منی میں حادثہ کیوں پیش آیا؟

12036863_10206868144296390_6167458877464611645_n

یہ رپورت ہمیں غلام نبی مدنی نے مدینہ منورہ سے بھیجی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

22ستمبر2015 کومنی میں شیطان کو کنکریاں مارتے وقت بھگدڑ مچ گئ تھی،جس سے 717 حجاج شہید اور 863 حجاج زخمی ہوگئے تھے۔اس حادثے کی تحقیقات حکومتی سطح پر کی جارہی ہیں۔

ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ایرانی حاجیوں کی بدانتظامی کی وجہ سے یہ حادثہ رونماہواہے۔چنانچہ ایرانی حجاج کے ایک ذمہ دار نے معروف سعودی اخبار کو انٹرویو میں کہا کہ 10 ذوالحجہ کی صبح 300 ایرانی مزدلفہ سے منی کے لیے روانہ ہوئے۔حج تعلیمات کے مطابق انہیں منی پہنچ کر اپنے خیموں میں قیام کرنا تھا،لیکن وہ سیدھا شیطان کو کنکریاں مارنے پہنچ گئے۔یہی نہیں انہوں نے سڑک نمبر204 میں ون وے کی مخالفت بھی کی۔

300 ایرانی حاجیوں کا یہ گروہ جمرہ عقبہ کی رمی کرنے کے بعد ایگریٹ ڈور سے نکلنے کے بجائے کچھ دیر وہیں ٹھہرا رہا،جس سے رش بڑھ گیا،پھر مخالف سمت میں چلنا شروع کیا، چس کے نتیجے میں بھگدڑ مچ گئی۔انہی ایرانیوں کی بدانتظامی کی وجہ سے یہ حادثہ ہوا،چنانچہ سب سے زیادہ یہی ایرانی اس حادثے سے متاثر ہوئے۔

ایرانی حاجیوں کے اسی ذمہ دار نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس حادثہ میں حج انتظامات کو ناقص کہنا سراسر ناانصافی ہے۔یہ حادثہ حاجیوں کی بدانتظامی کی وجہ سے پیش آیا۔

دوسری جانب ایرانی میڈیا میں یہ خبر نشر کی جارہی ہے کہ یہ حادثہ سعودی بادشاہ شاہ سلمان کے بیٹے کی وجہ سے پیش آیا،کیوں کہ ان کے آنے کی وجہ سے راستہ بند کردیا گیا تھا جس سے ایک جگہ رش بڑھ گیا۔

سعودی عرب نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شاہ سلمان کے بیٹے محمد بن سلمان کے منی آنے کی خبر میں کوئی صداقت نہیں ہےاور اس روز وہ مکہ میں موجود ہی نہیں تھے۔

ویسے بھی اس طرح کی بڑی شخصیات کے لیےرمی وغیرہ کرنے کے الگ خاص راستے بنائے گئے ہیں جس سے اس من گھڑت خبر کی بآسانی تردید ہوسکتی ہے۔۔

کیا بیتی منی میں؟

یہ رپورٹ ہمیں فردوس جمال نے بھیجی جو سوق العرب منیٰ اس وقت موجود تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اس وقت منی میں موجود ہوں ، سعودی وقت کے مطابق رات کے دس بج کر بیس منٹ ہوچکے ہیں ،یہاں کی خیمہ بستیوں میں گو معمول کی سرگرمیاں ہیں ،تاہم صبح کے دلدوز اور افسوس ناک حادثہ کے باعث حاجیوں کے چہروں سے مسکراہٹ غائب ہے جب کہ دکھ ، پریشانی اور کسی حد تک خوف کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں ، وه سکون ، وه اطمینان جو میں نے آج سے پہلے کئی بار منی میں دیکھا تھاوه کہیں نظر نہیں آرہا ، ہلکی سی آہٹ ، تھوڑی سی ہلچل سے حجاج کان کھڑے کردیتے ہیں ، شاید یہ صبح کے سانحہ کا وقتی اثر ہو

اس سانحے کے چند لمحے ہی بعد سوشل میڈیا میں جہاں بہت سے لوگوں نے اس واقعہ پر دکھ ، افسوس ،دعا اور تعزیت کا اظہار کیا وہی کچھ عاقبت نا اندیش لوگ اس سانحے کو سعودی عرب کے ساتھ اپنی دیرینہ اور فرقہ وارانہ دشمنی نبھانے کے واسطے بطور ہتھیار استعمال کرنے لگے ، بہت کم ظرف اور نہایت جلد باز لوگ تھے یہ ، ورنہ تو ایسے سانحات کے موقعوں پر دشمن سے بھی اظہار ہمدردی کی جاتی ہے ،

مجھ سے کئ دوستوں نے رابطہ کیا ،خیریت پوچھی اس حادثے کا سبب پوچھا ،کچھ کو میں مصروفیات کے باعث جواب نہیں دے سکا ، انہوں نے رسائل اور پیغامات چھوڑے تھے ،

اب مختصر اس حادثے کا پس منظر بیان کرتا ہوں ، سب سے پہلے تو بطور مومن و مسلمان قضاء وقدر پر ہمارا ایمان ہے سو ہم ایسی کوئی بات نہیں کریں گے جس سے ہمارا رب ناراض ہو ، جہاں تک حجاج کیلئے انتظامات کا سوال ہے ، مجھے پانچ سے زائد بار یہ توفیق نصیب ہوئی کہ میں مشاعر مقدسہ میں حجاج کرام کے شانہ بشانہ مناسک حج بجا لاؤں ، میں ہر سال یہاں کے انتظامات کو بغور دیکھتا ہوں ، میرا عمیق مشاہدہ ہے ، جگہ جگہ حجاج کرام کی راہنمائی کیلئے نصب سائن بورڈز ، اہم مقامات پر آویزاں بڑی بڑی راہنما سکرینیں ، چاق و چوبند اسپیشل فورس اور پولیس کے دستے ، چند میٹر کے فاصلہ پر جگہ جگہ دفاع مدنی کے دفاتر ، بیشمار کشادہ داخلی اور خارجی راستے ، ان راستوں سے نکلتے ایمرجنسی راستے ، فضا میں گشت کرتے ہیلی کاپٹر ، الغرض ایسا منظم اور مربوط انتظام کہ مجھ سمیت یہاں حج پر آنے والا ہر حاجی یہاں کی حکومت کو اس حسن انتظام پر دعائیں دیے بنا نہیں ره سکتا ہے ،

آج کا افسوس ناک واقعہ حجاج کرام کے ایک گروپ نے انتظامی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے کے باعث رونما ہوا ، یہ گروپ اچانک ہی ون وے پر مخالف سمت سے چڑھ دوڑا جس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی ، یہ گروپ کون تھا ؟ کہاں کا تھا ؟ اس پر ابھی تحقیقات ہورہی ہیں ، تاہم عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے ، جن پر الموت لامریکا الموت لااسرائیل درج تھا ، یہ لوگ مذہبی نوعیت کے نعرے بھی بلند کر رہےتھے ،

یہ گروہ بہت تیزی سے مخالف ٹریک پر چڑھ دوڑا تھا ، اوپر سے گرمی بھی بہت تھی ، حبس کا عالم تھا،جس کے باعث اتنا نقصان ہوا ، انتظامیہ کی طرف سے پیشگی اطلاع بھی تھی کہ گرمی کے باعث بہتر یہی ہوگا کہ حجاج کنکریاں عصر کے بعد ماریں ، مگر قدر اللہ و ما شاء فعل ،

واقعہ کے فوراً بعد چار ہزار سے زائد امدادی کارکن اور فوجی اہلکار جائے حادثہ پر موجود تھے ، دو سو سے زائد ایمبولینس موقع پر پہنچ گئی تھیں ،اگر انتظامیہ بروقت اور بھرپور کردار ادا نہ کرتی تو اس سے زیاده نقصان ہوسکتا تھا ، لاکھوں لوگ وقت حادثہ جائے حادثہ کے آس پاس میں تھے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ملک حج سے پہلے اپنے حجاج کرام کی معقول تربیت اور تدریب کا انتظام کریں ،بخدا حاجیوں کی تربیت اور ٹریننگ بالکل بھی نہیں ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ مرحومین کو شہداء کے درجے میں فائز کرے ، زخمیوں کو شفا یاب کرے اور باقی حجاج کرام کو اپنی حفظ و امان میں رکھے .!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے