پاکستان کےنئے وزیر اعظم ،خوش آمدید!

عمران خان کی پارٹی نے پاکستان میں حال ہی میں ختم ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ میں نے ان کی فتح کی رپورٹ سنی، اور انتخابی نتائج کے بعد ان کی پہلی تقریر سنی ۔ میری دعا ہے کہ ان کے اس اچھے ارادے کی تکمیل ہو، مثبت بنیادوں پر پاکستان کی تعمیر کا کام آگے بڑھے، آمین۔

کامیابی کے بعد کی اپنی پہلی تقریر میں، عمران خان نے حوالہ دیا کہ ان کواپنے کام کی تحریک(inspiration)پیغمبر ِاسلام کی طرف سے مدینہ میں قائم پہلی اسلامی ریاست سے حاصل ہوتی ہے۔ مدینہ کا حوالہ دینا، صحیح آغاز کو بتاتا ہے، اور یہ اس بات کی توثیق ہے کہ یہ سفر ضرور منزل تک پہنچےگا۔ اپنے ملک کے بارے میں مسٹر خان کا عہد اس بات کا مزید پکا ثبوت ہے۔

نوے سال سے زیادہ عمر کے انسان کی حیثیت سے، اورجیسا کہ میں حالات دیکھ رہا ہوں، میں کچھ مشورے دینا پسند کروں گا ۔میں نے نہایت گہرائی کے ساتھ پیغمبر اسلام محمدبن عبد اللہ کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کاسب سے اہم سبق جو میں نے دریافت کیا ، وہ یہ ہے کہ کسی بھی کوشش کی کامیابی کو یقینی بنانے کی کلید، درست آغاز کوجاننا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی عیسوی میں قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ اس وقت، آپ کے سامنے مسائل (problems) بھی تھے، اورمواقع (opportunities)بھی۔ ایسے موقعے پر آپ نے جو طریقہ اختیار کیا، اس کو ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy) کا نام دیا جاسکتا ہے۔آپ کی کامیابی کا راز یہی درست آغاز تھا۔

اس پالیسی کی بنیاد پر، آپ نے متنازع معاملات(controversial matters) کو گفتگو کی میز (negotiation table) پر رکھا، اور یہ منصوبہ بنایا کہ غیر متنازع طور پر جو مواقع موجود ہیں ، ان کو بھر پور طور پر اویل (avail)کیا جائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ڈی لنکنگ پالیسی اعلی حکمت (super wisdom) پر مبنی تھی۔ اس وجہ سے آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ اپنے نقشے کے مطابق مدینہ کى سٹی اسٹیٹ کی تعمیر کا كام کسی وقفہ کے بغیرانجام دے سکیں ۔ تاہم پاكستان كے قيام كے بعدپاكستان كے ليڈروں نے سب سے زياده اهميت اس پر دي كه وه پاكستان كے ان حصوں كو دوباره حاصل كريں جن كے متعلق ان كا خيال هے كه وه مختلف اسباب سے پاكستان بننے كے بعد اس سے چھن گئے تھے۔

مگر تاريخ كي متعدد مثاليں بتاتي هيں كه اس معامله ميں رسول الله صلي الله عليه وسلم كي پاليسي نهايت كامياب تھي۔ مثلاً دوسري عالمي جنگ كے بعد جرمني نے اپنے ملك كا ايك حصه كھو ديا تھا۔ پھر بھي جرمني يورپ كا سب سے زياده ترقي يافته ملك بن گيا۔ اسي طرح برطانيه اور جا پان كي مثال هے جنهوں نے دوسري عالمي جنگ كے بعد تعليم كے ميدان ميں اسي پاليسي كو اختيار كرنے كي بنا پر بهت زياده ترقي كي۔پيغمبر اسلام كي ڈی لنکنگ پاليسي تاريخ كے تجربه سے نهايت كامياب پاليسي ثابت هوئي هے۔

ڈی لنکنگ پاليسي كا سب سے بڑا فائده يه هے كه اس كا موقع ملتا هے كه نيشنل تعمير كے ليےری پلاننگ ( replanning) كي جائے، اور ملک کی تعمیر پر توجہ مرکوز کی جائے۔ جيسا كه يه موقع دوسري عالمي جنگ كے بعد جرمني اور جاپان ، وغیرہ، كو ملا۔ دوسري عالمی جنگ کے بعد ان ممالک نے اس ڈی لنکنگ پالیسی کو اپنایا، اور تعلیم اور سائنس کے میدان میں غیر معمولی ترقی (tremendous progress) حاصل کی۔

پاکستان کے لیے وقت کی پکار یہ ہے کہ پاکستان اس ڈی لنکنگ پالیسی کو اختیار کرے،اور جیسا کہ مسٹر خان نےاشارہ کیا ہے، آج کی دنیا میں تجارت کامیدان سب سے بڑا میدان ہے، جو ملک کی ترقی کو یقینی بناتا ہے۔ آج دنیا میں تجارت کے لیے اوپن پالیسی کو اپنا یا جارہا ہے۔ اس عالمی اصول کی وجہ سے، بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارتی میدان مکمل طور پر کھلا ہوا ہے، اور یہ ایک ایسا موقع ہے جس سے انتہائی حد تک ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ دونوں ممالک کو متنازعہ مسائل کو سائڈ میں رکھ کر مضبوط تجارتي تعلقات کے لئے کام کرنا ہوگا۔یہی دونوں ملکوں كے ليے ڈي لنكنگ پاليسي هے،جو دونوں ممالک کی تعمیر کو یقینی بنائے گا۔ ڈی لنکنگ پاليسي کا یہى طریقہ رسول الله كي كاميابي كا سب سے بڑا راز تھا ۔

انڈيا اور پاكستان دونوں يكساں تاريخي روايت كے وارث هيں۔ اس لحاظ سے دونوں كے درميان يكساںتاریخي بنیاد موجود هے۔ حقيقت يه هے كه دونوں كے درميان اتنا زياده مشابهت هے كه يه كهنا مبالغه نه هوگاكه دونوں كے درميان ڈی لنکنگ پاليسي كي بنياد پہلے سے پوري طرح موجود هے۔ اب ضرورت صرف يه هے كه اس كو منظم انداز ميں استعمال كيا جائے۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان بہت سے راستے کھلے ہوئے جن میں وہ شریک ہوسکتے ہیں اوراپنے اپنے ملکوں کی كے لئے کام کرسکتے ہیں، بهت سے يكساں مواقع موجود هيں جن ميں دونوں ملك برابر كي شراكت كے ساتھ ترقي كا كام كرسكتے هيں۔روايتي قسم كے ٹريڈ اور بزنس كے علاوه بهت سے نئے ميدان دونوں كے درميان پوري طرح كھلے هوئےهيں۔ مثلاً ايجوكيشن، هيلتھ سروسز،ٹكنالوجي، ميڈيا وغيره۔قریبی پڑوسی ہونے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان زیادہ دنوں تک نزاعی سیاست کو برقرار رکھنے کا تحمل نہیں کرسکتے۔ قريبي پڑوسيوں كے ليے میوچول ٹرسٹ يه هوتا هے كه دونوں كے درميان حریفانہ (rivalry) تعلق نه هو، بلكه دوستانہ (friendship) تعلق هو۔ان دونوںممالک کوتعمیر کے راستے میں، متوازی طور پر آگے بڑھنے کے لئے منظم طور پر ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ مبنی بر نزاع سیاست کو بدل کر مبنی بر تعاون سیاست کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔

سیاست میں کوئی پالیسی ابدی نہیں ہوتی۔ 1947کے بعد دونوں ملکوں نے مبنی بر نزاع سیاست کا تجربہ کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ باہمی تعاون کے اصول پر تعمیری سیاست کا تجربہ کریں۔ مختلف ممالک کا تجربہ بتاتا ہے کہ اگر وہ ایسا کریں تو دنیا بہت جلد ترقی کی نئی مثالوں کا مشاہدہ کرے گی۔

میں نے 1971 میں پہلی بار پاکستان کا سفر کیا تھا۔ جب میں بارڈر کراس کرکے پاکستان میں داخل ہوا تو مجھے یہ یقین کرنے میں دیر لگی کہ میں ایک ملک سے نکل کر دوسرے ملک میں داخل ہوگیا ہوں۔ سارا ماحول وہی تھا، جو سرحد کے دوسری پار میں نے دیکھا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ تو دو یکساں ملک ہیں، پھر ان میں ٹکراؤ کس لیے۔

آنے والی رات کو جب میں لاہورمیں اپنے میزبان کے گھر پر تھا۔ رات کے کھانے کے بعد ہم دونوں گھر کی چھت پر گئے۔ خوش قسمتی سے یہ قمری مہینے کی چودھویں تاریخ تھی۔ ہمارے اوپر چودھویں رات کا چاند آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ میرے میزبان نے عجیب احساس کے ساتھ کہا : یہی چاند تو انڈیا میں بھی چمکتا ہوگا۔ یہ کہہ کر وہ چپ ہوگئے۔ میں نے ان کے چہرے کو دیکھا تو وہ خاموش زبان میں کہہ رہے تھے کہ جب ایک ہی چاند دونوں ملکوں میں چمک رہے ہیں، تو دونوں کے درمیان ٹکراؤ کس لیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے