بیمار ماں

جب ماں بیمار ہو جائے تو اسے چھوڑ نہیں دیا جاتا، بلکہ اس کا مزید خیال رکھا جاتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر رات دیر تک جاگ کر بیمار ماں کا خیال رکھا جاتا ہے اور کبھی کبھی اپنے بہت سے ضروری کام چھوڑ کر جلدی گھر بھی آنا پڑتا ہے۔ اور ایسا کرنے میں ذرا سی بھی کوئی احسان جتلانے والی بات نہیں ہوتی کیونکہ آج ہم جو بھی ہیں اپنی اس ماں کی وجہ سے ہیں۔ ہماری ماں ہماری پہلی درسگاہ بھی ہوتی ھے اور پہلا سہارا بھی۔

ایک تو وہ ماں ہوتی ہے جس نے ہمیں 9 ماہ اپنے پیٹ میں رکھا ہوتا ہے، اور ایک یہ "دھرتی ماں”۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس دھرتی ماں کا ہم پہ اس ماں سے بھی زیادہ حق ہوتا ہے جس نے ہمیں 9 ماہ اپنے پیٹ میں رکھا ہوتا، تکلیف دہ مرحلے سے گزر کے پیدا کیا ہوتا اور ابتدائی تربیت بھی کی ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ دھرتی ماں سب سے پہلے آپ کو ایک شناخت  دیتی، پھر تعلیم کے مواقع، پھر روزگار کے مواقع، پھر آپ کے بچوں کی شناخت، ان کی تعلیم اور انکا روزگار، اور سب سے بڑھ کر آپکو اور آپکے بچوں کو اول درجے کا شہری بناتی ہے۔ سو میں سمجھتا ہوں کے دھرتی ماں کا قرض آپ پر اس ماں سے زیادہ ہوتا ہے جس ماں نے آپ کو 9 ماہ پیٹ میں رکھ کے پیدا کیا ہوتا۔

میرا یہ سب تحریر کرنے کا مقصد ان لوگوں کو متوجہ کرنا ہے جو سرزمین پاکستان سے باہر رہ رہے ہیں۔ میں خود اپنی زندگی کے آٹھ برس انگلستان میں تعلیم کے حصول میں صرف کر کے واپس آیا، یقین کیجئے میرے لئے پردیس کاٹنا جیل کاٹنے سے کم نا تھا۔ لیکن میں نے اپنے ذاتی مشاہدے سے یہ بات دیکھی ہے کے بہت سے پاکستانی جو دوسرے ممالک میں مقیم ہیں اپنی ہی دھرتی ماں سے دل میں شکایات رکھتے ہیں اور اکثر بیان بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر شکایات کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں کہ ہمارے ملک میں تو کرپشن ہی بہت ہے، وہاں کا سسٹم ہی ٹھیک نہیں ہے، وہاں پے رشوت کے بغیر تو کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا اور تو اور اکثر پردیسی بھائیوں کے منہ سے یہ تک سنا کہ وہ ملک تو بنایا ہی چوروں و لٹیروں کے لئے گیا ہے۔ بیشتر کو یہ شکوہ بھی ہے کہ ہمیں اس ملک نے دیا ہی کیا ہے؟۔

میں اپنے ان بھائیوں سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ضرور یورپ، امریکا، کینیڈا اور عرب ممالک میں جائیے، وہاں سے تعلیم و ہنر حاصل کیجئے اور واپس آ کر اپنی اس دھرتی ماں کی خدمت کیجئے۔ نہیں تو وہیں پے رہ جائیے اور بہترین روزگار حاصل کریں اور ایک اچھے معیار زندگی کے مطابق بقیہ زندگی گزاریئے، مگر خدا کے لیئے اس دھرتی سے، اس ماں سے شکایات مت کیجیئے۔ یہ ملک نا تو چوروں لٹیروں کے لیئے بنایا گیا ہے، اور نا ہی یہاں رشوت دینا لازم ہے بلکہ یہ سب تو آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنی اس ماں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتے ہیں۔ آپ اپنی بیمار اور غریب ماں کا اگر خیال رکھنے کی توفیق نہیں رکھتے تو یہ آپ کی نالائقی ہے آپ کی کمزوری ہے اور شاید آپ کی ذہنی پستی اور اپنے اندر خود اعتمادی کی کمی بھی۔

آپ یہاں نہیں رہنا چاہتے مت رہیں مگر اپنی ماں کے بارے میں برا بھلا مت کہیں کیونکہ یہ ماں کے ان 22 کروڑ بیٹوں اور بیٹیوں کو یقینی طور پر برا لگتا ہے جو بیماری کی حالت میں بھی اس کو گھر پر چھوڑ کے باہر نہیں چلے گئے بلکہ یہیں اپنی بیمار ماں کے پاس رہ کر اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس کی صحت یابی کے لیئے کوشاں ہیں۔ میرے پردیسی بھائیو اگر ماں بیمار ہو جائے تو اس کو چھوڑ کر دور نہیں جایا جاتا بلکہ اس کو زیادہ وقت دے کر اور زیادہ خیال رکھ کے اس کی جلد صحت یابی کے لیئے کوشش اور دعا کی جاتی ہے۔ بلفرض اگر کسی ایمانی کمزوری کی وجہ سے آپ اپنی دھرتی ماں کو چھوڑ کر چلے ہی جاتے ہیں تو خدا کے واسطے اپنی اس ماں کو کم سے کم اپنی ماں تو سمجھیئے اور دوسروں کے گھروں میں بیٹھ کر برا بھلا مت کہیئے۔ 

میری یہ تحریر پڑھنے والوں سے عرض ہے کہ میری یہ تحریر ان پردیسی بھائیوں کے لیئے ہرگز نہیں ہے جو ملک سے باہر بیٹھ کر کسی نہ کسی شکل میں ملک کی خدمت کر رہے ہیں اور اس ملک کا نام روشن کرنے کے لیئے کوشاں ہیں۔ بلکہ میری یہ تحریر میری ماں کے صرف ان نالائق بیٹوں اور بیٹیوں کے لیئے ہے جو ناصرف اپنی ماں کو اس لیئے چھوڑ کر جا چکے ہیں کہ یہ ماں اب بیمار ہو چکی ہے اور ان کو کچھ دے نہیں سکتی بلکہ اپنی ہی ماں کو باہر بیٹھ کر برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ 

سن 1641 میں جب جہاں آرا بیگم 27 برس کی تھیں تو ایک حادثے میں ان کا جسم جل گیا، بہت سے طبیب اور حکیم علاج کے لیئے آئے مگر وہ صحت یاب نا ہوسکی۔ پھر ایک انگریز طبیب ڈاکڑ گیبریئل آئے اور علاج کرنے میں کامیاب ہوے۔

چونکہ جہاں آرا مغلیہ سلطنت میں بہت اہمیت رکھتی تھی اور بہت سے اہم معملات میں خاص کردار ادا کر رہی تھیں تو ڈاکٹر گیبریئل کو منہ مانگے دام دینے کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا بتاو کیا مانگتے ہو انعام میں تو انہوں نے کیا میری کمپنی جس میں میں ملازم ہوں انتہائی پریشانی کا شکار ہے اور وہ زیادہ عرصہ شاید نا چل سکے اگر اس کو انڈیا کے ساتھ مزید تجارت کرنے سے روکا گیا تو۔ سو ڈاکٹر گیبریئل جب اپنے لیئے دنیا جہاں کے خزانے مانگ سکتے تھے اور ساری عمر عیش و عشرت سے گزار سکتے تھے تب انہوں نے مانگا بھی تو کیا؟

اپنے ملک انگلستان کے لیئے تجارتی راستے کھولنے کی اجازت۔ ہم جن قوموں سے متاثر ہیں اور انکو ترقی یافتہ سمجھ کر ان پر رشک کرتے ہیں اور اکثر اپنے ملک کا موازنہ کرتے ہوئے ان ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں بھی دیتے ہیں تو ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ وہ ممالک ایک رات میں ترقی پذیر نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ تھا جس کو انہوں نے رگڑ کر ترقی پا لی۔ بلکہ ان ممالک کی نسلوں نے قربانیاں دیں ہیں۔ انہوں نے ناصرف اپنی جانوں کی قربانیاں دیں بلکہ سب سے بڑھ کر اپنے ذاتی مفادات کی قربانی دیتے ہوئے ملکی مفاد کو اہمیت دی۔ ہم ان کو تو دیکھ کر رشک کرتے ہوئے اپنی اس دھرتی ماں سے شکایات کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں دیا ہی کیا مگر جب اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرنے کی باری آتی ہے تو ہم نظریں چھپا لیتے ہیں۔

میرے پاس وہ الفاظ موجود نہیں جس سے میں اپنے جذبات کو بیان کر سکوں اور ان تمام پڑھے لکھے پردیسی بھائیوں کو یہ بتا سکوں کہ جب آپ اتنے قابل ہیں کہ آپ ایک ترقی یافتہ ملک میں رہ کر وہاں کے لوگوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنے لیئے اچھی جابز کو سکیور کر سکتے ہیں تو آپ بےشمار بیماریوں اور کمزوریوں کی حامل اپنی اس ماں کی خدمت کر کے اس کو تندرست و توانا بھی کر سکتے ہیں۔ آپ کی اس ماں کو آپ کی اس وقت ضرورت ہے۔ جب تک تو ماں تندرست ہوتی ہے تب تک تو وہ آپ کو پالتی ہے اور آپکو ہر دھوپ سے بچاتی ہے مگر جب وہ کبھی کمزور یا بیمار ہو جاتی ہے تب اس کو اپنی اولاد کی خدمت اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور تب ہی اس کے فرمانبردار بیٹوں کا بھی اسے پتہ چلتا ہے۔ اس ملک کو آپ کی اس وقت ضرورت ہے جب آپ جواں بھی ہیں اور  تندرست و توانا بھی۔ اس وقت آنے کا کیا فائدہ ہوگا جب آپ اپنی تمام تر توانائیاں دوسرے ممالک میں صرف کر کے تھک چکے ہوں گے۔ اس ملک کو آپ کی ضرورت ہے آپکی میتوں یا مردہ جسموں کی نہیں۔ 

آخر میں بس یہی کہوں گا کہ اگر ماں بیمار ہو جائے تو اسے چھوڑ نہیں دیا جاتا بلکہ اس کے قریب رہ کہ اس کا مزید خیال رکھا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے