نیا پاکستان عمل کا متقاضی ہے

اللہ پاک کا شکر ہے کہ وطن عزیز میں ہونے والے گیارہویں عام انتخابات دل میں جنم لینے والے ہزاروں وسوسوں کو توڑ کر کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے۔ اگرچہ ان حالیہ انتخابات میں ماضی کی طرح اپوزیشن کی طرف سے دھاندلی ،غیر جانبداری اور غیرشفافیت جیسے الزام بھی سامنے آئے جبکہ جیتنے والی جماعت ان انتخابات کو ملک کی تاریخ کے سب سے جانبدار اور شفاف قرار دے رہی۔

انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف تقریبا ایک کروڑ انسٹھ لاکھ ووٹ لیکر ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے جبکہ سابقہ انتخابات 2018 میں جیت کر حکومت بنانے والی ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن تقریبا ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ووٹ حاصل کر کے سیاسی طور پر دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت ٹھہری۔

پیپلز پارٹی اپنے ووٹوں میں کوئی خاطر خواہ نہ ہی تو اضافہ کر سکی اور نہ ہی کمی البتہ 2013 کے انتخابات میں حاصل کیئے گئے ووٹوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب ضرور ہوئی۔ انتخابت میں موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت بنتی نظر آرہی ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی اکثریتی نشستوں والی جماعت کے طور پر حکومت بنا لے گی تو کے پی کے میں تحریک انصاف واضح اکثریت میں دوسری مرتبہ حکومت بنا کر کے پی کے کی روایت کو توڑ کر اپنی سابقہ حکومت کو دوام بخشے گی۔

بلوچستان میں بی اے پی اتحادی حکومت بناتی دکھائی دے رہی جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی نشستیں تقریبا برابر برابر ہیں اور یہاں پر آزاد امیدواران کا پلڑا ان دونوں جماعتوں میں سے جس طرف جائیگا حکومت بنانے میں وہی کامیاب ہوگا۔

عالمی مبصرین نے پاکستان میں ہونے والے انتخابات کو درست اور جمہوری قرار دیا ہے جبکہ امریکہ نے اپنے کچھ تحفظات کے ساتھ پاکستان میں بننے والی اگلی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔

پاکستان کی نئی حکومت کے لیئے بہت سارے چیلنجز ہوں گے جن سے نمٹنے کے لیئے پوری طرح سے اگلے 5 سال کی محنت درکار ہوگی۔ خارجہ پالیسی سمیت ملک کو معاشی طور پر بھی اپنے پاوں پر کھڑا کرنا آنے والی حکومت کا امتحان ہوگا۔

ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اب مستقبل پر دھیان دیناہوگا اور ملک کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیئے کچھ سخت اور اہم فیصلے بھی لینا ہوں گے۔ تب ہی جاکر نیا پاکستان بنانے کا خواب حقیقی روپ دھار سکے گا۔

ملک میں قانون کی بالادستی ، انصاف کا بول بالا کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی انتقامی کارروائیوں سے بھی گریز وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ اداروں میں شفافیت کے لیئے میرٹ کا نظام پہلی توجہ مانگتا ہے۔

ملک میں غریبوں کی حالت درست کرنے، بے گھروں کو گھر دینے اور بے روزگار نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنا پڑے گا۔ یہ ایک معاشی ماہر کا امتحان ثابت ہوگا۔

تمام اداروں بالخصوص پنجاب پولیس کی کارکردگی پر اٹھنے والے سوالات کو بھی حل کرنا ہوگا۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں سخت محنت سے کام کرکے ان میں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔

نئے وزیر اعظم کو سادگی کا بہترین نمونہ پیش کر کے مملکت خداداد پاکستان کو حقیقی طور پر ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بنانے کے لیئے سب سے پہلے اپنی ذات سے شروع کر کے عمل کر کے دکھانا ہوگا۔

مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت ہونے سے تحریک انصاف کو چاہیئے کہ اپنی سابقہ کے پی کے حکومت کے تجربات کو بروئے کار لا کر مرکز میں بھی کے پی کے کی طرح کا شفاف نظام حکومت لایا جائے۔

اور اس کے لیئے کے پی کے میں کی جانے والی تعلیمی اور پولیس اصلاحات کا عمل مرکز میں اور پنجاب میں بھی برھائے۔ اپنے پہلے سو دن کے پروگرام میں نئے وزیراعظم کو دو کام جو فوری بنیادوں پر کرنے ہوں گے ان میں پی ایم ہاوس کے ساتھ گورنر ہاوس پنجاب کو تعلیمی مقاصد کے لیئے استعمال اور کالاباغ ڈیم بنانے کا اعلان کرنا ہے۔

تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت ہونے پر پی ایم ہاوس کو تعلیمی مقاصد کے استعمال میں لانے اور پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت بنانے کی صورت میں گورنر ہاوس پنجاب کو بھی تعلیمی مقاصد کے استعمال میں لاکر عملی طور پر ثابت کرے۔

تحریک انصاف کی پچھلی حکومت میں کے پی کے گورنر ہاوس کی طرح اب پی ایم ہاوس اور گورنر ہاوس پنجاب کا نمبر بھی لگنے والا ہے جیسا کہ نئے پاکستان کے جمہوری اور حقیقی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیراعطم کپتان نے اپنی پہلی وکٹری اسپیچ میں اپنے اظہار کا خیال کیا تھا کہ وہ پرانے پاکستان کے وقت کی اپنی باتیں عملا کر کے قوم کو دکھانے کے ساتھ ساتھ اپنی سادگی کا ثبوت بھی پیش کریں گے۔

تو اب پنجاب گورنر ہاوس اور پی ایم ہاوس بھی کے پی کے گورنر ہاوس کی طرح تعلیمی مقاصد کے لیئے استعمال ہوں گے چاہے یونیورسٹی کے طور پر ہوں لائبریری کے طور پر یا کسی بھی اور تعلیمی مقاصد کے لیئے؟ لیکن ٹھہریئے کیوں نہ لگے ہاتھوں اس سے آگے کا ایک قدم اٹھا لیا جائے جو یقینا عملی طور پر نیا پاکستان ہونے کا منہ بولتا ثبوت پیش کر دیگا۔

وہ اگلا قدم کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ گورنر ہاؤس ہی کیوں؟؟ گورنر کا عہدہ بھی ختم کریں ۔

پاکستان کے 1973 کے آئین کا آرٹیکل 101 تا 105 صوبے کے گورنر کے تقرر، حلف، شرائط،قائم مقام گورنر اور دیگر معاملات کی نشاندہی کرتا ہے۔ جہاں تک میں نے سمجھا ہے یہ کوئی اتنا اہم عہدہ نہیں کہ اس کی موجودگی اور غیر موجودگی سے صوبائی معاملات متاثر ہوں۔

جبکہ صوبے میں چیف سیکرٹری کا عہدہ بھی موجود ہے۔ یہ ایک ایسا اضافی عہدہ ہے جو خزانے پر براہ راست بوجھ ہے۔ گورنر ہاؤس ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اس عہدے کو بھی ختم کر دیا جائے تو ذیادہ بہتر ہو گا۔

کہنے کو یہ وفاق کا نمائندہ ہے مگر اس کی حیثیت شو پیس سے زیادہ نہیں ۔ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔

لاہور میں جب بھی کسی تقریب میں گورنر ہاؤس جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کی شان و شوکت نے مجھے صرف یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اس عہدے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ انگریزوں سے چلے آ رہے اس غلامی کی نشانی کو برقرار رکھنے کی خواہش چہ معنی۔

باقی صوبوں کی صورت حال آپ بتا سکتے ہیں تاہم پنجاب کا گورنر ہاوس جو لاہور میں ہے صرف تقریبات کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ جس کا بوجھ ہم عوام برداشت کرتے ہیں۔ یعنی گورنر اور گورنر ہاؤس وہ سفید ہاتھی ہے جو صرف بوجھ ہی بوجھ ہے۔

کے پی کے اور پنجاب گورنر ہاوسز اور پی ایم ہاوس جو کہ پاکستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے کاٹے گئے ٹیکسز سے بنے اور قومی خزانے پر بھی اضافی بوجھ کا موجب ہیں تو پھر انہیں عوام کے لیئے کھول دیں اور گورنر کا عہدہ بھی سرے سے ختم کر دیں تاکہ پیسہ انسانوں پر ہی خرچ ہو اور قومی خزانے پر پلنے والے یہ سفید ہاتھی نما گورنر جو انگریز سرکار کی یاد دلا کر قوم کو ذہنی غلام کا تصور پیش کرتے ہیں اس سے بھی چھٹکارہ حاصل کر کے وطن عزیز کی قوم خود کو ریاست پاکستان کا آزاد شہری محسوس کر سکے۔

پرانے پاکستان میں جس طرح سے ماضی کی حکومت نے پلوں سڑکوں موٹرویز میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے میگا پروجیکٹ کے نام پر اپنے ذاتی خزانے بھر کر کرپشن کی انتہائیں کر کے وطن عزیز کو پوری دنیا کے سامنے کرپٹ ملک کے طور پر پیش کیا۔

اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کے سامنے وطن عزیز کا تشخص ایک نیا پاکستان کے طور پر سامنے لایا جائے۔

کالاباغ ڈیم جس کی فزیبلٹی رپورٹ تک تیار ہو چکی۔
خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے پی ایچ ڈی، سول انجینیئر ، ٹیکنو کریٹ شمس الملک جو کہ سابقہ چیرمین واپڈا کے ساتھ ساتھ مشرف دور میں وزیر اعلی خیبر پختونخواہ کے طور پر بھی ملکی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے بھرپور حمایتی شمس الملک کی سربراہی میں ہی کالاباغ ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ تیار ہوئی اور 80 کی دہائی میں کالاباغ ڈیم کے لیئے سائیٹ منتخب کر کے باقاعدہ سائیٹ پر دفاتر تک قائم کر کے مشینری بھی پہنچ چکی تھی لیکن پھر کالاباغ ڈیم سیاست کی نذر ہو گیا اور سائیٹ پر ہونے والا کام جس میں دفاتر کے لیئے بنائی گئی عمارتوں کے ساتھ ساتھ وہاں پر پہنچائی گئی مشینری گل سڑ کر قومی خزانے کے بوجھ تلے دب چکی۔

اب جبکہ کالاباغ ڈیم پر سیاست چمکانے والے بڑے بڑے برج بھی ڈھیر ہو چکے اور آئندہ کی بننے والی متوقع حکومت کے لیئے شائد اس سے آئیڈیل وقت پھر کبھی نہ ملے کہ اسمبلی میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے بھی موجود نہیں ہوں گے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار پہلے ہی کالاباغ ڈیم کے لیئے قوم میں تحریک پیدا کرنے کے لیئے کالاباغ ڈیم فنڈ قائم کر کے اپنی طرف سے فنڈ بھی جمع کروا چکے ہیں۔

فوج کی طرف سے بھی اس کالاباغ ڈیم فنڈ میں فوجی افسران کی طرف سے دو دن اور فوجی جوانوں کی ایک دن کی تنخواہ جمع کروانے کا اعلان بھی ہو چکا۔ سول سوسائٹی اور قوم کی طرف سے بھی اس فنڈ میں پیسے جمع کروانے کا عمل شروع ہے۔

جبکہ وطن عزیز کے اگلے متوقع وزیراعظم جو کہ پہلے ہی اندرون ملک سمیت بیرون ملک سے بھی فنڈ ریزنگ کر کے ملک میں کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کا قیام عمل میں لا چکے ہیں۔ تو پھر اب وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف کو قوم کے ساتھ مل کر کالاباغ ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ کر اسے پایہ ء تکمیل تک پہنچا کر وطن عزیز سے اندھیرے ختم کرکے ہی دم لینا چاہیئے۔ کیونکہ اگر واقعی میں نیا پاکستان بنانا ہے تو حقیقی طور پر ایسا عمل کر کے ہی نئے پاکستان کا خواب شرمندہ ء تعبیر ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے