پاکستان کیوں بنا تھا؟

قیام پاکستان اس بات کا عہد تھا کہ مسلمانان ہند کے لیے ایک علیحدہ مملکت قائم کی جائے۔جہاں وہ اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔قائداعظم محمد علی جناح نے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہندوؤں اور انگریزوں کے ساتھ ساتھ برصغیر کے قوم پرست مسلمان علماء کا بھی مقابلہ کیا،جو قیام پا کستان کے مخالف تھے ۔علامہ محمد اقبال ؒ کا شعر ہے:

ملا کو ہے جو ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام آزاد ہے

موجودہ حالا ت پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضع ہوتی ہے کہ ہم نے اُس عہد کو بھلا دیا ہے۔ جس کو پورا کرنے کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے جہدو جہد کی تھیں ۔جس کی خاطر لاکھوں مسلمانوں نے اپنے گھر، کاروبار اور جانیں تک قربان کر دی تھیں۔اُس وقت کسی نے یہ نہیں پو چھا تھا کہ کیا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہو گا ؟ کیا فیڈریشن ہو نا چاہیے کہ کنفیڈریشن ؟تب یہ تمام سوالات غیر ضروری اور بے محل تھے۔ان کے سامنے تو ایک ہی مقصد اور منزل تھی۔اور وہ منزل جس کا نام مسلمانان ہند کے لیے ایک علیحدہ مملکت کا قیام۔جو کسی سیاسی نعرے کی حثیت نہیں رکھتا تھا بلکہ ایک واضع اور متعین نصب العین تھا۔جہاں وہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔اگر صرف نماز ،روزہ ہی کافی تھا تو اس کی اجازت تو متحدہ ہندوستان میں بھی تھی۔

اُس وقت ایک جذبہ ،ایک لگن ،ایک آرزو تھی۔قیام پاکستان کی جہدوجہد میں علماء بھی تھے۔انگریزی تعلیمی اداروں سے پڑھے ہوئے لوگ بھی تھے، ملازمت پیشہ لوگ اور کھیتو ں میں کام کرنے والے کسان بھی تھے۔ان سب نے مل کر اپنا کل ہمارے آج پر قربان کر دیا تاکہ آنے والی نسل ایک آزاد وطن میں سانس لے سکیں لیکن ہماری موجودہ حالت اس عہد کی پاسداری سے کوسوں دور ہے۔

23 مارچ 1940 جب قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی ،کی تصاویر دیکھتے ہوئے مجھے 16 دسمبر 1971 یاد آجاتا ہے۔اور وہ تصویر جس میں پاک فوج کے کمانڈر ہندوستانی فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے معائدے پہ دستخط کرتے ہیں۔ ابھی پاک سر زمین کی مٹی شہیدوں کے خون سے نم تھی مگر ہم نے آدھے پاکستان کو کھو دیا ۔ آزادی کے ان 71 سالوں کا اگر جائزہ لیا جائے ۔ تو پے درپے فوجی آمریتوں نے وطن عزیز کو مفلوج کر کے رکھ دیا ۔ مانا کہ جہموری آمر بھی کچھ کم نہ تھے۔صرف وردی کا فرق تھا ۔لیکن بنیادی طور پر قائد اعظم کے پاکستان کو جتنا نقصان آمریت نے پہنچایا اتنا جمہوریت نے نہیں کیونکہ ہم بطور قوم سیاسی طور پر بالغ نہ ہوسکے۔

جمہوری حکومت کے ادوار میں سیاسی پارٹیوں کی آپس میں چپقلش ہو یا فوجی حکمرانوں کے دور میں امریکہ نوازی کی بات ہو ۔نقصان پاکستان کا ہی ہوا ہے۔ہم نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر سب سے پہلے پاکستان ہی کو داؤ پر لگا دیا ۔ ایک طرف قائد اعظم تھے جو مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے امریکی صدر پر دباؤ ڈالتے ہیں اور ایک طرف ہم ہے کہ 4 اگست 2008 سے امریکہ میں جیل کی سلاخوں میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا نہیں کراسکے۔

رہی موجودہ حالات کی بات تو جہاں پر معلوم نہ ہو کہ دشمن کون ہے ؟ اور دوست کون ہے؟ اس سے ابتر صورت حال کیا ہوسکتی ہے۔کل تک جو دشمن تھے ان کیلئے امن کی آشائیں ہیں ۔اور جو واقعی بلا معاوضہ دوست تھے ان کی لاشوں پر بیٹھ کر ہم اپنے ملک کو محفوظ بنا رہے ہیں۔

اتنے گھمبیر اور پیچیدہ حالات میں اس عہد کو کیسے یاد ر رکھا جا سکتا ہے۔جو پا کستان کے قیام کا باعث بنا۔مایوس ہونا بہت آسان ہے اور اس کے لیے کافی ساری وجوہات بھی ہے ۔اس طرح کے تبصرے ہمیں آئے روز سننے کو ملتے ہیں کہ خاکم بدہن اب پاکستان کا قیام رہنا مشکل ہے ۔لیکن کیا مایوس ہونے سے ہم ان مشکلات سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے ۔ اقبال کے شاہین ہونے کے ناتے پرواز ہمارا جنون ہو ۔حصول مقصد ہماری منزل ہو،کسی بھی قسم کے تعصب کو خاطر میں لائے بغیر ہمہ تن ہمہ گوش ہو کر اپنا فرض ادا کرنا ہو گا ۔ ہر سال 14 اگست کو جھنڈیاں لگانے سے ،ملک میں چھٹی کرنے اور تقاریب میں کچھ تقاریر کرنے سے اس دن کا حق ادا نہیں ہو تا ۔

اگر ہم اس سال 14 اگست کا دن ایک الگ طریقے سے منائیں ۔جس میں سادگی بھی ، وقار بھی ہو ، امید کا پیغام بھی ہو اور دکھوں کا مداوا بھی ہو ۔تو ہم اس مایوسی کی کیفیت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ۔ اگر ہم اس دن کو عہد کریں کہ جس مقصد کی خاطر ہم نے پا کستان حاصل کیا تھا ۔اس مقصدکو عملی جا مہ پہنانے کے لیے ہم مزید جہدو جہد کر یں گے۔وہ مقصد مسلمانوں کو اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ زندگی گزارنے کی سہولت تھی۔جہاں پر مذہب ، مسلک ،برادری اور علاقے کی بنیاد پر کسی سے کو ئی برا سلوک نہ ہو۔ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانے اور ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے ۔ نئی حکومت ایسے اقدامات کریں تاکہ وہ عوام کی یکجہتی کے ذریعے ان امور کو عملی جا مہ پہنانے میں کا میاب ہو۔ جو ملکی ترقی کی رکاوٹ کا سبب ہے تاکہ ملک ترقی کی راہ پہ گامزن ہو سکے ۔آنے والے کل کو پاکستان کرۂ ارض پہ ایک سسکتا نہیں بلکہ ایک ابھرتا پاکستان ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے