فلم جھنجھنا کا ایک ریویو

پچیس جولائی کو ملک کے تقریباً 272 سینماؤں میں بیک وقت ریلیز ہونے والی پولٹیکل ایکشن فینٹسی تھرلر ’جھنجھنا‘ نے اپنی مقبولیت کے اعتبار سے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ جس جس فلمی ناقد نے ریلیز سے قبل ’جھنجھنا‘ کو بی کلاس کہانی قرار دے کر سپر فلاپ کی پیش گوئی کی تھی اب وہ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔

یقین جانیے کہ ایسے ایسے ریویوز پڑھنے کے بعد مجھے بھی اس فلم سے کوئی خاص امیدیں وابستہ نہیں تھیں۔ وجہ بہت سامنے کی تھی۔ لگ بھگ چالیس تا پینتالیس ارب روپے کے بھاری بجٹ سے بننے والی اس فلم میں کسی سکہ بند ہیرو ہیروئن کو نہیں لیا گیا تھا۔ سکرپٹ بھی کسی ایک رائٹر نے نہیں بلکہ ’دی لیجنڈز‘ نامی کسی ٹیم نے مل کر لکھا۔ البتہ ولن اور اس کے ساتھی وہی جانے پہچانے ہیں جو پچھلے تیس پینتیس برس سے بننے والی ہر اردو اور پنجابی فلم میں کاسٹ ہو رہے ہیں۔

’جھنجھنا‘ کے ڈائریکٹر کا نام بھی پہلے کسی نے نہیں سنا۔ ایکس ٹو۔ بھلا یہ کیا نام ہوا؟ مجھے تو یہ نام ابنِ صفی کی عمران سیریز سے چرایا ہوا لگتا ہے۔ ایکس ٹو عمران کا باس جو شاید ایک دو بار کے علاوہ ابنِ صفی کے ہر ناول میں پردے کے پیچھے ہی رہا۔ ایکس ٹو کا اصل نام صرف تین لوگ جانتے تھے۔ ابنِ صفی یا ناول کے دو مرکزی کردار عمران اور سر سلطان۔

بہرحال میں نے بھی اس للک میں جھنجھنا دیکھ لی کہ اس میں ایسا کیا ہے کہ خلقت ٹوٹی پڑ رہی ہے۔ واقعی نئی ٹیم کے ساتھ اتنا بھاری مالی رسک لے کر سکرپٹ، ڈائریکشن، سینماٹو گرافی اور گرما گرم آئٹم سانگز کے اعتبار سے بہت ہی کامیاب پروڈکشن ہے۔

اگر میں ایک لائن میں کہانی بتاؤں تو یوں ہے کہ خیالستان نامی ملک ہر طرح کے بحران سے جوج رہا ہے اور یکے بعد دیگرے ہر قسم کے نجات دہندہ کو آزمانے کے بعد کسی نئے رہبر کا منتظر ہے۔ باقی کہانی اچھائی اور برائی کے مابین جنگ اور بالآخر اچھائی کی فتح کے گرد گھوم رہی ہے۔ کہانی نئی نہیں ہے البتہ جدت اور سلیقے سے پیش کر کے فلم بینوں کی نئی نسل کو موہ لینے کی کامیاب کوشش ہے۔

فلم کے آغاز میں ان تمام سرکاری و نجی اداروں کا شکریہ ادا کیا گیا ہے جنہوں نے اس کی پروڈکشن میں بھرپور تعاون کیا۔ پھر خبردار کیا گیا کہ تمام کردار فرضی ہیں۔ مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ شطرنج کی بساط والے فرضی ہیں یا واقعی فرضی ہیں۔ تاہم جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے فرضی اصلی کا فرق مٹتا چلا جاتا ہے۔

جہاں تک اداکاری کا معاملہ ہے تو مجھے دو نئے اداکاروں مصطفی کمال اور سرفراز بگٹی کی فنی صلاحیتوں نے خوب متاثر کیا۔ صادق سنجرانی کی بھی یہ پہلی فلم ہے مگر انھوں نے بطور مہمان اداکار دو تین مناظر میں اپنا خاموش کردار بخوبی نبھایا۔ فلم میں کئی لمبے لمبے عدالتی مناظر بھی ہیں۔ ان مناظر کا سیٹ اور فلم بندی نہایت شاندار ہے مگر بطور ناظر یہ بات پلے نہیں پڑی کہ ڈائریکٹر نے ججوں کے چہرے دھندلائے ہوئے کیوں دکھائے۔

جن سکہ بند اداکاروں نے نواز شریف، زرداری، فضل الرحمان، مریم، گلالئی اور ریحام کا ولنیانہ کردار ادا کیا انہیں اور کسی جرم میں نہ سہی کم ازکم خراب اداکاری کے جرم میں اڈیالہ جیل میں ہونا چاہیے۔ تعجب ہے ڈائریکٹر نے ان اداکاروں پر محنت نہیں کی یا پھر ڈائریکٹر ان کرداروں کو دکھانا ہی ایسے چاہتا تھا۔

اور اب کچھ ذکر ’جھنجھنا‘ کے ہیرو کا۔ ایک پرجوش نامی گرامی وجیہہ کرکٹر جو خیالستان کو بحران سے نکالنا چاہتا ہے۔ مگر کوئی اس کی بات پر دھیان نہیں دیتا۔ وقت گزرتا چلا جاتا ہے پر ہیرو حوصلہ نہیں ہارتا۔ ایک دن وہ کسی ہرے بھرے میدان میں افسردہ ٹہل رہا ہوتا ہے تو ایک آواز آتی ہے ’مایوس مت ہو بچہ۔ ہم تیرے ساتھ ہیں‘۔ ہیرو پریشان ہو کر ادھر ادھر دیکھتا ہے مگر اسے کوئی آدم نظر نہیں آتا۔

عین اس لمحے قسمت کا ستارہ چمک اٹھتا ہے حالات بدلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ کل تک اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے جوق در جوق اس کے قافلے میں شامل ہونے لگتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک کٹھنائیاں دور ہونے لگتی ہیں۔ ایک کے بعد ایک خوفناک ولن اپنے کرتوتوں اور ہر بزرگ کی پگڑی اچھالنے کے نتیجے میں مکافاتِ عمل کی پکڑ میں آتا چلا جاتا ہے۔

آخری منظر میں ہیرو کی رومن تھیٹر کی طرز کے عظیم الشان سیٹ پر تاجپوشی ہوتی ہے۔ ایک بے چہرہ سفید جبہ بردار پیچھے سے نمودار ہو کر اقتدار کی منقش چھڑی ہیرو کے حوالے کرتا ہے۔ دوسرا بے چہرہ سفید جبہ پوش ہیرو کو سنہری جھنجھنا پکڑا دیتا ہے۔ چھڑی شاید نشانی ہے اختیار کی اور جھنجھنا نشانی ہے مسائل سے جوج رہے خیالستانی تماشائیوں کو مسائل حل ہونے تک بہلانے کی۔

اور پھر دھرتی ہیل سیزر کے نعرے سے گونج اٹھتی ہے۔ دی اینڈ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے