خان صاحب! تنقید کیلئے تیار ہو جائیں

وہ جب اسکول میں پڑھتا تھا تو اکثر یہ خواب دیکھتا تھا کہ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ میچ کیلئے میدان میں اترنے والی ہے اچانک پتہ چلتا ہے کہ ٹیم کا ایک کھلاڑی بیمار ہوگیا ہے اور پھر اس بیمار کھلاڑی کی جگہ اسے ٹیم میں شامل کر لیا گیا ہے۔ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں شمولیت کے خواب دیکھنے والے اس بچے کا نام عمران خان تھا۔

اس بچے کو اس کی ماں شوکت خانم نے یہ سمجھایا کہ خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کیلئے سخت محنت کی ضرورت ہے شارٹ کٹ سے حاصل کی جانے والی کامیابی دیرپا نہیں ہوتی۔ یہ ماں اپنے اکلوتے بیٹے کو سچ اور جھوٹ کا فرق سمجھانے کیلئے بتاتی کہ سچے لوگ جنت میں جائیں گے اور جھوٹے لوگ دوزخ کی آگ میں جلائے جائیں گے۔ ننھا عمران خان معصومیت سے اپنی ماں کو پوچھتا کہ کیا جنت میں وہ کرکٹ کھیل پائے گا اور ماں ہنس کر کہتی کہ جنت میں سب کچھ ملے گا بس سچ اور صرف سچ بولا کرو۔

شوکت خانم کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہوا عمران خان ایک دن پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوگیا اور پھر وہ دن بھی آیا جب عمران خان کی قیادت میں اسی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ جیتا۔ جب عمران خان نے ورلڈ کپ جیتا تو ان کی والدہ شوکت خانم اس دنیا میں موجود نہ تھیں۔

وہ 1985ء میں کینسر کی وجہ سے انتقال کر چکی تھیں اور عمران خان ان کے نام پر کینسر اسپتال بنانے کی کوشش میں مصروف تھے۔ کینسر اسپتال بنانے کیلئے عمران خان نے پاکستان کے اندر اور باہر عطیات وصول کرنے کی مہم چلائی اور اسی مہم کے دوران انہیں بہت سے لوگوں نے سیاست میں آنے کا مشورہ دیا۔ 1994ء میں شوکت خانم اسپتال کا افتتاح ہوگیا اور 1995ء میں مسلم ٹائون لاہور میں ایک اجلاس ہوا جس میں عمران خان بھی شریک تھے۔

اس اجلاس میں ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت پر گفتگو جاری تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس نئی جماعت کا چہرہ تو عمران خان ہونگے لیکن ماسٹر مائنڈ حمید گل ہونگے۔ میں نے عمران خان کو مشورہ دیاکہ بہتر ہے آپ اسپتال پر توجہ دیں۔ ایک سال کے بعد میں اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ شام کے دارالحکومت دمشق میں موجود تھا اور وہاں پتہ چلا کہ عمران خان نے نئی سیاسی جماعت قائم کرلی ہے۔

دمشق سے واپسی پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھے پوچھا کہ عمران خان کا کیا مستقبل ہے؟ میں نے کہا کہ وہ محنتی آدمی ہے شارٹ کٹ نہیں لگائے گا اورکچھ سالوں کے بعد آپ کو ٹف ٹائم دیگا۔

تحریک انصاف بننے کے کچھ عرصے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف ہوگئی۔ نوازشریف نے عمران خان کو مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی پیشکش کی لیکن عمران خان نے معذرت کرلی۔ وہ نوازشریف اور حمید گل دونوں سے دور رہے۔

1996ء سے لیکر آج تک عمران خان نے بہت سی سیاسی غلطیاں کی ہیں لیکن انہوں نے کچھ ایسے فیصلے بھی کئے جن کی وجہ سے وہ گمنامی کے اندھیروں میں غرق ہونے سے بچ گئے۔ 1988ء میں جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی تو جنرل ضیاء نے عمران خان کو اپنی نئی حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔

جنرل ضیاء کے برخوردار ڈاکٹر انوار الحق نے عمران خان سے رابطہ کیا اور اپنے والد کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ سیاستدانوں سے تنگ آگئے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ آج پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے بڑی متانت کے ساتھ معذرت کرلی اور کہا کہ وہ اپنے آپ کو حکومت کی وزارت کیلئے اہل نہیں سمجھتے۔ 2002ء میں جنرل پرویز مشرف نے الیکشن سے قبل عمران خان کو بتایا کہ وہ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کی ایک مخلوط حکومت بنائیں گے وہ چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف اس مخلوط حکومت میں شامل ہو جائے۔

عمران خان نے انکار کردیا۔ اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان الحق اور میجر جنرل احتشام ضمیر نے عمران خان کو راضی کرنے کی بہت کوشش کی لیکن عمران خان نہ مانے۔ جنرل مشرف نے کہا کہ اگر آپ نے ہاں نہ کی تو آپ کی پارٹی الیکشن ہار جائے گی۔ عمران نے کہا کہ بے شک پارٹی ہار جائے میں کرپٹ لوگوں کے ساتھ حکومت میں شامل نہیں ہوسکتا۔

پھر غصے میں آکر انہوں نے گجرات کے چودھری برادران کے خلاف تقریریں بھی کر ڈالیں۔ 2002ء کے انتخابات میں عمران خان بڑی مشکل سے اپنی میانوالی کی سیٹ بچا سکے۔ یہ دور اتنا مشکل تھا کہ ان کے پاس اسلام آباد میں پارٹی کے دفتر کا کرایہ ادا کرنے کے پیسے نہ تھے لہٰذا یہ دفتر ختم کردیا گیا اور عمران خان نے پارلیمنٹ لاجز میں ایک اپارٹمنٹ لیکر دفتر وہاں منتقل کیا۔

اسی زمانے میں ان کی پہلی اہلیہ جمائما نے ان سے پوچھا کہ آخر کب تک ایسی سیاست کرو گے جس میں کامیابی کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا؟ جمائما کو سب سے بڑا یہ اعتراض تھا کہ اس سیاست نے عمران کو اپنے خاندان سے دور کردیا تھا۔ ان دنوں عمران خان سے کئی مرتبہ ان کے مستقبل پر گفتگو ہوئی۔ انہیں کامیابی کا یقین تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ایک دن مجھے کامیابی ملے گی اور میں پاکستان کو تبدیل کروں گا۔ انہوں نے پرویز مشرف کی ڈٹ کر مخالفت شروع کردی۔ ایک دفعہ الطاف حسین نے نئی دہلی میں پاکستان کے خلاف تقریر کردی۔

عمران خان نے جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں الطاف حسین پر تنقید کی تو پیمرا نے میری جان عذاب میں ڈال دی۔ ایم کیو ایم نے سیتا وائٹ کے معاملے پر شور مچانا شروع کردیا اور الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف ریفرنس دائر کردیا۔

پھر جب 12مئی 2007ء کو کراچی میں قتل عام ہوا تو عمران خان نے کیپٹل ٹاک میں ایم کیو ایم کو قتل عام کا ذمہ دار قرار دیا۔ ذرا سوچئے! ایم کیو ایم ایک فوجی صدر کی اتحادی تھی لیکن عمران خان نے ایک فوجی صدر کی اتحادی حمایت پر تنقید کر کے ہمیں بھی مشکل میں ڈالا اپنے آپ کو بھی مشکل میں ڈالا۔

پھر مشرف نے ایمرجنسی لگا کر مجھ سمیت پانچ ٹی وی اینکرز کو اسکرین سے غائب کردیا۔ وکلاء اور صحافیوں نے مشرف کے خلاف تحریک شروع کی تو میں سڑکوں پر کیپٹل ٹاک کیا کرتا تھا اور عمران خان میرے روڈ شوز میں شریک ہو کر آزادی صحافت کے حق میں نعرے لگواتے تھے۔ نہ وہ دبائو میں آئے نہ ہم دبائو میں آئے۔

22سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد آج عمران خان الیکشن میں اکثریت حاصل کر چکے ہیں۔ جمائما نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ عمران نے اپنی انتھک محنت سے اسے 2002ء میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیدیا ہے۔ عمران خان نے یہ کامیابی مسلسل جدوجہد سے حاصل کی ہے۔ شارٹ کٹ نہیں لگایا۔

کچھ سمجھوتے ضرور کئے ہیں اور الیکشن میں دھاندلی کا شور بھی ہے لیکن یہ شور تو خود عمران بھی مچاتے رہے۔ دھاندلی کا شور میڈیا کو دبانے سے نہیں دبے گا۔ دھاندلی پر میڈیا میں ٹھوس شواہد کے ساتھ بحث کی جانی چاہئے۔ میں نے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے ثبوت کیپٹل ٹاک میں دکھائے تھے تو مسلم لیگ (ن) والے ناراض ہوئے تھے۔ 2018ء میں جب ہم دھاندلی پر بحث کرتےہیں تو تحریک انصاف کو ناراض نہیں ہونا چاہئے۔

آج بہت سے مبصرین پاکستانی میڈیا پر دبائو اور سنسر شپ کی شکایت کررہے ہیں۔ میں تو اس غیر اعلانیہ سنسر شپ پر کئی سال سے پیٹ رہا ہوں لیکن جو حریت پسند پہلے میرا مذاق اڑاتے تھے آج سب سے زیادہ وہی چیخ رہے ہیں۔ عمران خان کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ میڈیا پر سنسر شپ کے تاثر کو زائل کریں۔ میڈیا کو وہی آزادی دیں جس کی حمایت وہ مشرف دور میں کرتے تھے۔

جو لوگ آج عمران خان کو برا بھلا کہہ رہے ہیں انہیں بولنے دیا جائے، عمران خان اپنی اچھی کارکردگی سے ان کا منہ بند کرائیں۔ عمران خان ’’سچ‘‘ بولنے والوں اور مثبت تنقید کرنے والوں کی قدر کریں یہ توقع مت رکھیں کہ ان کے صحافی دوست ان پر تنقید نہیں کریں گے۔ ہم اچھے کاموں کی تعریف کریں گے لیکن غلطیوں پر تنقید ضرور ہو گی کیونکہ ہماری مائوں نے بھی ہمیں یہی سکھایا تھا کہ ہمیشہ سچ اور صرف سچ بولو ہمیں وہی پاکستان بنانا ہے جیسا پاکستان شوکت خانم دیکھنا چاہتی تھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے