پلیز شوکت عزیز سے رابطہ کریں

آپ مصر کی مثال لیجیے‘ مصر میں 1970ء کی دہائی میں انوار السادات کی حکومت تھی‘ صدر کے معاشی ماہرین نے سادات کو معیشت کا دائرہ پھیلانے کا مشورہ دیا‘ صدر کو بتایا گیا ہم جب تک ملک کو تجارت‘ صنعت اور سرمایہ کاری کے لیے نہیں کھولیں گے ہم اس وقت تک تیسری سے دوسری اور دوسری سے پہلی دنیا میں نہیں آئیں گے۔

انوار السادات ہمارے عمران خان کی طرح ناتجربہ کار تھے‘ یہ جھانسے میں آ گئے‘ مصر کی معیشت لبرل ہو گئی جس کے بعد ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ملک میں داخل ہوئے اور مصر مقروض ہوتا چلا گیا‘ مصر میںحکومت 1972ء سے روٹی پر سبسڈی دے رہی تھی‘ حکومت نے پورے ملک میں تنور بنا دیے تھے‘ لوگ گھروں میں روٹی نہیں بناتے تھے‘ یہ آج بھی دو مصری پاؤنڈ میں20روٹیوں کا پیکٹ خریدتے ہیں اور پورا خاندان پیٹ بھر لیتا ہے۔

ہم آگے بڑھنے سے قبل آپ کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے بارے میں بھی بتاتے چلیں‘ یہ دونوں ادارے امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے بنائے تھے‘ ورلڈ بینک تیسری اور دوسری دنیا کے ملکوں کو انفرااسٹرکچر‘ سڑکوں‘ ڈیموں اور بجلی کے پلانٹس کے لیے قرضے دیتا ہے جب کہ آئی ایم ایف ریاستوں کے روزانہ کے اخراجات‘ درآمدات کے بلوں کی ادائیگی‘ بیلنس آف پے منٹ اور غربت کے خاتمے کے لیے قرضے جاری کرتا ہے‘یہ دونوں ادارے قرضے دینے کے بعد ریاستوں کو مشورے دیتے ہیں آپ فلاں فلاں جگہ سے پیسہ نکالیں‘ فلاں سبسڈی کم کر دیں اور فلاں جگہ پر ٹیکس لگا کر رقم جمع کریں اور ہمیں قرضے کی قسطیں ادا کر دیں۔

ملک ان کے مشوروں کے پابند ہوتے ہیں ‘یہ آہستہ آہستہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے قبضے میں چلے جاتے ہیں اور یہ ادارے آخر میں ان کے بازو مروڑ کر ان سے خوفناک فیصلے کرا لیتے ہیں‘ امریکا مصر سے اسرائیل کو تسلیم کرانا اور اسرائیل کے بحری جہازوں کو نہرسویز سے گزرنے کی اجازت دلانا چاہتا تھا اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک یہ ٹارگٹ لے کر قاہرہ پہنچے تھے۔

مصر کے قرضے 1976ء تک ملک کی پوری معیشت کو نگل گئے‘ملک کے لیے قسطیں ادا کرنا مشکل ہوگیا‘ آئی ایم ایف نے صدر سادات کو مشورہ دیا آپ سرکاری ملازمین کے بونس اور تنخواہوں میں اضافہ بھی بند کر دیں اور ملک میں آٹے اور چاول پر سبسڈی بھی ختم کر دیں‘ آپ قسطیں ادا کرنے کے قابل ہو جائیں گے‘ صدر سادات کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا لہٰذا حکومت نے خوراک پر سبسڈی بھی ختم کر دی اور بونس اور تنخواہوں میں اضافے سے بھی انکار کر دیا۔

مہنگائی میں پچاس فیصد اضافہ ہو گیا‘ عوام سڑکوں پر آ گئے‘ اسوان شہر سے احتجاج شروع ہوا اور 18 اور 19 جنوری 1977ء کو پورے ملک میں فسادات شروع ہو گئے‘ حکومت نے فوج بلا لی‘ گولی چلی‘79 لوگ جاں بحق ہو گئے‘ 558 شدید زخمی ہوئے اور ہزار لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا‘یہ فسادات تاریخ میں روٹی فسادات (Bread Riots) کہلاتے ہیں‘ مصری عوام ’’ہمارے ہیرو‘ ہمارا ناشتہ کہاں ہے‘‘ کا نعرہ لگاتے تھے اور سرکاری عمارتوں‘ گاڑیوں اور ٹرینوں پر حملے کر دیتے تھے۔

پورا ملک ’’ہمارے ہیرو‘‘ اور ’’ہمارا ناشتہ کہاں ہے‘‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا‘ یہ فسادات آگے چل کر تین عالمی واقعات کی بنیاد بنے‘ پہلا واقعہ مصر اور اسرائیل کے تعلقات تھے‘ صدر سادات عالمی اور اندرونی دباؤ میں آ کر 19 نومبر1977ء کو اسرائیل کے دورے پر چلے گئے‘ یہ عرب ممالک کے کسی سربراہ کا اسرائیل کا پہلا دورہ تھا‘ صدر سادات نے اس دورے کے دوران اسرائیل کو اپنے بحری جہاز نہر سویز سے مفت گزارنے کی اجازت بھی دے دی اور صحرائے سینا کے مقبوضہ مصری علاقے بھی یہودیوں کو گفٹ کر دیے۔

دوسرا واقعہ کیمپ ڈیوڈ اور وائیٹ ہاؤس معاہدہ تھا‘ صدر سادات نے 17 ستمبر 1978ء کو پہلے کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیلی وزیراعظم میناخیم بیگن کے ساتھ معاہدہ کیا‘ امریکی صدر جمی کارٹر اس معاہدے کے گواہ تھے‘ صدر سادات بعد ازاں 26 مارچ 1979ء کو صدر جمی کارٹر کی دعوت پر وائیٹ ہاؤس آئے اور وہاں مصر‘ اسرائیل امن معاہدے پر دستخط کر دیے‘اس کے بعد مصر اسرائیل کے خلاف اپنے تمام مطالبات سے دستبردار ہو گیا اور تیسرا واقعہ اخوان المسلمین کا سیاسی طاقت بننا تھا۔

اخوان روٹی فسادات کے دوران طاقت کے ساتھ ابھر کر سامنے آ گئی اور یہ آنے والے دنوں میں پوری اسلامی دنیا میں پھیل گئی‘ انوار السادات 6 اکتوبر 1981ء کو انھی لوگوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے‘ اخوان کی سوچ فوج کے اندر بھی موجود تھی چنانچہ جہادی فوجی جوانوں نے ملٹری پریڈ کے دوران انوار السادات کو گولیوں سے بھون دیا۔

آپ اگر ان تمام واقعات کا تجزیہ کریں تو آپ کو ان کے پیچھے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ملیں گے‘ یہ دونوں ادارے امریکا اور اسرائیل کے زیر اثر ہیں‘ آپ آج بھی ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پروفائل دیکھ لیں‘ آپ چند لمحوں میں ان کی پوری فلاسفی اور مستقبل کا ایجنڈا سمجھ جائیں گے‘ یہ ادارے پہلے اپنے ہدف ملکوں کو وینٹی لیٹر پر لے کر آتے ہیں اور پھریہ قرضوں کے بدلے ملکوں سے اپنے مطالبات منواتے ہیں اور یوں آخر میں وہ ملک مصر اور ان کے لیڈر انوار السادات بن جاتے ہیں‘ پاکستان کی تاریخ میں شوکت عزیز واحد وزیر خزانہ اور وزیراعظم تھے جو آئی ایم ایف کے طریقہ کار اور مقاصد سے واقف تھے ‘شوکت عزیز نے ستر سال میں پہلی بار ان اداروں کو شکست بھی دی اور ان کی جڑیں ملک سے نکال کر باہر بھی پھینک دیں۔

کیسے؟ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے‘ پاکستان کی معیشت 2000ء میں مشکل ترین دور سے گزر رہی تھی‘ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے ملک پر پابندیاں تھیں‘ برآمدات بھی بہت کم تھیں چنانچہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا‘ جنرل پرویز مشرف نے قرضہ لے لیا‘ شوکت عزیز تیس سال سٹی بینک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے تھے‘ یہ نومبر 1999ء میں وزیر خزانہ بنے‘ انھوں نے جنرل مشرف کو سمجھایا ہم جب تک آئی ایم ایف کے وینٹی لیٹر سے نہیں نکلیں گے ہم اس وقت تک اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوں گے لیکن جنرل مشرف نہ مانے‘پاکستان نے دسمبر 2001ء میں آئی ایم ایف سے ’’غربت مٹاؤ پروگرام‘‘ کے تحت مزید ایک اعشاریہ تین بلین ڈالر قرض لے لیا۔

یہ قرضہ چار قسطوں میں تھا اور شرائط انتہائی سخت تھیں‘ہمیں ایک کے بعد دوسری قسط صرف اس صورت میں ملنی تھی جب ہم پہلی قسط کی شرائط پوری کر لیتے‘ اس قرضے کا مقصد پاکستان سے غربت مٹانا نہیں تھا‘ یہ روٹی فسادات جیسا منصوبہ تھا جس کے آخر میں پاکستان اپنے نیوکلیئر پروگرام سے دستبردار ہونے پر مجبور ہو جاتا لیکن پھر قدرت نے پاکستان کی مدد کی اور امریکا اور اسرائیل نائین الیون کی وجہ سے یہ منصوبہ جاری نہ رکھ سکے۔

پاکستان امریکا کا اتحادی بنا اور ہمیں ریلیف ملنا شروع ہو گیا‘ شوکت عزیز اگست 2004ء میں وزیراعظم بنے‘ انھوں نے پیرس کلب پر کام کیا‘ 8 ملکوں نے ہمارے قرضے ری شیڈول کر دیے‘ حکومت کی ایکسپورٹس بھی 8 بلین سے 18بلین ڈالر پر آگئیں‘ ٹیکسوں میں بھی اضافہ ہوا اور کچھ رقم امریکا کے ’’کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ سے بھی مل گئی اور یوں پاکستان آئی ایم ایف کے تمام قرضے ادا کرنے کے قابل ہو گیا‘ قرضے کی ادائیگی کا واقعہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے‘ وزیراعظم شوکت عزیز آئی ایم ایف کے عہدیداروں سے ملاقات کے لیے واشنگٹن گئے‘ آئی ایم ایف کی ٹیم کا خیال تھا یہ لوگ حسب عادت مزید قرضے مانگنے آئے ہیں چنانچہ ان کا رویہ بہت رف تھا‘ ڈائریکٹر بار بار کہہ رہا تھا آپ جب تک ہماری شرائط پوری نہیں کریں گے آپ کو اگلی قسط نہیں ملے گی۔

شوکت عزیز اطمینان سے یہ گفتگو سنتے رہے‘ ڈائریکٹر جب خاموش ہوا تو شوکت عزیز نے کہا ’’ہم اگر شرائط پوری نہ کر سکے تو پھر‘‘ ڈائریکٹر نے جواب دیا ’’ہم آپ کی قسطیں روک لیں گے‘‘ شوکت عزیز نے پوچھا ’’اور ہم اگر پھر بھی شرائط پوری نہ کر سکے تو پھر‘‘ ڈائریکٹر نے نخوت سے جواب دیا ’’آپ کو پھر ہمارا سارا قرضہ واپس کرنا ہوگا‘‘ شوکت عزیز نے ہنس کر جواب دیا ’’یہ کوئی بڑی بات نہیں‘ ہم ابھی آپ کا سارا قرض ادا کر دیتے ہیں‘‘ ڈائریکٹر نے قہقہہ لگایا اور ہاتھ آگے بڑھا کر کہا ’’تو پھر دے دیجیے‘‘ شوکت عزیز نے جیب سے چیک نکالا اور چیک ڈائریکٹر کے ہاتھ میں دے دیا‘ میٹنگ روم میں سراسیمگی پھیل گئی‘ ڈائریکٹر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ وہ چیک واپس کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن وزیراعظم اپنی ٹیم کے ساتھ باہر آ گئے یوں پاکستان پہلی اور شاید آخری مرتبہ آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہو گیا۔

شوکت عزیز پاکستانی ہیں‘ یہ 8سال وزیر خزانہ اورتین سال پاکستان کے وزیراعظم رہے ‘ یہ حقیقتاً معاشی جادوگر ہیں‘ آپ ان کے دور میں پاکستان کی معاشی حالت دیکھ لیجیے آپ ان کی صلاحیتوں پر حیران رہ جائیں گے‘ عمران خان اور اسد عمر اقتدار سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اسد عمر ابھی سے بیل آؤٹ پیکیج کی تیاری کر رہے ہیں‘ میری ان سے درخواست ہے یہ آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلانے سے پہلے ایک بار شوکت عزیز‘ عمر ایوب اور سیکریٹری فنانس (ریٹائرڈ) ڈاکٹر وقار مسعود سے مل لیں‘ یہ ان سے صرف یہ معلوم کر لیں پاکستان مشرف کے دور میں آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے نکلا تھا‘ میرا خیال ہے شوکت عزیز کا مشورہ پاکستان اور عمران خان دونوں کو بچا لے گا‘ یہ انوار السادات اور آصف علی زرداری بننے سے بچ جائیں گے۔

ملک ہماری ماں ہے اور ماں کے لیے شوکت عزیز کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں‘ یہ بھی پاکستانی ہیں اور یہ آج بھی پاکستان کے لیے غلط مشورہ نہیں دیں گے چنانچہ عمران خان کو اپنا دل ذرا سا بڑا کرنا چاہیے اور یہ آئی ایم ایف سے پہلے شوکت عزیز اور ان کی ٹیم سے مل لیں‘ ہو سکتا ہے پاکستان مصر جیسے روٹی فسادات سے بچ جائے ورنہ پاکستان کی معاشی حالت جس قدر خراب ہے مجھے لگتا ہے اس میں ’’ہمارے ہیرو‘ ہمارا ناشتہ کہاں ہے‘‘ کے نعرے لگتے زیادہ دیر نہیں لگے گی اور ہم چین اور امریکا کے درمیان پس کر رہ جائیں گے لہٰذا پلیز پلیز شوکت عزیز سے رابطہ کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے