وادی یہ تمہاری ہے وہ صحرا بھی تمہارا

حرّیتِ فکر اگر شعار ہو جائے۔ کائنات میں کارفرما ابدی قوانین کے ادراک سے، اگر ترجیحات طے کی جائیں۔ اپنے مالک اور خود پر اگر یقین ہو تو سب کے سب صحرا گلستاں ہو سکتے ہیں۔
جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ تمہاری ہے وہ صحرا بھی تمہارا

شوکت خانم ہسپتال پر مشورے کے لیے مدعو کیے گئے 30 میں سے 29 ڈاکٹروں نے عمران خان سے کہا تھا کہ کینسر ہسپتال بن نہیں سکتا۔ تیسویں کا کہنا یہ تھا کہ بن سکتا ہے مگر چل نہیں سکتا۔ 26 سال سے یہ ہسپتال لاہور میں جگمگا رہا ہے۔ پشاور میں دوسرا بھی، کراچی میں آغازِ کار ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ بروئے کار ہو گا۔ مالی ایثار میں کراچی والے سب دوسروں سے بڑھ کر ہیں۔

کپتان پہ اب قومی معیشت کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ اگر موزوں اور لائق لوگوں سے اس نے مشورہ کیا۔ اگر وہ ڈٹ گیا اور قوم نے اس کا ساتھ دیا تو فلاکت اور انحصار کے یہ دن بیت جائیں گے۔ ترکی اور ملائیشیا کی طرح بالآخر سچی آزادی کا روزِ سعید طلوع ہو گا۔ کسی فرد اور خاندان کی طرح کوئی قوم بھی آزاد نہیں ہے، اپنا گھر چلانے کے لیے، غیروں کی اگر محتاج ہے۔

امریکیوں نے آئی ایم ایف کو حکم دیا ہے کہ وہ پاکستان کو قرض نہ دے۔ عالمی مالیاتی ادارے کو انتباہ کرتے ہوئے امریکی منصب دار نے کہا: کوئی غلطی نہ کریں۔ ہم آپ پہ نظر رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی ڈالر چین کے قرض دہندوں یا خود چین کو دیے جانے کا کوئی جواز نہیں۔

جیسا کہ آئی ایم ایف کے ترجمان نے بتایا، پاکستان نے ابھی تو رابطہ ہی نہیں کیا۔ کوئی درخواست ہی دائر نہیں کی۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کینگ شوانگ نے کہا: آئی ایم ایف کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ اسے ڈکٹیشن کی کوئی ضرورت نہیں۔ پاکستان ان معاملات سے مناسب طریق سے نمٹ لے گا۔

مناسب طریق کیا ہے؟ 1981ء میں مہاتیر محمد نے اقتدار سنبھالا تو ملائیشیا کی فی کس آمدن 50 ڈالر سالانہ تھی، چین کی 180 اور پاکستان کی 380 ڈالر۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ترکی کا حال بھی پتلا تھا۔ رہا سنگا پور تو وہ ایک چھوٹا سا بے معنی جزیرہ تھا۔ کسی شمار میں نہ قطار میں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ چاروں اقوام دنیا کے اقتصادی افق پہ ستاروں کی طرح دمکنے لگیں۔ انہی کا کیا ذکر، دوسری عالمگیر جنگ میں تباہ ہونے والی جرمنی، جاپان، اور کوریا کی معیشتیں بھی۔ ہم اس لیے ٹھوکریں کھاتے رہے… اور اب بھی کھا رہے ہیں کہ کبھی کوئی واضح لائحہ عمل نہ بنا سکے۔

لڑنے بھڑنے اور ایک دوسرے کو کاٹ کھانے پہ ہمیشہ مستعد‘ مگر ذہنی ریاضت سے مفرور، ہم سہاروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ایک بار یکسوئی اختیار کر لی۔ ایک بار اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا تہیہ کر لیا‘ اور چل نکلے تو منزل کو کیوں نہیں جا لیں گے؟ جیسا کہ جدوجہد کرنے والی دوسری سب اقوام نے جا لیا۔ کسی فرد، کسی معاشرے اور کسی قوم کے لیے اللہ کے قوانین مختلف نہیں۔ فرمایا: تم اس کی سنت کو بدلتا ہوا نہ پائو گے۔

مایوسی پھیلانے والے بہت ہیں۔ غیر ملکی خیرات پر تعیش کی زندگیاں بسر کرنے والے این جی اوز کے بے شرم الگ۔ کم از کم دو بڑے میڈیا گروپوں کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ان کی امّاں جان ہے۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ قرض اور بھیک مانگ کر بسر کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے مرے صحن میں رستے بنا لیے

آئی ایم ایف امریکہ کی کنیز نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پہ سمجھا جاتا ہے۔ چین بھی اس کا ممبر ہے اور دنیا کے بہت سے ملکوں سمیت ہم بھی۔ برہم ہو کر خود شکنی کی راہ اختیار کرنے یا سربسجود ہونے کی بجائے، اگر خود داری اور حکمت کی راہ ہم نے اختیار کی تو سویر کا اجالا بہت دور نہیں ہو گا۔
شاخِ گل ہی اونچی تھی نہ دیوارِ چمن بلبل
تری ہمت کی کوتاہی تری قسمت کی پستی ہے

قسمت کوئی چیز نہیں ہے، قدرت کے اصول ہیں۔ صبر و استقلال کے ساتھ جدوجہد پر جو آمادہ ہے، اس کے لیے نجات اور سرخروئی ہے۔ جس نے پتوار ڈال دئیے، اسے طوفان نگل جاتے ہیں۔ امید اور امید کے ساتھ ذہنی و جسمانی ریاضت۔ کامیابی کا فقط ایک قرینہ ہے۔ دوسرے سب برباد ی کے۔ اقبالؔ نے کہا تھا۔
کارِ مرداں روشنی و گرمی است
کارِ دوناں حیلہ و بے شرمی است

کم ہمت اور پست لوگوں کا طریق حیلہ اور کم ہمتی ہے۔ آزاد انسانوں کا شعار روشنی اور گرمی ہے۔ اقبالؔ نے کب یہ کہا تھا: اندھیری شب میں لے کے نکلوں گا میں اپنے درماندہ کارواں کو/ شرر فشاں ہو گی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا… غالباً یہ بیسویں صدی کا تیسرا عشرہ تھا۔ مسلم برصغیر ذہنی ابتری اور معاشی پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں پڑا تھا۔ پھر اس نے آزادی کا خواب دیکھا۔ فقط انگریز ہی نہیں بلکہ ہندو کانگریس اور اس کے حیلہ جو حواریوں سے بھی۔

آج ہمارے پاس ایک آزاد وطن ہے۔ ہزار زخم خوردہ سہی، نخیف و نزار سہی مگر اپنا وطن ہے۔ دنیا کی بہترین فوج، دنیا کا بہترین ایٹمی اور میزائل پروگرام، اللہ کے فضل سے ہم محفوظ ہیں۔ خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہیجان میں چیخنے چلّانے کی۔ دنیا کی زرخیز ترین مٹی، دنیا کی سات ذہین ترین اقوام میں سے ایک قوم۔ کرّۂ ارض پہ بہترین معدنی وسائل رکھنے والی سرزمین۔ ترجیحات اور راہِ عمل طے کرنے کی بات ہے۔ یوں کوئی قوم بھٹکنا چاہے تو بنی اسرائیل کی طرح، پیغمبر کی موجودگی میں بھی چالیس سال صحرا میں بھٹک سکتی ہے۔

پاکستان کا معاشی مسئلہ سنگین ہے۔ ایسا بھی مگر سنگین نہیں کہ قوم اگر ڈٹ جائے تو نجات نہ پا سکے۔ کرپشن ہے اور ہر سطح پہ کرپشن۔ اسراف ہے اور ہر سطح پر اسراف۔ بد نظمی ہے اور ہر سطح پر بد نظمی۔ معاشی نظم و نسق درکار ہے۔ بڑے بڑے منصوبے نہیں، عوامی بہبود کے پروگرام، پولیس اور پٹوار کی، تعلیمی اداروں کی اصلاح، سول اداروں کی تعمیر۔ سب سے بڑھ کر بلدیاتی اداروں کی تشکیلِ نو۔ دنیا بھر کی اقوام نے اس سے فیض پایا ہے۔ قوم میں شرکتِ اقتدار کا احساس اسی سے جنم لیتا اور قیادت اسی سے ابھرتی ہے۔ کفایت شعاری اور اس کا آغاز اوپر سے ہوا کرتا ہے۔

پختون خوا میں عمران خان نے یہ راستہ اختیار کیا۔ پٹواری کے جبر سے نجات دی۔ سکولوں اور ہسپتالوں میں حیلہ جو اور بہانے باز عملے کا احتساب کیا۔ پنجاب میں وسائل کہیں زیادہ تھے۔ شاندار پل‘ سڑکیں اور میٹرو بسیں۔ نتیجہ کیا نکلا؟ عمران خان کے ارکانِ اسمبلی سیاست نا آشنا تھے۔ ایک تہائی تو بکائو بھی، جیسا کہ سینیٹ کے الیکشن میں واضح ہوا۔ وزرا نا تجربے کار، کچھ یکسر نا اہل۔ آخر کار جماعتِ اسلامی سمیت تمام اپوزیشن پارٹیاں اس کے خلاف یکجا ہو گئیں۔ اس کے باوجود صوبے کے عوام نے اسے تقریباً دو تہائی اکثریت کیوں بخشی؟ دانشور چیختے چلاتے بہت ہیں، اس پہ غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔

بیرونِ ملک پڑا سرمایہ واپس لایا جا سکتا ہے۔ جی ہاں ، بہت دشواری سے مگر لایا جا سکتا ہے۔ سمندر پار پاکستانی ملک میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں ، آسانی سے نہیں کہ سرمایہ ہمیشہ خوف کا شکار ہوتا ہے‘ لیکن کر سکتے ہیں۔ سرکاری اداروں کی نجکاری سے پانچ سات سو ارب روپے سالانہ کی بچت ممکن ہے۔ ٹھیکیداری نظام کی اصلاح سے شاید اس سے بھی زیادہ۔ ٹیکس وصولی کا نظام بہتر بنا کر ایمنسٹی سکیم سے جس کی بنیاد رکھی جا چکی، ٹیکس وصولی میں ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ممکن ہے۔ اور کیا چاہئے؟ اور کیا چاہئے؟ حرّیتِ فکر اگر شعار ہو جائے۔ کائنات میں کارفرما ابدی قوانین کے ادراک سے، اگر ترجیحات طے کی جائیں۔ اپنے مالک اور خود پر اگر یقین ہو تو سب کے سب صحرا گلستاں ہو سکتے ہیں۔
جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ تمہاری ہے وہ صحرا بھی تمہارا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے