امریکہ میں کسانوں کیلئے12بلین ڈالر کا امدادی پروگرام چین کیساتھ تجارتی محاز آرائی کیبعد تنزلی کا شکار

اقتصادی ماہرین نے کہا ہے کہ امریکہ ملک میں 12بلین ڈالر پیکج پروگرام جو کسانوں کی زرعی امدادی ایڈ کے حوالے سے گزشتہ کئی سالوں سے جاری تھا چین کیساتھ تجارتی محاز آرائی کیبعد تنزلی کا شکا ر ہوچکا ہے اور اس تجارتی جنگ کے ردِ عمل میں امریکہ کاتجارتی نیٹ ورک بڑے پیمانے پر متاثر ہوگا جس کے باعث ملکی کسان ممکنہ طور پر12بلین ڈالر کے زرعی امدادی پروگرام سے بھی محروم ہو جائیں گے، اس حوالے سے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی قیادت نے رواں ہفتے دعوی کیا ہے کہ وہ مشکلات کے باوجود کسانوں کو زرعی امدادی پروگرام کے تحت امدادی پیکج کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے اور اس ضمن میں خنزیر فارمز کے مالکان کو براہ راست امداد بھی دی جائیگی۔

امریکہ کی جانب سے ملکی کسانوں اور فارمز کے لیے اعلان کردہ اس پیکج پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک چینی اقتصادی ماہر نے کہا امریکی قیادت ہمیشہ سے چین کے صنعتی امدادی پروگرامز پر کڑی تنقید کرتا چلا آیا ہے اور آج امریکی قیادت بذاتِ خود زرعی امدادی پروگرام کے تسلسل کے لیے امدادی پروگرامز کا عمل درامد کر رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے زرعی امدادی پیکج اعلان کرنے کی کلیدی وجہ بین المدتی انتخابات کے حوالے سے عوامی ہمدردی حاصل کرنا ہے۔

امریکی صدر کی جانب سے اعلان کردہ امدادی پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے شمالی چین کے صوبے ئیبی سے تعلق رکھنے والے ایک خنزیر فارم کے مالک لئی یواآن لنگ نے کہا ہ کہ امریکی صدر کی ملک میں ہاگ فارمز کے حوالے سے اعلان کردہ امدادی پروگارم عارضی اور بین المددتی انتخابات کے لیے ایک عوامل نعرہ سے زیادہ کچھ نہیں۔لئی نے واضح کیا کہ امریکی قیادت ایک ہی وقت پر ملک کے کسانوں کے لیے امدادی پروگرامز کا اعلان کر رہی ہے اور دوسری جانب چین کیساتھ تجارتی محاز آرائی کے زریعے سے ہی اپنے کسانوں اور پیداواری قوتوں کے لیے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے۔

اس حوالے سے بیجنگ اورئینٹ ایگری بزنس کنسلٹنسی سے تعلق رکھنے والے سئنیر تجزیہ کار وان فینگ نے کہا ہے کہ امریکی کسان کو عائد کردہ اضافی ٹیرف سے اگرچہ کوئی مسلئہ نہ ہو لیکن امریکی کسان اور زرعی پیداواری قوتوں کے عالمی نیٹ ورک کو امریکی تجارتی پالیسز اور حکمتِ عملی سے شدید نقصان پہنچے گا اور ان مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ ٹرمپ انتظامیہ عارضی امدادی پیکجز سے کبھی بھی نہیں کر سکتی۔ ماء وانفینگ نے مزید واضح کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد کردہ یہ ٹیرف صرف اضافی ٹیرف کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس تجارتی تنازعہ سے مستقبل میں درامدات اور برامدات کے موجود طریقہ کار کے حوالے سے سنگین پیچیدگیاں جنم لیں گی جس سے آئیندہ چند سالوں میں ٹیرف سے زیادہ سیرئس مسائل سر اٹھائیں گے۔

اس حوالے سے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کیا چائینیز کسان ان پالیسز سے فاہدہ اٹھا پائیں گے تاہم ان پالیسز سے امریکی کسان سخت نقصان اٹھائیں گے۔ امریکہ نے گزشتہ چند ہفتوں میں چینی پراڈکٹس پر جو اضافی 25فیصد ٹیرف عائد کیا ہے اس کے ردِعمل میں چین نے امریکی پورگ پر چین میں برامد پر اضافی ٹیرف عائد کر دیا ہے جس سے چین میں ہاگ فارمز کے مالکان میں جوش وخروش پایاجاتا ہے جو فروری سے سپرنگ فیسٹویل کے بعد سے ملک میں پورگ کی کم قیمتوں پر خاصے نالاں تھے۔

اس حوالے سے چین میں امریکی پورگ کی قیمتوں میں اضافے سے چین میں ہاگ فارمز کے مالکین بہت حد تک مقامی سطع پر بہتر بزنس کی امید وابسطہ کیئے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں مقامی پورگ کی بہتر قیمت حاصل ہو گی۔ امریکی پورگ پر عائد اضافی ٹیرف سے جہاں اسکی چینی کھپت پر منفی اثر ہوگا وہیں مقامی پورگ کی قمیت میں بہتری ہوگی اور ہاگ فارمز کے مالکان کو اپنے جانوروں کی بہتر قیمت حاصل ہوگی۔دوسری جانب اضافی ٹیرف کے بعد سے چین میں امریکی پورگ کی برامدات میں خاصی کمی واقع ہو رہی ہے۔

اور رواں سال کے پہلے پانچ مہینوں میں امریکی پورگ کی برامدات میں 60,547ٹن تک کمی ریکارڈ ہو چکی ہے اس حوالے سے امریکن میٹ ایکسپورٹ فیڈریشن کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں میں امریکی زرعی ڈیپارٹمنٹ کے مطابق امریکہ سے چین برامد کیئے جانیوالے گوشت کی فی ہفتہ مقدار صفر تک جا پہنچی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین کو گوشت کی برامدات نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنوب مغربی چین کے صوبے شی یوآن سے تعلق رکھنے والے ماء شانگچو جو لیانگ شن کے خودمختار علاقے میں ہاگ کے ایک بڑے فارم کے مالک ہیں انہوں نے کہا کہ وہ اس حوالے سے نہیں کہہ سکتے کہ امریکی تجارتی جنگ کے کیا عوامل برامد ہو رہے ہیں لیکن وہ یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر چینی مارکیٹ میں امریکی پورگ کی قیمت میں اضافہ سے اس کی مسابقت بھی مکی واقع ہو گی اور یہ امر ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہے۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے