ظہیر قندیلؔ کی قندیل

پروفیسر محمد ظہیر قندیلؔ سے تعارف فیس بُک کے توسط سے ہوا۔ ان کے علمی وادبی کارناموں کو دیکھ کر اور ان کا اردو زبان کے ساتھ والہانہ عشق دیکھ کے بے اختیار ان سے دوستی کرنے کو من چاہا۔ شاعری کے ساتھ تحقیق و نثر نگاری میں بھی مشقِ سخن کرنے والے ظہیر قندیلؔ بلا شبہ ایک بہترین معلم بھی ہیں جبھی تو ان کے شاگرد اپنے استاد کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ ان کے طلبہ میں سے ایک ایسا غیور اور بلند ہمت طالب علم بھی پیدا ہوا جو وطن عزیز کے لیے اپنا لہو بہا گیا۔ دیگر طَلَبہ بھی علم و عمل کے میدان میں یوں آگے آئے کہ استاد کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔

ستمبر ۲۰۱۵ء میں ظہیر قندیلؔ کی کے ایک شاگردنے وطنِ عزیز کی شمع کو اپنے خون سے روشن کیا۔ میری مراد کیپٹن اسفند یار بخاری شہید سے ہے۔ پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر کے ایک معرکے میں وطن دشمنوں سے بر سرِ پیکار پاک وطن کے اس سپوت نے جامِ شہادت نوش کیا۔ اس شہادت سے جہاں کئی لوگ متاثر ہوئے وہاں شہید کے اُستاد ظہیر قندیلؔ کے جذبات بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے۔ آفریں ہے اس استاد پر جس کا شاگردا سفند یار ہو اور خوش قسمت ہے وہ شاگرد جس کا ظہیر قندیلؔ جیسا استاد ہو۔ میں بلا مبالغہ یہ بات کہ رہا ہوں کہ ملک میں کئی نوجوان شہادت کے رتبے پر فائز ہوتے ہیں لیکن کسی کسی کو یہ اعزاز ملتا ہے کہ اس پر یوں قلم اٹھایا جاتا ہے جیسا کہ وہ حق رکھتا ہو۔ میں سمجھتا ہوں اسفند یاربخاری یقیناًجنت الفردوس میں اس بات پر مسرور ہوگا کہ وہ ظہیر قندیلؔ کا شاگرد ہوا ہے۔

شہید ہونا اور راہِ خدا اور ملک و ملت کے لیے جان قربان کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں۔ ظالموں کے سامنے ڈٹ جانا اور سر کٹا دینا کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔اسلام میں شہید کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے۔ کتاب اللہ کے مطابق شہید بہ ظاہر مرتا ہے لیکن در حقیقت وہ کبھی نہیں مرتا بلکہ زندہ رہتا ہے۔ بے شک شہید کبھی نہیں مرتا’’ معرکۂ بڈھ بیر کا ہیرو‘‘ بھی اس بات کا پتا دیتی ہے کہ بے شک شہید کو موت نہیں آ سکتی۔

ظہیر قندیلؔ کے اپنے ہونہار طالب علم اور قوم کے جاں نثار سپوت اسفند یاربخاری کے حوالے سے یہ کتاب جو شہید کی سوانح عمری ہے مکمل کی تو اس پر ہر طرف سے مبارک باد وصول پائی۔۲۳، مارچ ۲۰۱۷ء کو اس کتاب کی پہلی اشاعت کے بعد اب تک کئی ہزار کی تعداد میں قریباً دس بار شائع ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والی اس کتاب کے مصنف پروفیسر محمد ظہیر قندیلؔ یقیناًمبارک باد کے مستحق ہیں۔ میرے لیے باعثِ اعزاز ہے کہ یہ کتاب میری لائبریری میں موجود ہے۔ میں نے اس کتاب کو بہ غور پڑھا اور پڑھنے کے بعدکوشش رہی کہ اس حوالے سے کچھ لکھوں۔ میری کوتاہی اور کم علمی ہمیشہ آڑے آئی کہ اس کتاب میں مجھے ایک ایسی نثر ملی جس پر معیاری لکھنا کسی طور میرے بس میں نہ تھا۔ہمت جٹا کر کچھ خامہ فرسائی کرنے جا رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ یہ بھی ایک سعادت ہو گی۔

’’معرکۂ بڈھ بیر کا ہیرو‘‘ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ یہ ایک سوانح عمری ہے۔ کئی اہم تصاویر سے مزین اس کتاب کے صفحات کی تعداد ۲۹۹ہے۔ جب کہ ۱۹ تصویری صفحات اس کے علاوہ ہیں۔کتاب کا انتساب اُن با ہمت شہدا کے نام جو وطنِ عزیز کے لیے قربان ہو گئے۔کتاب کو بیس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان ابواب میں شہید کی ولادت سے لے کر اس کی تدفین تک ایک ایک بات با اہتمام درج ہے۔ ’’معرکۂ بڈھ بیر کا ہیرو‘‘ کا پیش لفظ مصنف نے عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے ’’کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ‘‘ کے نام سے لکھا۔ اس پیش لفظ سے بھی میری تمہید کی تا ئید ہوتی ہے کہ یہ استاد اپنے شاگرد سے متاثر تھے اور شاگرد اپنے استاد سے۔ظہیر قندیلؔ جو کہ ایک قابل استاد اور اسکالر ہیں اس لیے ہر بات مکمل حوالے کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ مجھے کتاب کا اِملا دیکھ کر بالکل حیرانی نہیں ہوئی کیوں کہ میں اس بات سے آگاہ ہوں کہ ظہیر قندیلؔ ترویجِ اردو کے کتنے خیر خواہ ہیں۔ کتاب کے لیے اِملا کا جدید اور بہترین طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔

جہاں جہاں ضرورت محسوس ہوئی برمحل اور معیاری اشعار کا سہارا لیا گیا۔ اشعارنے جہاں کتاب کے حسن میں اضافہ کیا ہے وہیں نثرمیں جان بھی ڈال دی ہے۔ پہلا باب اس شعر سے شروع ہوتا ہے۔

مجھ کو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں

اس طرح ہر باب میں مناسب اشعار کا استعمال مصنف کی بہترین نثر نگاری کا مظہر ہے۔سوانح نگاری کے جملہ معیارات پر پوری اترنے والی اس تصنیف میں مصنف نے جملوں کوطوالت کی بہ جائے مختصر اور جامع رکھا ہے۔میرے نزدیک مختصر اور جامع جملہ ایک مشکل اور خوب صورت فن ہے۔ مرکب جملے نثر کے حسن کو گہنا دیتے ہیں۔

’’اسفند یار بہت دیر تک لوگوں میں گھرا رہا۔ بہت مشکل سے فراغت پا کر اپنے کمرے میں مع اہل خانہ آیا تو یہاں بھی ایک انبوہ کثیرجمع تھا۔ سب ساتھی اور جو نیر اس سے گل مل رہے تھے اور اسے مبارک بادیں دے رہے تھے۔ عید کا سا سماں تھا۔ میرے چہرے پر خوشی کھیل رہی تھی۔ ہر طرف شادمانیوں کا راج تھا۔ دو گھنٹے یوں ہی گزر گئے۔اسفند یار نے اپنا سامان وہاں کے ملازمین میں بانٹ دیا‘‘۔

(معرکۂ بڈھ بیر کا ہیرو ، ص ۸۳)

علاوہ ازیں کتاب پڑھنے کے دوران میں کہیں بھی مجھے دقت کا سامنا نہیں رہا۔ ایک رواں نثر کے ساتھ ساتھ الفاظ کو یوں استعمال کیا گیا ہے گویا کوئی لڑی پرو دی گئی ہے۔ کسی مقام پر تصنع یا بناوٹ دکھائی نہیں دی۔جو بات بھی مقصود ہوئی صاف اور آسان الفاظ میں یوں بیان کر دی گئی کہ کسی پیچیدگی کا امکان نہ رہا۔ دو ٹوک الفاظ میں جو بات بیان کی جائے لازم ہے کہ وہ دل پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ کہیں بھی مصنف کے قلم میں جھول اور خم دکھائی نہیں دیتا۔

ظہیر قندیلؔ کی اس تصنیف کے حوالے سے جو بات مجھے زیادہ بھائی وہ ان کی تحقیق ہے جس کے لیے انھوں نے کئی لوگوں سے رابطہ کیا۔ کتاب میں جا بہ جا ایسے حوالے دیکھے جا سکتے ہیں جو اسفند یار شہید کے اساتذہ، دوستوں یا دیگر احباب سے حاصل کیے گئے۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے صاحبِ کتاب کو خاصی تگ و دو کرنی پڑی ہوگی۔ عمدہ نثر ویسے بھی تحقیق سے عبارت ہے اور تحقیق مبہم نہیں ہوتی۔

کتاب میں جہاں ضرورت محسوس ہوئی محاورات اور تشبیہات کا بھی نہایت عمدہ استعمال کیا گیا۔جس سے بھی محمد ظہیر قندیلؔ کی علمیت کا پتا چلتا ہے۔ جب تک مصنف کو زبان پر مکمل عبور حاصل نہ ہو تب تک عمدہ اور جان دار نثر تخلیق نہیں ہو سکتی۔نثر چوں کہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اس لیے قاری زبان کے ساتھ ساتھ موضوع پر بھی نظر رکھتا ہے اور اگر کہیں بھی جھول ہو تو قرأت کا لطف جاتا رہتا ہے۔ ظہیر قندیلؔ شاعر تو ہیں لیکن ان کی نثر دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ شاعر اچھے ہیں یا نَثار۔

اکثر لکھنے والوں کے ہاں رموزِ اوقاف کو ثانوی درجہ دیا جاتا ہے جو قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے۔ اِمالہ کا بھی کوئی التزام دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن ’’معرکۂ بڈھ بیر کا ہیرو‘‘ کے مطالعے کے دوران میں مجھے یہ خامیاں بھی کم سے کم نظر آئیں۔ جب ایک دفعہ کتاب پڑھنا شروع کرتے ہیں تو چھوڑنے کا دل نہیں کرتا۔ جا بہ جا دل چسپ واقعات نے کتاب کو چار چاند لگا دیے ہیں۔شہید کیپٹن سے جڑے چھوٹے چھوٹے واقعات کو نہایت چابک دستی سے بیان کیا گیا ہے۔


کتاب کے آخر میں منظوم خراج بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔ علاہ ازیں مختلف اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی طرف سے جو مختلف صورتوں میں خراج پیش کیا گیا اس کی تفصیل بھی موجود ہے۔ میں نے اس کتاب کو پڑھا ، پسند کیا اور قلم اٹھایا لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں اس کتاب کے شایانِ شان لکھ نہ پایا۔ اس کوتاہی کے لیے میں شہید کیپٹن اور پروفیسر محمد ظہیر قندیلؔ سے معذرت خواہ ہوں۔ میں تمام طلبہ کو کہتا ہوں کہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں اس سے آپ کے اندر ایک تحریک اور اُمنگ ضرور پیدا ہوگی جو میرے وطن ، آپ کے والدین اور میرے ہم وطنوں کے لیے بہتر اور آپ کے لیے بہترین ہوگی۔ استادِمحترم افتخار عارفؔ کے ان دعائیہ کلمات کے ساتھ اجازت مطلوب ہے۔
یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں

دعا کے دن ہیں ، مسلسل دعا کیے جائیں
غبار اڑاتی، جھلسی ہوئی زمینوں پر
امنڈ کے آئیں گے بادل ، دعا کیے جائیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے