دوستو! یہ وہ نوازشریف نہیں

انتخابات ہوچکے ہیں ۔ تحریک انصاف ”بڑوں کے تعاون “ کے باوجود زیادہ نشستں حاصل نہیں کرسکی ۔ خیال تھا کہ نواز شریف کو بیٹی سمیت پابند سلاسل کرکے لینڈ سلائیڈ وکڑی حاصل کی جائے گی ۔ خیال یہ بھی تھا کہ میاں نواز شریف قید و بند کی صعوبتیں سہہ نہ پائے گا، انتخابات سے قبل ہی وہ این آر او کی بھیک مانگے گا اور باہر جا کے عیش کی زندگی گزارے گا مگر کارپردازوں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اللہ بڑا کارساز ہے، اس کے آگے چالاکیاں نہیں چلتیں، وہ ڈٹ گیا اپنے بیانیےپر، کہتا تھا کہ میرا مقابلہ عمران سے نہیں، ان سے ہے جو ووٹ کی حرمت کو پامال کرتے ہیں.

پروگرام تھا کہ سزا یافتہ شخص کی پارٹی کو 30 کے ہندسے سے آگے نہیں جانے دیا جائے گا ، ابتدائی نتائج آنے لگے تو الٹی پڑ گئیں سب تدبیریں، کارپردازوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، سبکی ہونے لگی، ایک سال سے کی جانے والی محنت اکارت نظر آنے لگی، سر جوڑے گئے کہ ناکامی کو کامیابی میں کیسے بدلا جائے ، پھر سہارا لیا گیا جدید ٹیکنالوجی کا، نتائج روک دیے گئے ، کہا گیا آر ٹی ایس ناکام ہو گیا ۔ پھر آر اوز کے ساتھ مل کر کھیل کھیلا گیا، وہی کھیل جو پچھلے ستر سال سے کھیلا جاتا رہا ہے ، کسی نے اس کے آگے کوئی روک نہیں لگائی.

مئی دو ہزار سترہ کی بات ہے، میں ایم فل کی کلاس لینے کے بعد راہدری میں سگریٹ سلگائے گھوم رہا تھا، حساس ادارے کا افسر میرے پاس آیا، چونکہ وہ میرا کلاس فیلو بھی ہے سیاست پر بات چل نکلی . اس سے پوچھا کہ پانامہ آ گیا ہماری سیاست کس کروٹ بیٹھے گی؟ اس نے خلاء میں گھورا اور پھر بولا میاں نواز شریف وزیراعظم نہیں رہے گا، پوچھا اس کے بعد؟ کہنے لگا جماعت کی صدرات سے بھی فارغ کر دیا جائے گا اور یہ کام سپریم کورٹ کرے گی مگر ن لیگ کی حکومت پانچ سال پورے کرے گی.

ہم نے پوچھا اس کے بعد انتخابات ہوں گے؟ بولا کہ نگران حکومت آئے گی اور وہ لمبے عرصے تک رہے گی ، ہم گویا ہوئے لمبے عرصے سے آپ کی کیا مراد؟ کہنے لگا یہی کوئی دو تین سال، ہمارا آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا. کہنے لگا پہلے احتساب ہو گا پھر انتخاب، ہم نے پوچھا کہ عمران کا کیا بنے گا. ایک دم سے بولا اقتدار دیا جائے گا، اختیار نہیں ہنگ پارلمینٹ وجود میں آئے گی،شاید کارپردازوں کا منصوبہ تھا کہ انتخابات کو ملتوی کروایا جائے مگر ان کا منصوبہ بیرونی اور اندرونی دباؤ کی وجہ سے ناکام ہو گیا، یوں چار و ناچار انھیں انتخابات کروانے پڑے ، بڑی خوبصورتی سے جال بچھایا گیا.

اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں احتساب عدالت میں میاں نواز شریف سے تین ماہ تک روزانہ کی بنیادوں پر آمنا سامنا ہوتا رہا، جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو کمرہ عدالت میں منصف کے آنے سے قبل میں میاں نواز شریف سے جارحانہ سوال کرتا، شروع شروع میں ن لیگ کی طرف سے یہ سمجھا گیا کہ مجھے کہیں سے بریف کیا جاتا ہے اور اس کا اظہار ن لیگ کی طرف سے کیا بھی گیا ، جیسے جیسے کیس آگے بڑھا مجھ پر آشکار ہوا کہ سزا اس کیس کی بنیاد پر نہیں کسی اور وجہ سے دی جا رہی ہے .

تعصب پر دی گئی سزا سے میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی پابند سلاسل تو ہو گئے مگر کارپرداز لوگوں کے دلوں سے میاں کی محبت نہیں نکال سکے، انتخابات میں لوگوں نے ان پر اعتماد کیا اور اب کارپرداز پریشان ہیں کہ کسی طرح میاں نواز شریف منہ سے این آر او کی آواز نکالیں اور ہم بھاگم بھاگ پہنچیں ، سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میری صحت اچھی ہے مجھے کوئی تکلیف نہیں، زبردستی پمز لے جایا گیا میں تو عوام کے حقوق کے لیے جنگ لڑتا رہوں گا.

اسلام آباد ہائی کورٹ میں میاں نواز شریف کی ضمانت کے حوالے سے بھی رٹ پیٹشین دائر ہے ، انتخابات تک اس کو ملتوی رکھا گیا، کارپردازوں کو خطرہ تھا کہ ضمانت مل گئی تو پھر ہماری ایک سال کی محنت اکارت جائے گی ، اس لیے ایک سماعت کے بعد اگلی سماعت کی تاریخ انتخابات کے بعد کی رکھی گئی .

قید میاں نواز شریف آزاد میاں نواز شریف سے زیادہ خطرناک ہے،کچھ لوگ عجب مخمصے میں ہیں کہ اب کیا کیا جائے؟ کس طرح اپنی جان خلاصی کی جائے؟ وہ منصوبہ بناتے وقت بھول گئے کہ یہ میاں نواز شریف 99 والا نہیں ، اب بہت بدل گیا ہے اور یہاں ان سے بھول ہو گئی.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے