نئے پاکستان کے وزیر اعظم کے نام کھلا خط

محترم وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب
آپ کی تقریر سنی، سن کر یقین کریں کچھ کچھ ہونے لگا، خصوصا وزیراعظم ہاوس، گورنر ہاوس اور سادگی سے متعلق سن کر لگا آپ میرے دل کی بات کر رہے ہیں۔

میں آپ کی توجہ کچھ بہت ہی اہم معلومات کی طرف مبذول کروانا چاتی ہوں، جسے پڑھ کر میں خود بھی کچھ دیر کے لئے ششدر رہ گی۔ معلومات مندرجہ ذیل ہیں۔

آپ جس سادگی کو اپنانے کی بات کر رہے ہیں ، اس وقت۔۔۔

ﮐﻤﺸﻨﺮ ﺳﺮﮔﻮﺩﻫﺎ ﮐﯽ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮦ ﺍﯾﮏ ﺳﻮ 4 ﮐﻨﺎﻝ ﭘﺮ
ﻣﺤﯿﻂ ﻫﮯ ﯾﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻣﻼﺯﻡ ﮐﯽ
ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮦ ﻫﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﮕﮩﺪﺍﺷﺖ ﻣﺮﻣﺖ
ﺍﻭﺭ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﮯﻟﯿﺌﮯ 33 ﻣﻼﺯﻡ ﻫﯿﮟ

ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻧﻤﺒﺮ ﭘﺮ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺳﺎﮨﯿﻮﺍﻝ ﮐﯽ ﮐﻮﭨﻬﯽ ﺁﺗﯽ ﻫﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﻗﺒﮧ 98 ﮐﻨﺎﻝ ﻫﮯ

ﮈﯼ ﺳﯽ ﺍﻭ ﻣﯿﺎﻧﻮﺍﻟﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﭨﻬﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﺋﺰ 95 ﮐﻨﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﮈﯼ ﺳﯽ ﺍﻭ ﻓﯿﺼﻞ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﯽ ﺭﮨﺎﺋﺶ 92 ﮐﻨﺎﻝ ﭘﺮ ﺗﻌﻤﯿﺮﺷﺪﮦ ﻫﮯ

ﺻﺮﻑ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯿﺰ ﺍﻭﺭ 32
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯿﺰ ﮐﯽ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮨﯿﮟ 860 ﮐﻨﺎﻝ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞﮨﯿﮟ
ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﮔﻮﺟﺮﺍﻧﻮﺍﻟﮧ 70 ﮐﻨﺎﻝ
ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﺳﺮﮔﻮﺩﻫﺎ 40 ﮐﻨﺎﻝ
ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ 20 ﮐﻨﺎﻝ
ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﻓﯿﺼﻞ ﺁﺑﺎﺩ 20 ﮐﻨﺎﻝ
ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﮈﯾﺮﮦ ﻏﺎﺯﯼ ﺧﺎﻥ 20 ﮐﻨﺎﻝ
ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﻣﻠﺘﺎﻥ 18 ﮐﻨﺎﻝ ﺍﻭﺭ
ﮈﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﯽ ﻻﮨﻮﺭ 15 ﮐﻨﺎﻝ ﮐﮯ ﻣﺤﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ

ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻣﯿﺎﻧﻮﺍﻟﯽ ﮐﺎ ﮔﻬﺮ 70 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻗﺼﻮﺭ 20 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺷﯿﺨﻮﭘﻮﺭﮦ 32 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﮔﻮﺟﺮﺍﻧﻮﺍﻟﮧ 25 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﮔﺠﺮﺍﺕ 8 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺣﺎﻓﻆ ﺁﺑﺎﺩ 10 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺳﯿﺎﻟﮑﻮﭦ 9 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺟﻬﻨﮓ 18 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﭨﻮﺑﮧ ﭨﯿﮏ ﺳﻨﮕﻬﮧ 5 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻣﻠﺘﺎﻥ 13 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻭﮨﺎﮌﯼ 20 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺧﺎﻧﯿﻮﺍﻝ 15 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﭘﺎﮐﭙﺘﻦ 14 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭ 15 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺑﮩﺎﻭﻟﻨﮕﺮ 32 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺭﺣﯿﻢ ﯾﺎﺭ ﺧﺎﻥ 22 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻟﯿﮧ 6 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ 5 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﭼﮑﻮﺍﻝ 10 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺟﮩﻠﻢ 6 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺍﭨﮏ 29 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺧﻮﺷﺎﺏ 6 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺑﻬﮑﺮ 8 ﮐﻨﺎﻝ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺭﺍﺟﻦ ﭘﻮﺭ 37 ﮐﻨﺎﻝ ﺍﻭﺭ
ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻧﺎﺭﻭﻭﺍﻝ 10 ﮐﻨﺎﻝ ﮐﯽ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﻤﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﭘﺬﯾﺮ ﮨﯿﮟ
ویسے تو جس گورنر ہاؤس میں صرف ایک دن کے دودھ کا بل اٹھائیس ہزار بنتا ہے اس سے جان چھڑانی ہی اچھی ہے..
لیکن گورنر کے عہدے کو ختم کرنے کے لیے لمبی چوڑی آئینی ترامیم کی ضرورت ہے – جب کہ یہ ایک آسان سا اور انتظامی فیصلہ ہو گا کہ گورنر صاحب کو ڈیفنس یا کسی اور پوش علاقے میں ایک دو ایکڑ کی کوٹھی میں منتقل کر دیا جائے اور گورنر ہاؤس کو بیچ دیا جائے ….کیونکہ :
لاہور کا گورنر ہاوس اکہتر ایکڑ رقبے پر واقعہ ہے – شاید کہا جا سکتا ہے کہ یہ لاہور کی قیمتی ترین جگہ ہے – اکہتر ایکڑ میں گیارہ ہزار تین سو ساٹھ مرلے ہوتے ہیں ..اگر ایک مرلے کی قیمت صرف بیس لاکھ روپے شمار کی جائے جو وہاں کی ممکنہ قیمت کا نصف بھی نہ ہو، شاید تو بھی یہ قیمت بائیس ارب روپے بنتی ہے –
………..
اسی طرح کراچی کا گورنر ہاؤس ہے جس کی قیمت لاہور کے گورنر ہاؤس سے کم نہ ہو گی –
اس کے بعد پشاور کا گورنر ہاؤس بھی اربوں روپے کی زمین پر موجود ہے۔
سو ان تین گورنر ہاوسز کو بیچ کے ہی ڈیمز کی اچھی خاصی قیمت وصول کی جا سکتی ہے۔
…………..
اس کے بعد ہر ضلع کے ڈی سی ہاؤسز ہیں جن کے رقبے آپ کی سوچ سے بھی زیادہ ہیں ، میں نے ایک بار اس حوالے سے بھی مضمون لکھا تھا ، اگر ملتا تو نقل کرتی، آپ کی آنکھیں کھل جاتیں – یہ گھر بھی بعض جگہوں پر بیسیوں ایکڑ پر مشتمل ہیں – جب کہ ایک ڈی سی نامی افسر عموماً چھے فٹ سے لمبا نہیں ہوتا ، اس کا وزن بھی سو کلو کے لگ بھگ ہی ہوتا ہے ، سو اس شہر کی کسی بھی پوش آبادی میں اس کو ایک یا دو کنال کے گھر میں "بند ” کیا جا سکتا ہے کہ "لیجئے صاحب قوم کی خدمت کیجئے۔ ”

اور چلتے چلتے بتاتی چلوں کہ ہمارا وزیر اعظم ہاؤس قائد اعظم یونورسٹی سے کچھ زیادہ ہی رقبے میں واقع ہے –
اچھا ایک اور بات یاد آئی کہ آپ نے پچھلے دنوں موبائل فون پر ٹیکس کٹوتی ختم کی …کہ جو ایک سو کے کارڈ پر بچیس روپے کے قریب تھی ، اگر بائیس کروڑ کی آبادی میں صرف دو کروڑ افراد موبائل استعمال کرنے والے تصور کیے جائیں اور ہفتے کا ایک کارڈ تو جناب یہی پچاس کروڑ روپے بنتا ہے ، جو اب حکومت کی بجائے کمپنیوں کی جیب میں جا رہا ہے …عوام کو کوئی خاص ریلیف نہیں ملا ..آپ اسے واپس بحال کر کے ڈیم کے لیے مختص کر لیں
………..
اگر گزری حماقتوں کا ذکر کریں گے تو رونے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا …جیسا کہ اورنج ٹرین ہے جس پر دو سو ارب روپے سے زیادہ لگ رہے ہیں جو ایک شہر کی صرف ایک سڑک ہے
…………..
سوال یہ بھی ہے کہ یہ ہمارے لیڈر ، افسر اور رہنما کیسے ان تنگ گھروں میں رہ سکیں گے تو بتاتی چلوں کہ :
بل گیٹس دنیا کا امیر ترین شخص ہے، دنیا میں صرف 18 ممالک ایسے ہیں جو دولت میں بل گیٹس سے امیر ہیں، باقی 192 ممالک اس سے کہیں غریب ہیں، لیکن یہ شخص اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا ہے، وہ اپنے برتن خود دھوتا ہے. وہ سال میں ایک دو مرتبہ ٹائی لگاتا ہے اور اسکا دفتر مائیکروسافٹ کے کلرکوں سے بڑا نہیں-
وارن بفٹ دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہے۔ اسکے پاس 50 برس پرانا اورچھوٹا گھر ہے، اسکے پاس 1980ء کی گاڑی ہے۔
برطانیہ کے وزیراعظم کے پاس دو بیڈروم کا گھر ہے۔
جرمنی کے چانسلر کا ایک بیڈ روم اور ایک چھوٹا سا ڈرائنگ روم سرکاری طور پر ملا ہے –
اسرائیل کا وزیراعظم دنیا کے سب سے چھوٹے گھر میں رہ رہا ہے –

ﺻﺮﻑ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﮯ ﺍﻥ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻣﺤﻼﺕ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻣﺮﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﺰﺋﯿﻦ ﻭ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﭘﺮ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ 80 ﮐﺮﻭﮌ ﺭﻭﭘﺌﮯ ﺳﮯ کچھ ﺍﻭﭘﺮ ﺧﺮﭺ ﮨﻮﺗﮯ ہیں۔

ﺟﻮ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﺑﮍﮮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻻﻧﮧ ﺑﺠﭧ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻫﮯ۔
2 ﮨﺰﺍﺭ 6 ﺳﻮ 6 ﮐﻨﺎﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﺍﻥ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﮕﮩﺪﺍﺷﺖ ﮐﯿﻠﯿﺌﮯ 30 ﮨﺰﺍﺭ ﮈﺍﺋﺮﯾﮑﭧ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮈﺍﺋﺮﯾﮑﭧ ﻣﻼﺯﻣﯿﻦ ﮨﯿﮟ۔
ﺻﺮﻑ ﺍﻥ ﮐﮯ گھاس کے ﻻﻧﻮﮞ ﭘﺮ 18 ﺳﮯ 20 ﮐﺮﻭﮌ ﺭﻭﭘﺌﮯ ﺳﺎﻻﻧﮧﺧﺮﭺ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﯾﮏ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮨﯿﮟ ﺷﮩﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﻥ ﻣﺮﮐﺰﯼ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺘﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯿﮟ۔

ﻟﮩﺬﺍ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮨﯿﮟ ﺑﯿﭻ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﯿﮟ( یا انہیں بھی عوامی فوائد کے لئے مختص کر دیں) ﺗﻮ 70 ﺳﮯ 80 ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﺌﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺭﻗﻢ ﻭﺍﭘﮉﺍ ﮐﮯ ﻣﺠﻤﻮﻋﯽ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺩﻭﮔﻨﯽ ﻫﮯ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺭﮨﺎﺋﺸﯿﮟ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺭﻗﻢ ﻭﺍﭘﮉﺍ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﺍﭘﮉﺍ ﮐﻮ ﭼﺎﺭ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﺑﮍﻫﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯽ۔

ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺭﻗﻢ ﮨﺎﺋﯽ ﻭﮮ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻮﭨﺮﻭﮮ ﺟﯿﺴﯽ ﺩﻭ ﺳﮍﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﺳﮯ ﭘﺸﺎﻭﺭ ﺗﮏ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﮨﺎﺋﯽ ﻭﮮ ﺟﯿﺴﯽ ﻣﺬﯾﺪ ﺍﯾﮏ ﺳﮍﮎ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﻫﮯ۔

ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺭﻗﻢ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺻﺤﺖ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ” ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺍﻧﺴﭩﯿﭩﯿﻮﭦ ﺁﻑ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﺳﺎﺋﻨﺴﺰ ” ﺟﯿﺴﮯ 70 ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﻫﮯ۔

ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺭﻗﻢ ” ﻭﺍﺭﺳﺎ ” ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺭﻗﻢ ﺳﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ 12 ﭘﻼﻧﭧ ﻟﮕﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﻫﮯ۔ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ 45 ﻓﯿﺼﺪ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﻫﮯ۔

ﺩﻧﯿﺎ ﺑﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﺭﮨﺎﺋﺸﯿﮟ ﺳﮑﮍ ﺭﻫﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺁﭖ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ 10 ﮈﺍﻭﺋﻨﮓ ﺍﺳﭩﺮﯾﭧ ‏( ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ‏) ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﯿﻒ ﮐﻤﺸﻨﺮ ﺗﮏ ﺍﻭﺭ ﮈﭘﭩﯽ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﺳﮯ ﮈﭘﭩﯽ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ﺗﮏ ﺳﺐ ﺍﻓﺴﺮ ﺍﻭﺭ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭ ﺩﻭ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﺗﯿﻦ ﮐﻤﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻓﻠﯿﭩﺲ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﺩﮐﻬﺎﺋﯽ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔

ﺁﭖ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻭﮨﺎﺋﭧ ﮨﺎﻭﺱ ﺩﯾﮑﻬﯿﮟ،
ﺻﺪﺍﺭﺗﯽ ﻣﺤﻞ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﮨﺎﻭﺱ ﺳﮯ ﭼﻬﻮﭨﺎ ﻫﮯ
ﺟﺎﭘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ﮨﺎﻭﺱ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ہے ﻫﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔

ﯾﮧ ﺑﮍﯼ ﺑﮍﯼ ﻣﻤﻠﮑﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﺎﻥ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ہے ﺭﻫﮯ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻣﻼﺯﻡ ﺑﯿﻮﺭﻭﮐﺮﯾﭧ ﺍﻋﻠﯽ ﺍﻓﺴﺮ ﺍﻭﺭ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﺍﻥ ﺗﻮ ﺁﭖ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻮﺭﭖ ﭘﻬﺮﯾﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻋﺎﻡ ﺑﺴﺘﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﺎﻡ ﻓﻠﯿﭩﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻡ ﺷﮩﺮﯾﻮﮞ ﮐﯽﻃﺮﺡ ﺭﮨﺘﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔
ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﻬﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻻﻥ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮ ﻭﮮ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻟﻤﺒﮯ ﭼﻮﮌﮮ ﻧﻮﮐﺮ۔

ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺁﭖ ﺍﯾﮏ ﺿﻠﻊ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺿﻠﻊ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﮦ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﮍﯼ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﮍﮮ ﻣﺤﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﺿﻠﻊ ﮐﮯ ﺧﺎﺩﻣﯿﻦ ﻓﺮﻭﮐﺶ ﻧﻈﺮ ﺁﺋیں گے۔
ﺧﻠﻘﺖ ﺧﺪﺍ ﻣﺮ ﺭﮨﯽ ﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻓﺴﺮ ﭨﯿﮑﺴﻮﮞ ﮐﯽ
ﮐﻤﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﭘﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻬﻮﻟﮯ ﮈال کر بیٹھیں ہیں۔

کیونکہ آپ نے خود سے شروع کرنے کا عندیا دیا ہے، تو مجھے امید ہے، کہ ان صاحبان کو بھی اعتراض کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہئے۔
امید ہے کہ نیا پاکستان سب کے لئے، برابر، اور عوام دوست ہو گا۔

(دوستوں سے درخواست ہے اس خط کونئے پاکستان کے وزیراعظم محترم جناب عمران خان تک پہچانے میں مدد کریں۔ شکریہ…

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے