملکت کے ماتحت تھے. نیشنل اسمبلی میں کل نشستیں سات تھیں. اب خیبر پختون خواہ کے ساتھ ضم کرنے سے فاٹا کو نیشنل اسمبلی میں نمائندگی اس کے آبادی کے مطابق دی گئی ہے جو کہ سات سے بڑھ کر بارہ کردی گئی ہے .

فاٹا کی کل آبادی پینسٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے. جس میں رجسٹر وٹوروں کی تعداد تقریبا 2.1 ملین کے لگ بھگ ہے . جب کہ ۷۳ فیصد خواتین ووٹرز کا اندراج نہیں کیا گیا. اب فاٹا کے نمائندہ بھی صدرے مملکت کےتحت نہیں ہوں گے.

جس حق کے لے فاٹا کے نوجوانوں نے آواز آٹھی تھی وہ حق ان کو مل گیا. اب ان کی ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی ہے. اب یہ کہنے کا حق فاٹا کے لوگوں اور نوجوانوں کے پاس نہیں ہوگا کہ ہم کو حق نہیں دیا گیا ۔یا ہم پر فیصلے مسلط کئے جاتے ہیں۔ خدا نے فاٹا کو بہت کچھ عطا کیا ہے. مگر اس کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو سونپنے کی ضرورت ہے۔ جو ان وسائل کا بہتر استعمال کر سکیں ۔.کچھ سیاسی روایتوں اور دستوروں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

فاٹا والوں کو متحد ہونا پڑے گا ۔ خودغرضی کو ختم کر کے قوم کے لیے سوچنا ہو گا سچ یہ ہے. کہ اس سے بھی پہلے الیکشنوں میں مشران ووٹوں کی قیمت لگا کر فروخت کر دیتے تھے ۔ اور ضمانت کے طور پر شناختی کارڈ کے نمبر اس کے حوالے کردئیے جاتے تھے. خواتین کو تو سوچنےکی اجازت ہی نہیں تھی ۔

لیکن اب ماحول بدل رہا ہے ۔ خواتین میں بھی شعور آ رہا ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جو نمائندے منتخب ہوئے ہیں وہ پارلیمنٹ میں جا کر فاٹا کے حقوق کی جنگ لڑیں ۔ عشروں سے جنگ و جدل سے متاثر عوام کے لئے امن کی بحالی کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کا موں کی طرف بھی توجہ دیں۔ تعلیم اور صحت کے ذریعے شعور کی بیداری کے لئے کام کریں ۔تا کہ آئندہ نسلیں ایک پر امن فاٹا میں آنکھ کھولیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے