امریکی قیادت کو تجارتی محاز آرائی سے گریزاں کرتے ہوئے درست سمت اختیار کرناہوگی

امریکہ نے جس تکبرانہ انداز میں چین کے خلاف تجارتی جنگ کا آغاز کیا ہے اور یکطرفہ انداز میں جو تجارتی محاز آرائی کا سلسلہ چین کے خلاف جاری رکھا ہوا ہے اسے دیکھ کر یو ں لگتا ہے امریکہ چین کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتا ہے لیکن امریکی قیادت اس حقیقت کو فراموش کیئے ہوئے ہے کہ تجارتی جنگ میں کوئی بھی مکمل جیت حاصل نہیں کر سکتا۔ وائیٹ ہائوس چین کے خلاف بڑے پیمانے پر تجارتی جنگ کا آغاز اس حوالے سے شروع کر چکا ہے کہ چائینیز پراڈکٹس پر امریکہ میں 25فیصد اضافی ٹیرف کا آغاز کر دیا گیا ہے اور رواں مہینے 6 جولائی سے 34بلین ڈالر کی چینی پراڈاکٹس پر امریکہ نے اضافی ٹیرف کولاگو کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اضافی ٹیرف عائد کرنے کے پانچ دن بعد امریکہ نے چین کو ایک اور دھمکی دی اور مستقبل میں دس فیصد اضافی ٹیرف ڈیوٹی کی دھمکی دیتے ہوئے دو سو بلین ڈالر مالیت کے ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا۔

امریکہ جودنیا کی دو بڑی معاشی طاقتوں کے مابین تجارتی محاز پر مسائل میں اضافہ کر رہا ہے جلدی اور بدیر اس تمام تر منفی جدوجہد کے منفی ثمرات حاصل ہوں گے ، بہت سے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی قیادت نے چین کے خلاف جو اقتصادی جنگ شروع کی ہے اس سے امریکہ کی عالمی سطع پرپہچان پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے، چین اور امریکہ کے مابین تجارتی محاز آرائی نہ شروع کرنے کے حوالے سے مزاکرات کے چار دور مکمل ہوچکے ہیں ، تاہم ہر بار امریکی قیادت کی جانب سے رضامندی کے باوجود امریکی قیادت اپنے وعدوں سے منحرف ہو جاتی ہے اور محاز آرائی کوہوا دیدی جاتی ہے۔ ایک پرانی چینی کہاوت ہے کہ ایک ایسا جو اپنے وعوئوں اور وعدوں کا پاس نہ کرے وہ جلدیا بدیر اپنی بات کی اہمیت کھو دیتا ہے اور ائیک قوم جو اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتی وہ جلد یا بدیر تباہی سے دوچار ہو جاتی ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ ایک بڑا ملک ہوتے ہوئے دیگر ممالک کیساتھ نہ صرف اپنے وعدوں سے منحرف ہوا ہے بلکہ ہمیشہ دیگر ممالک کیساتھ معاہدات کے حوالے سے اپنی باہمی اتفاق رائے سے انحراف کیا ہے جس سے عالمی سطع پر اس کے کردار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔دریں اثناء امریکہ کی تجارتی محاز آرائی نے امریکی معیشت کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے، حقیقیت یہ ہی ہے کہ امریکی صارفین امریکہ کے عائد کردہ اضافی ٹیرف کی قیمت ادا کریں گے کیونکہ چینی پراڈکٹس پر عائد اضافی ٹیرف انہی کی جانب موڑ دیا جائیگا کیونکہ دونوں ممالک تجارتی اور معاشی اعتبار سے ایک دوسرے کے بہت سے شعبوں میں بہت حد تک انضمام رکھتے ہیں ۔

امریکی اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق امریکہ کے صارفین سے متعلق پرائس انڈیکس میں ایک فیصد کے تناسب سے اضافہ ہو گا اگر امریکہ ٹیرف میں اضافہ کرتا ہے۔ دوسری جانب امریکی انٹر پرائسز جو چین سے اپریٹ کر رہی ہیں امریکی ٹیرف فیصلے سے انہیں بھی اسی قسم کے چیلنجز کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔واضح رہے کہ امریکی قیادت نے 34بلین ڈالر مالیت کے جو اضافی ٹیرف چینی پراڈکٹس پرعائد کیئے ہیں ان میں سے 20بلین ڈالر ان کمہپنیز کی پراڈکٹس پر عائد کیا گیا ہے جو غیر ملکی کمپنیز چین میں اپریٹ کر رہی ہیں، اس حوالے سے دیکھا جائے تو امریکہ کی جانب سے عائد اضافی ٹیرف کا فیصلہ امریکی کمپنیز کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے۔ دوسری جانب امریکہ کی جانب سے عائداضافی ٹیرف سے ہزاروں امریکی ملازمین اپنی ملازمتوں سے محروم ہو جائیں گے، اس حوالے سے مارک زینڈی جو موڈیز تجزیہ کاری کیہساتھ بحثیت چیف اقتصادی ماہر کے طور پر کام کر رہے ہیں ،

انہوں نے امریکی قیادت کو خبردار کیا ہے کہ ٹرمپانتظامیہ نے ابھی تک جو اضافی ٹیرف کے حوالے سے حکمت عملی وضع کی ہے اس کی وجہ سے اب تک145,000امریکی ملازمین اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں ۔اور یہ شرح مزید بڑھے گی اگر آئیندہ دو سالوں میں چینی پراڈکٹس پر عائد اضافی ٹیرف کی شرح 100بلین ڈالر تک پہنچتی ہے تو اس آئیندہ دو سالوں میں پچاس ہزار امریکی اپنی ملازمتوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف امریکی قیادت اس تجارتی حکمتِ عملی سے ایک بڑی چینی مارکیٹ سے محروم ہو سکتا ہے، چین جسے دنیا میں درمیانے درجے کی آمدن کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس آبادی میں شمار کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ چین دنیا میں سب سے بڑی آٹو مارکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے، سیاحت کے حوالے سے دنیا بھر سے ایک کثیر آبادی چین کا رخ کر رہی ہے، اس کیساتھ ساتھ چین دنیا میں طب، میڈیکل، ادویا سازی اورباکس آفس کے حوالے سے دوسری بڑی عالمی مارکیٹ ہے،

اس ضمن میں امریکہ اپنے دروازے چین پربند کر کے بہت سے امریکن پراڈکٹس کو ایک بڑی چائینیز مارکیٹ سے اپنے ہاتھوں سے محروم کرنے کا مرتکب ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ تجارتی جنگی حکمتِ عملی سے اپنے ہی ملک کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے ، امریکی قیادت تجارتی جنگی حکمتِ عملی سے امریکہ فرسٹ کی پالیسی کو نہیں لیکر بڑھ رہا ہے بلکہ اس پالیسی کے نتیجے میں امریکہ اکیلا رہ جائیگا۔ اور اس حکمتِ عملی سے امریکی قیادت کی خود غرضی پرمبنی چہرہ دنیا بھر کے سامنے عیاں ہو جائیگا۔ تجارتی جنگی حکمتِ عملی سے امریکہ نے نہ صرف چین پر بندوق تانی ہے بلکہ امریکہ نے اس حکمتِ عملی سے یورپی یونین، کینڈا، میکسیکو،انڈیا، روس سمیت دیگر ممالک کیساتھ بھی تجارتی محاز آرائی کو ہو ا دی ہے۔

امریکہ کی اس یکطرفہ حکمتِ عملی سے عالمی معیشت اور عالمی تجارت کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔جس سے عالمی سطع پر کثیر الجہتی تجارتی نطام متاثر ہو رہا ہے عالمی سپلائی نیٹ ورک متاثر ہو رہا ہے بلکہ عالمی سطع پر امریکہ کے مثبت ساکھ کو بھی سنگین نقصان پہنچ رہا ہے۔غیر ملکی تعلقات کے حوالے سے سینٹ کمیٹی کے چئیرمین باب کارکر نے ٹرمپ انتظامیہ کو خبردار کیا ہے کہ امریکہ کی جنگی تجارتی حکمتِ عملی سے امریکہ دنیا بھر کیساتھ دشمنی مول لے رہا ہے۔ دوسری جانب بہت سے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے امریکہی انتظامیہ بین المدتی انتخابات کے لیے لوگوں کی زہن سازی کر رہے ہیں ،تجارتی جنگ سے امریکی کسانوں کے مفادات کو نقصان پہنچے گا بلکہ اس کیساتھ ساتھ کاروباری صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔ جس سے حکمران جماعت ریپبلیکن کے ووٹ بینک بھی خاصا متاثر ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ امریکی چیمبر آف کامرس نے اضافی ٹیرف کے خلاف ایک مہم کا آغاز کر دیا ہے۔اور ان امیدواروں کے لیے ملین ڈالرز اکھٹے کیئے جا رہے ہیں جو بین المدتی انتخابات میں آزادانہ تجارت کو سپورٹ کریں گے،بلا شبہ چین کو تجارتی جنگ میں نقصان کا ممکنہ خطرہ لاحق ہے،تاہم چین امریکی قیادت کو ضرورت کے تحت سبق سیکھانے کے لیے پر عزم ہے،تاکہ نہ صرف کثر الجہتی تجارتی نظام کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے،امریکی پرا پیگنڈہ کا سدِ باب کیا جائے اور چین کے میکنزیم کو امریکہ میں ہر شعبہ زندگی میں روشناس کروایا جا سکے۔ چین کو عالمی سطع پر یکساں حقوق اور کردار کی اہمیت اجاگر کرنے کیلیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

چین کو امریکہ پر اس کی غلطئیوں کو اجاگر کرنا ہوگا اور یہ زعم ختم کرنا ہوگا کہ تجارتی جنگ سے نقصان کسی صورت یکطرفہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے عالمی سطع پر مسائل اور چیلنجز میں اضافہ ہوگا اور جلد ی ابدیر امریکہ کو اس حکمتِ عملی سے پیچھے ہٹ کر درست سمت متعین کرنا ہوگی۔اور قومی امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ دنیا بھر سے ممالک امریکہ کی یکطرفہ تجارتی پالیسی کے خلاف چین کیساتھ اکھٹا ہونا شروع ہو چکی ہے اور عالمی تجارت اور معیشت کے استحکام اور ترقی کے لیے دنیا چین کیساتھ ملکر یکطرفہ حکمت عملی اور پالیسی میکنزیم کو مسترد کر دے گی۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے