حزب اللہ کے دیس میں

انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC) ایک معروف بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا صدر دفتر سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے، جبکہ سرگرمیوں کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک غیر جانب دار اور خود مختار ادارہ ہے جسے اقوام عالم کی طرف سے یہ مینڈیٹ دیا گیا ہے کہ وہ جنیوا کنونشنز (۱۹۴۹ء) اور اضافی پروٹوکولز (۱۹۷۷ء) کے مطابق مسلح نزاعات کے متاثرین کے تحفظ اور امداد کے لیے کام کرے۔ جنگ سے متعلق کسی بھی مجموعہ قانون کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک علۃ القتال (jus ad bellum) یعنی یہ بحث کہ اخلاقی طور پر جنگ کی وجہ جواز کیا ہے، اور دوسرے آداب القتال (jus in bello) یعنی وہ اخلاقی حدود وقیود اور قواعد وضوابط جن کی پاس داری جنگ کے دوران میں فریقین پر لازم ہے۔ جدید قانونی اصطلاح میں دوسری نوعیت کے قوانین کو بین الاقوامی انسانی قانون (International Humanitarian Law) کا عنوان دیا گیا ہے اور اس کے تحت آنے والے قوانین دو بنیادی اصولوں پر مبنی ہیں: ایک یہ کہ جو اشخاص حالت جنگ میں براہ راست لڑائی میں شریک نہیں یا کسی وجہ سے لڑائی میں حصہ لینا چھوڑ چکے ہیں، انھیں جنگی کارروائی کی زد میں آنے سے محفوظ رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ دوران جنگ میں جو ہتھیار، اسالیب اور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، وہ ایسے ہونے چاہییں جن سے غیر متعلق افراد متاثر نہ ہوں اور جن سے جانی ومالی نقصان ناگزیر حد تک اور کم سے کم ہو۔ ریڈ کراس کا دائرۂ کار آداب القتال سے متعلق ہے اور یہ ادارہ جنگ اور آفت زدہ علاقوں میں متاثرین کی امداد، جنگی قیدیوں کی صورت حال کا جائزہ لینے، جنگوں، قدرتی حادثات یا اجتماعی نقل مکانی کے نتیجے میں گم شدہ افراد کی تلاش اور ان کے اہل خاندان کے ساتھ ان کا رابطہ بحال کرانے اور آفت زدہ علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم لوگوں تک پانی، خوراک اور طبی امداد پہنچانے کی عملی سرگرمیوں کے علاوہ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطالعہ وتحقیق اور اس کو بہتر سے بہتر بنانے اور عالمی قوانین کو نئے حالات سے ہم آہنگ بنانے کے ضمن میں اپنی تجاویز بھی پیش کرتا ہے۔

اس تنظیم کی بنیاد سوئٹزر لینڈ کے ایک تاجر ہنری دوناں (Henry Dunant) نے رکھی تھی۔ ا س کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ۱۸۵۹ء میں ہنری دوناں کو شمالی اٹلی کے ایک شہر سولفرینو میں آسٹریا اور فرانس کی فوجوں کے مابین ایک معرکے کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور اس نے دیکھا کہ چند گھنٹوں کے اندر میدان جنگ چار ہزار مقتولوں او رزخمیوں سے بھر گیا ہے۔ ہنری دوناں نے جذبۂ انسانیت کے تحت مقامی آبادی سے تعاون کی اپیل کی اور جس حد تک ممکن ہوا، زخمیوں کو فوری طبی امداد پہنچائی گئی۔ اس واقعے کا ہنری دوناں پر اتنا گہر ا اثر ہوا کہ وطن واپس جا کر اس نے ’سولفرینو کی یادیں‘‘ (A Memory of Solferino) کے نام سے اپنے مشاہدات کو ایک باقاعدہ کتاب کی صورت میں شائع کیا اور اس میں یہ تجویز پیش کی کہ ایسی امدادی تنظیمیں قائم کی جانی چاہییں جو دوران جنگ میں زخمیوں کو طبی امداد پہنچانے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں اور ایسی تنظیموں کو بین الاقوامی قانون میں تحفظ فراہم کرتے ہوئے دوران جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے کی سہولت دی جائے۔ ہنری دوناں کی اپیل پر ۱۹۶۳ء میں زخمیوں کی امداد کے لیے ایک بین الاقوامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس نے بعد میں انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی شکل اختیار کر لی۔

بین الاقوامی انسانی قانون کے میدان میں انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی متنوع سرگرمیوں میں سے ایک اس قانون کے بارے میں عمومی آگاہی کو فروغ دینے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف سطحوں پر تربیتی کورسز اور ورک شاپس کا اہتمام کرنا بھی ہے۔ اسی سلسلے کا ایک تربیتی کورس ۲۹؍ مارچ تا ۹؍ اپریل ۲۰۱۰ء لبنان کے دار الحکومت بیروت میں منعقد کیا گیا جو اصلاً عرب ممالک کے قانون دانوں، سفارت کاروں اور تعلیم وذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے لیے تھا، تاہم اس میں پاکستان اور ایران سے بھی چند افراد کو دعوت دی گئی تھی۔ پاکستان سے جانے والے وفد میں وفاق المدارس العربیہ کے جنرل سیکرٹرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، ادارۂ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کے شعبۂ فقہ کے صدر ڈاکٹر عصمت عنایت اللہ اور راقم الحروف شامل تھے، جبکہ ایران سے جامعہ شہید بہشتی قم کے ایک فاضل استاذ الشیخ ابراہیمی کو مدعو کیا گیا تھا۔ کورس میں متعلقہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے ساٹھ کے قریب افراد شریک تھے جو سب کے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور اسی مناسبت سے تدریس کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے بھی مصر، تیونس، لبنان، مراکش اور سوئٹزر لینڈ سے بین الاقوامی انسانی قانون کے ممتاز ترین ماہرین کو دعوت دی گئی تھی۔

بین الاقوامی انسانی قانون، ریڈ کراس کی سرگرمیوں اور بیروت کے اس تربیتی کورس کی علمی بحثوں سے متعلق آئندہ نشستوں میں ذرا تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔ یہ نشست اس سفر کے ذرا عمومی پہلوؤں کے لیے خاص رہے گی۔

کورس کے انعقاد کے لیے لبنان کے دار الحکومت بیروت کا انتخاب کیا گیا تھا جو ایک قدیم تاریخی شہر ہے اور اس وقت شرق اوسط کے حساس ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ لبنان کے شمال اور مشرق میں سوریا، جنوب میں اسرائیل جبکہ مغرب میں بحیرۂ روم واقع ہے جسے انگریزی میں Mediterranean Sea اور عربی میں البحر الابیض المتوسط کا نام دیا جاتا ہے۔ ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو تاریخی طور پر بحیرۂ روم کے دوسرے کناروں پر آباد تہذیبوں اور بلاد عرب کے مابین ایک نقطۂ اتصال کی حیثیت حاصل رہی ہے اور یہاں کا نسلی، ثقافتی اور مذہبی تنوع اسی کی یادگار ہے۔ میسر تاریخی شواہد کے مطابق لبنان میں انسانی بود وباش اور تہذیب کا ثبوت سات ہزار قبل تک ملتا ہے۔ قدیم زمانے میں یہ علاقہ فینیقی تہذیب کا مرکز رہا ہے جو ۳۰۰۰ قبل مسیح سے تقریباً ۵۰۰ قبل مسیح تک اس علاقے کی ایک متمدن اور ترقی یافتہ تہذیب رہی ہے۔ یونانی فاتح اسکندر اعظم کے حملوں میں فینیقی تہذیب کا نمایاں ترین مرکز ٹائر (Tyre) تباہ ہو گیا۔ اس کے بعد لبنان کی پوری تاریخ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے طالع آزماؤں اور فاتحوں کی یورش اور تسلط سے عبارت ہے اور یہاں ایرانی، اشوری، یونانی، رومی، عرب، سلجوقی، مملوک، صلیبی اور عثمانی فاتحین یکے بعد دیگرے حملہ آور ہوتے اور حکومت کرتے رہے ہیں۔

ساتویں صدی عیسوی میں جب اسلامی سلطنت دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی تو اس وقت جزیرۂ عرب کے شمال میں واقع یہ سارا علاقہ جو اب سوریا، فلسطین، اردن، لبنان اور اسرائیل جیسے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، مجموعی طور پر بلاد الشام کہلاتا تھا اور اس وقت رومی سلطنت کا حصہ تھا۔ سیدنا عمر کے عہد میں یہ سارا علاقہ اسلامی سلطنت کے زیرنگیں آ گیا اور اسے بے شمار صحابہ وتابعین اور اس کے بعد صدیوں تک اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے اکابر کا مولد و مسکن بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ سیدنا علی کے دور میں اسلامی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور حجاز کے بالمقابل شام کا علاقہ سیدنا امیر معاویہ کی امارت میں اموی خلافت کا مرکز قرار پایا اور پھر سیدنا حسن اور سیدنا معاویہ کے مابین صلح کے بعد کم وبیش ایک صدی تک دمشق کو اموی سلطنت کے پایۂ تخت کی حیثیت حاصل رہی۔ اموی خلافت کے خاتمے کے بعد یہاں عباسی سلطنت کا پرچم لہرایا گیا اور پھر عباسی سلطنت کے زوال واضمحلال کے زمانے میں مختلف عربی وعجمی خاندان وقتاً فوقتاً یہاں حکومت کرتے رہے۔ سولہویں صدی میں شام کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا اور کم وبیش چار صدیوں تک اسی کا حصہ رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کا تسلط ختم ہونے پر یورپی طاقتوں نے شام کے علاقے کی آپس میں بندر بانٹ کی تو برطانیہ اور فرانس کے مابین باہمی معاہدے کے تحت فلسطین کو برطانیہ، جبکہ سوریا کو فرانسیسی انتداب میں دے دیا گیا۔ فرانسیسیوں نے اپنی سیاسی مصلحتوں کے تحت ۱۹۲۶ء میں جبل لبنان اور اس سے متصل علاقے کو سیریا سے الگ ایک مستقل ملک کا درجہ دے دیا اور اس طرح موجودہ لبنان دنیا کے سیاسی نقشے پر نمودار ہوا۔

لبنان اپنے باشندوں کے مذہبی اور ثقافتی تنوع کے اعتبار سے خاصا منفرد ملک بھی ہے اور حساس بھی۔ یہاں چالیس فی صد کے قریب مسیحی، تیس فی صد کے قریب اہل تشیع اور اِسی کے لگ بھگ اہل سنت بستے ہیں۔ مسیحیوں میں زیادہ تعداد مارونی کیتھولک مسیحیوں کی ہے جو پانچویں صدی عیسوی کے ایک شامی راہب مارون کی طرف منسوب ہیں اور مذہبی معاملات میں پاپاے روم کی اطاعت کو قبول کرتے ہیں۔ یونانی آرتھوڈوکس دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے علاوہ بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے مسیحی گروہ موجود ہیں۔ اہل سنت زیادہ تر شافعی المسلک ہیں، جبکہ اہل تشیع میں اثنا عشریہ کے علاوہ دروز اپنا الگ اور مخصوص مذہبی تشخص رکھتے ہیں اور شام، لبنان، اسرائیل اور اردن میں ایک مستقل مذہبی گروہ کی حیثیت سے منظم ہیں۔ دروز اپنے آپ کو اہل التوحید کہتے ہیں اور ذات باری کے لیے ذات سے الگ صفات کے مستقل اثبات کو توحید اور تنزیہ کے منافی سمجھتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا کلامی عقیدہ معتزلہ کے بہت قریب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں باطنی تصوف کا بھی ایک گہرا عنصر موجود ہے ، چنانچہ وہ آیات واحادیث کے ظاہری اور لفظی معانی کے علاوہ ان کے ایک خاص باطنی مفہوم کے بھی قائل ہیں جس تک ان مخصوص افراد ہی کی رسائی ہو سکتی ہے جو معرفت اور عرفان کا ایک خاص مقام حاصل کر لیں۔ ایک داخلی تقسیم کی رو سے دروز کمیونٹی دو بڑے حصوں میں تقسیم ہے۔ عوام الناس کو ’جہال‘ کہا جاتا ہے اور پڑھے لکھے افراد کو ’عقال‘۔ ان میں سے ’جہال‘ یعنی عوام کو ’عقال‘ یعنی خواص کے مذہبی لٹریچر تک رسائی کی اجازت نہیں اور نہ وہ ان کے مخصوص مذہبی اجتماعات میں شریک ہو سکتے ہیں۔ ’عقال‘ میں سے بھی زیادہ ممتاز لوگوں پر مشتمل ایک خاص حلقہ ’اجاوید‘ کہلاتا ہے اور اسی حلقے کے لوگ دروز کی مذہبی راہ نمائی کے منصب پر فائز ہوتے ہیں۔

۱۹۴۳ء میں لبنان نے فرانس سے آزادی حاصل کی تو ایک غیر تحریری قومی معاہدے کے تحت یہاں کے سیاسی راہ نماؤں نے مختلف مذہبی گروہوں کے مابین اقتدار کے اشتراک پر مبنی ایک منفرد سیاسی نظام قائم کیا جس کی رو سے یہاں کا صدر مارونی کیتھولک، وزیر اعظم سنی، پارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ جبکہ ڈپٹی اسپیکر یونانی آرتھوڈوکس ہوتا ہے۔ اس وقت میشال سلیمان صدر، سعد رفیق الحریری وزیر اعظم جبکہ نبیہ بری اسپیکر پارلیمنٹ ہیں۔ آزادی کے بعد ۱۹۷۵ء تک لبنان میں عمومی طور پر امن وامان اور خوش حالی کی کیفیت قائم رہی اور خاص طور پر سیاحت، زراعت اور بینکنگ کے شعبوں میں لبنان نے خاصی ترقی کی۔ اس دور میں اسے مشرق کا سوئٹزر لینڈ، جبکہ سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے شرق اوسط کا پیرس کہا جاتا تھا۔ تاہم ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۰ء تک لبنان مسلم اور مسیحی گروہوں کے مابین شدید تصادم اور خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس پندرہ سالہ خانہ جنگی میں نہ صرف لبنان کی معیشت برباد ہو گئی بلکہ انسانی جانوں اور املاک کا بھی شدید نقصان ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ جانیں ضائع ہوئیں، جبکہ دو لاکھ کے قریب لوگ زخمی ہوئے اور نو لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہو گئے جو اس وقت لبنان کی آبادی کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔ ۱۹۹۰ء میں سعودی عرب کی کوششوں سے متحارب فریقوں کے مابین طائف کے مقام پر ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور امن وامان کی صورت حال بحال ہو گئی۔ تاہم، امن وامان کی ظاہری بحالی کے باوجود مذہبی اور نسلی تفریق کا سوال انتہائی حساسیت کے ساتھ بدستور موجود ہے۔

ہمیں صورت حال کی حساسیت کا اندازہ اس سے ہوا کہ ہمارے ساتھ تربیتی کورس میں لبنانی فوج کے ایک حاضر سروس عمید (کرنل) بھی شریک تھے۔ ایک دن چائے کے وقفے میں ڈاکٹر عصمت اللہ نے ان سے فوج میں مسلم مسیحی تناسب کے بارے میں سوال کیا تو وہ نہ صرف طرح دے گئے، بلکہ فوراً کوئی چیز لینے کے بہانے سے ہمارے پاس سے چلے گئے۔ لبنان کے نائب امین الفتویٰ الشیخ طاہر سلیم کردی سے ملاقات کے دوران میں، جس کا ذرا تفصیلی ذکر آگے آئے گا، شیعہ سنی اختلاف کی صورت حال پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ۲۰۰۶ میں لبنان کے وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کے بعد شیعہ سنی تعلقات میں ایک تناؤ پیدا ہو گیا ہے، کیونکہ بعض حلقوں کی طرف سے رفیق الحریری کے قتل میں حزب اللہ کے ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آپ کے خیال میں حزب اللہ ملوث ہے تو انھوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے، بلکہ ہم عوامی سطح پر اس مسئلے پر گفتگو کرنا بھی پسند نہیں کرتے، کیونکہ اس سے تناؤ اور کشیدگی کو ہوا ملنے کا خدشہ ہے۔

یہاں کی ایک نہایت ذمہ دار شخصیت نے رازداری کی شرط پر ہمیں یہ بات بتائی کہ کچھ عرصہ قبل کچھ عرب شیوخ نے، جو ہر سال گرمی کے موسم میں سیاحت کی غرض سے لبنان آتے ہیں اور ایک ایسے علاقے میں ٹھہرتے ہیں جہاں مسیحی آبادی کی اکثریت ہے، اس بات کی کوشش کی کہ وہاں ایک مسجد تعمیر کر دی جائے۔ مقامی مسیحیوں کو پتہ چلا تو انھوں نے یہ کہہ کر اس میں رکاوٹ ڈال دی کہ یہاں مسلمان سرے سے آباد ہی نہیں، اس لیے مسجد کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد ان عرب شیوخ نے لبنان کے مذہبی راہ نماؤں سے رابطہ کیا اور ہمیں یہ بات بتانے والی شخصیت نے کہا کہ وہ اس میٹنگ میں موجود تھے جس میں لبنان کے مفتی عام اور ان شیوخ کے مابین باقاعدہ یہ منصوبہ طے پایا کہ مسیحیوں کے اس علاقے میں مسلمانوں کے لیے ایک مکان خریدا جائے اور پھر مناسب موقع پر پوری تیاری کے ساتھ ساتھ راتوں رات وہاں مینار کھڑا کر کے اسے مسجد کی حیثیت دے دی جائے تاکہ اس کے بعد اگر مسیحی اسے گرانا چاہیں تو مسلمان اشتعال میں آ جائیں اور خانہ جنگی کی صورت دوبارہ لوٹ آئے۔ اس شخصیت نے کہا کہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ ایسے اسباب پیدا ہو گئے کہ ان عرب شیوخ کا یہاں آنا جانا بند ہو گیا اور یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، ورنہ کچھ خبر نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا۔ مجھے اس پر کسی بزرگ کا وہ تبصرہ ذہن میں آ گیا جو والد گرامی نے ایک موقع پر سنایا تھا کہ ’’تیل کا پیسہ ہے۔ جہاں جائے گا، آگ ہی لگائے گا۔‘‘

اس شدید فرقہ وارانہ کشیدگی کے اثرات یہاں کے تمام سیاسی معاملات پر بہت نمایاں ہیں۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۸ء کی عرب اسرائیل جنگ میں جو ایک لاکھ کے قریب فلسطینی مسلمان ہجرت کر کے لبنان آ گئے تھے اور جنھیں جنگ ختم ہونے کے بعد اسرائیل نے واپس قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، ان کو اور ان کی اگلی نسل کو آج بھی لبنان کی شہریت حاصل نہیں ہے اور ادارہ جاتی سطح پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، چنانچہ ۲۰ شعبوں میں فلسطینیوں کے لیے ملازمت کرنا ممنوع ہے۔ اب ان فلسطینی مہاجروں اور ان کی اگلی نسل کی تعداد چار لاکھ تک پہنچ چکی ہے جن میں سے نصف کے قریب مہاجر کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اسی طرح یہاں کے قانون کے مطابق کوئی لبنانی خاتون جس نے کسی غیر لبنانی مرد سے شادی کی ہو، اپنے بچوں کو لبنانی شہریت منتقل نہیں کر سکتی اور لبنان کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں بعض مقدمات میں اس قانون کی ازسرنو توثیق کی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے کہ اگر غیر لبنانی شوہروں کے بچوں کو لبنانی شہریت دی گئی تو مذہبی اور نسلی اعتبار سے یہاں کی آبادی کا موجودہ تناسب بدل سکتا ہے جس کے اثرات مستقبل میں سیاسی سیٹ اپ پر بھی لازماً پڑیں گے۔

بیروت شہر دو اطراف سے بلند وبالا پہاڑوں اور ایک طرف سے سمندر کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ کسی بلند مقام سے شہر کا نظارہ کیا جائے تو ایک دل فریب منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ پہاڑوں کے اوپر سے مکانات اور عمارتوں کی صورت میں انسانی آبادی ایک تسلسل کے ساتھ نیچے اترتی ہوئی ساحل سمندر کے ساتھ آکر مل جاتی ہے۔ ایئر پورٹ بھی بالکل ساحل کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے اور جب بیروت کی طرف آنے والا جہاز سمندر کے اوپر اڑتا ہوا نیچے اترنے کے لیے زمین کے قریب ہونا شروع ہوتا ہے تو آخر وقت تک یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید جہاز سمندر میں ہی اترنے والا ہے۔ لبنان اپنے خوب صورت سیاحتی مقامات کے لیے پوری دنیا میں معروف ہے اور خاص طور پر بیروت اور اس کے گرد ونواح میں عالمی شہرت کے حامل سیاحتی مقامات موجود ہیں۔ تربیتی کورس کے منتظمین کی طرف سے ۴؍ اپریل اتوار کا دن سیاحت کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اس دن ہم نے مغارۃ جعیتا، مقدسہ مریم کا کنیسہ اور جبیل کے علاقے میں قدیم تاریخی شہرکے کھنڈر دیکھے۔

مغارۃ جعیتا (Jeita grottos) بیروت کے شمال میں ۱۸ کلو میٹر کے فاصلے پر تاریخی دریاے کلب کی وادی میں واقع ہے اور اسے بجا طور پر لولوۃ السیاحۃ اللبنانیۃ (Jewel of tourism in Lebanon) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا غار ہے جس میں لاکھوں سال کے کیمیاوی عمل سے پتھروں اور چٹانوں نے نہایت حیرت انگیز اور شان دار قدرتی آرٹ کے نمونوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ انسان انھیں دیکھ کر فی الواقع حیرت سے دنگ رہ جاتا ہے اور قدرت کی صناعی اسے تبارک اللہ احسن الخالقین کا ورد کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مغارۃ جعیتا کو سیاحوں کے لیے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہاڑ کی بلندی پر واقع حصے میں غار کے بیچوں بیچ سلیقے سے ایک پختہ راستہ بنایا گیا ہے جو غار کے آخر تک چلا جاتا ہے اور سیاح اس راستے سے گزرتے ہوئے دائیں بائیں، اوپر اورنیچے قدرتی صناعی کے حیرت انگیز نمونوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ غار کے نچلے حصے میں دریاے کلب کا ایک حصہ بہتا ہے۔ اس حصے کی سیاحت کے لیے کشتیوں کا انتظام کیا گیا ہے اور سیاح ٹھنڈے اور شفاف پانی میں مختلف کھلی اور تنگ جگہوں سے گزرتے ہوئے قدرت کی کاری گری کے نمونوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ۱۸۳۶ء میں تھامسن نامی ایک مسیحی مناد نے غار کے زیریں حصے کو دریافت کیا تھا جسے ۱۹۵۸ء میں عام لوگوں کی سیاحت کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ پھر ۱۹۵۸ء میں ہی زیریں غار سے راستہ بناتے ہوئے غار کے بالائی حصے کو بھی دریافت کر لیا گیا اور ۱۹۶۹ء میں مناسب انتظامات کے بعد اسے بھی عام سیاحت کے لیے کھول دیا گیا۔ غار میں مصنوعی روشنی کا مناسب انتظام کیا گیا ہے۔ مختلف مقامات پر چھت اور دیواروں سے قدرتی طور پر پانی ٹپک رہا ہے اور غار کے اندر کا موسم مجموعی طور پر ٹھنڈا اور خوش گوار ہے۔ بالائی غار کا درجہ حرارت سارا سال ۲۲ سنٹی گریڈ جبکہ زیریں غار کا ۱۶ سنٹی گریڈ رہتا ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے غار کے اندر تصویر کشی ممنوع ہے اور سیاحوں کے موبائل یا کیمرے وغیرہ اندر داخل ہونے سے پہلے لے لیے جاتے ہیں تاہم، یاد پڑتا ہے کہ اکا دکا افراد نظر بچا کر موبائل اندر لے جانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انٹر نیٹ کی بعض ویب سائٹس پر اس کی کچھ تصاویر جبکہ یو ٹیوب پر مختصر ویڈیو کلپس میسر ہیں۔ غار کے قریب جگہ جگہ ایسے سائن بورڈ آویزاں ہیں جن پر سیاحوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ انٹر نیٹ پر ان غاروں کو دنیا کے سر فہرست عجائب میں شامل کرنے کے حق میں ووٹ دیں۔

مغارۃ جعیتا کے بعد ہمیں مقدسۂ مریم کے کنیسہ میں لے جایا گیا جو سمندر کے کنارے ایک بلند وبالا پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔ یہاں گرجے کی چھت پر سیدہ مریم کا ایک دیو ہیکل مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ مسیحی حضرات یہاں دعا و مناجات کے لیے آتے ہیں جبکہ عمومی طور پر اسے ایک سیاحتی مقام کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ یہ ایک وسیع کمپلیکس ہے جس میں گرجے کی عمارت کے علاوہ لائبریری، سیاحتی یادگاروں (souvenirs) اور مسیحی مذہبی کتب اور سی ڈیز کی دکانیں بھی موجود ہیں۔ میں نے بھی یہاں سے کتاب مقدس سے متعلق بعض معلوماتی کتب اور سی ڈیز خریدیں۔

ہمارے سیاحتی دورے میں تیسرا اور آخری مقام جبیل کا علاقہ تھا جو آثار قدیمہ کی بعض تاریخی یادگاروں کے حوالے سے معروف ہے۔ جبیل، بیروت سے ۳۷ کلو میٹر کے فاصلے پر شمال میں بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع ہے اور پانچ ہزار قبل مسیح پرانا مانا جاتا ہے۔ یونانیوں نے اس کا نام Babylos یعنی کتابوں کا گھر رکھا تھا۔ یہاں قدیم شہر کی گلیوں بازاروں، محلات اور عبادت گاہوں کے کھنڈر موجود ہیں۔ یہاں قائم کیے گئے میوزیم میں اس شہر کے آخری بادشاہ احیرام کے دور کا ایک کتبہ محفوظ ہے جس پر فینیقی زبان کی عبارت کندہ ہے۔ اس کے علاوہ مختلف تختیوں پر ان کھدائیوں کی تفصیل درج ہے جو مختلف اوقات میں اس شہر میں ہوتی رہیں۔ یہاں وہ بندرگاہ بھی موجود ہے جسے دنیا کی قدیم ترین بندرگاہ مانا جاتا ہے اور جو دو ہزار قبل مسیح میں فینیقیوں اور مصر اور یونان کے شہروں کے مابین تجارت کا مرکز تھی۔ ازمنہ وسطیٰ میں یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کیا گیا۔ قلعے کے ساتھ ہی جبیل کا قدیم بازار آباد ہے جہاں ملبوسات، زیورات اور مختلف مجسموں کی صورت میں سیاحوں کے لیے یادگاری چیزیں میسر ہیں۔ اس علاقے میں مارونی مسیحی اکثریت میں ہیں، جبکہ دس گیارہ فیصد شیعہ آباد ہیں۔ لبنان کے موجودہ صدر العماد میشال سلیمان کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔

اس طرح ۴؍ اپریل کا یہ سارا دن کسی آرام کے بغیر مسلسل سفر کرتے گزرا اور ہم شام کو مغرب کے بعد ہوٹل واپس پہنچے، لیکن تھکن کا احساس بالکل نہیں ہوا، بلکہ سب دوستوں کا تاثر یہ تھا کہ یہ سیاحت واقعتا بے حد پُرلطف رہی۔

مذکورہ مقامات کی سیاحت کے علاوہ ہمیں خاص بیروت کے کچھ حصے دکھانے اور بعض اہم ملاقاتیں کروانے کا اہتمام یہاں کے ایک بے حد مہربان دوست نوجوان عارف حسین نے کیا جن سے رابطہ کر کے انھیں بلوانے کی خدمت قاری محمد حنیف جالندھری صاحب نے انجام دی۔ عارف حسین بیروت میں اپنا کاروبار بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی اور دعوتی سرگرمیوں میں بھی پوری طرح شریک رہتے ہیں۔ نہایت فصیح اور عمدہ عربی بولتے ہیں اور ان کا چہرہ مہرہ اور بالوں کا اسٹائل دیکھ کر سیدنا مسیح علیہ السلام کا وہ نقشہ ذہن میں آ جاتا ہے جو مسیحی حضرات کے ہاں تصویروں اور مجسموں میں دکھایا جاتا ہے۔ عارف حسین سب سے پہلے ہمیں جامع العمری الکبیر میں لے گئے جہاں ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ یہ ایک عظیم الشان مسجد ہے اور تقریباً ایک ہزار سال قبل بڑے بڑے پتھروں سے تعمیر کی گئی اس کی عمارت اصل حالت میں اب بھی قائم ہے۔ مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے اس کے تاریخی تعارف پر مبنی ایک مختصر کتابچہ ہمیں فراہم کیا گیا۔ اس کے مطابق ۱۴ ہجری (۶۳۵ عیسوی) میں جب سیدنا عمر کے زمانے میں بیروت فتح ہوا تو اس جگہ ایک مسجد تعمیر کی گئی تھی جس کا نام تکریماً مسجد عمری رکھا گیا۔ صلیبی جنگوں کے دور میں جب یہ علاقہ مسیحیوں کے قبضے میں آیا تو انھوں نے اس مسجد کو گرجے میں تبدیل کر دیا۔ پھر ۵۸۳ھ (۱۱۸۷ عیسوی) میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیروت کو دوبارہ فتح کیا تو اس کو دوبارہ مسجد کی حیثیت سے بحال کر دیا گیا۔ اس کے دس سال بعد مسیحی دوبارہ بیروت پر قابض ہوئے تو یہ مسجد پھر گرجا بن گئی۔ اس کے بعد ممالیک کے عہد میں ۶۹۰ھ (۱۲۹۱ عیسوی) میں مسلمانوں نے اس شہر اور مسجد کو دوبارہ حاصل کیا، لیکن پوری عمارت کو ازسرنو تعمیر کرنے کے بجاے جزوی ترمیمات کے ساتھ گرجے ہی کی عمارت کو برقرار رکھا، چنانچہ آج بھی گرجے کی طرز پر بڑے بڑے ستونوں پر قائم ایک بڑا اور لمبا سا ہال ہے جس میں قالین نما مصلے بچھا کر نماز ادا کی جاتی ہے۔

اس مسجد کو جامع عمری کے علاوہ جامع التوبہ اور جامع النبی یحییٰ علیہ السلام بھی کہا جاتا ہے۔ مسجد کے محراب کے ساتھ ایک بڑا سا آہنی دروازہ ہے جس کے پیچھے بعض تاریخی روایات کے مطابق حضرت یحییٰ علیہ السلام کے جسد مبارک کا ایک حصہ مدفون ہے۔ اس روایت کی صحت کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ حضرت یحییٰ کی ایک قبر دمشق میں بھی ہے۔ بہرحال ترکی کے سلطان عبد الحمید نے ۱۳۰۵ھ (۱۸۸۷ عیسوی) میں اس حصے کے آگے جہاں عام روایت کے مطابق حضرت یحییٰ کے جسد مبارک کا کوئی حصہ مدفون ہے، ایک مضبوط آہنی دروازہ نصب کروا دیا تھا جو آج بھی موجود ہے۔ مسجد ہی سے متصل ہم نے وہ حجرہ بھی دیکھا جہاں تاریخی روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ موے مبارک ایک صندوق میں محفوظ رکھے گئے تھے اور لوگ ان کی زیارت کیا کرتے تھے۔ یہ صندوق ۱۹۷۵ء کی خانہ جنگی کے دوران یہاں سے گم ہو گیا۔ مسجد کے ساتھ ہی چند قدم کے فاصلے پر مسیحیوں کا ایک بہت بڑا گرجا قائم ہے اور ارد گرد خوب صورت اور عالی شان تجارتی عمارتیں موجود ہیں۔ عارف حسین نے بتایا کہ خانہ جنگی کے زمانے میں یہ پورا علاقہ مکمل طور پر تباہ وبرباد ہو کر کھنڈر کی صورت اختیار کر گیا تھا، لیکن موجودہ صورت میں اس علاقے کو دیکھ کر کوئی شخص اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتا۔

بیروت کے سفر میں دلچسپی کا ایک بہت بڑا باعث یہاں کے وہ اشاعتی ادارے بھی تھے جو عالم اسلام کے علمی حلقوں میں مشہور ومعروف ہیں۔ دار الفکر، دار العلم للملایین، دار احیاء التراث العربی، دار البشائر، دار ابن حزم وغیرہ بڑے بڑے اشاعتی اداروں کا مرکز یہیں پر ہے۔ ہمارا تاثر یہ تھا کہ ان اشاعتی اداروں کی جو شہرت اور تعارف پورے عالم اسلام میں ہے، بیروت میں تو یقیناًہوگی اور ہر پڑھا لکھا آدمی ان سے واقف ہوگا، لیکن یہ محض تاثر ہی تھا۔ ہم کافی دن تک ہوٹل کے کارکنوں اور تربیتی کورس کے شرکا سے مختلف مکتبوں کا نام لے کر معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ کہاں واقع ہیں اور وہاں تک جانے کی کیا صورت ہو سکتی ہے، لیکن کوئی ہماری داد رسی نہ کر سکا۔ بہرحال عارف حسین سے رابطہ ہوا تو ہم نے ان سے خاص طور پر درخواست کی کہ وہ ہمیں یہاں کے چند مکتبے بھی دکھائیں، تاہم، وقت کی قلت کی وجہ سے وہ ہمیں صرف دار البشائر کے گودام میں لے جا سکے۔ یہ گودام متوسط قسم کے علاقے کی ایک مناسب سی عمارت کے تہہ خانے میں قائم ہے۔ وقت کم تھا۔ ہم نے تقریباً ایک گھنٹہ یہاں مختلف کتابیں دیکھتے ہوئے گزارا اور جیب جس قدر اجازت دیتی تھی، اس کے لحاظ سے اپنی دلچسپی کی کچھ کتابیں بھی منتخب کیں۔ بہت احتیاط سے انتخاب کرنے کے باوجود میرے پاس بیس پچیس کتابیں جمع ہو گئیں۔ ادھر ریڈ کراس نے بھی بین الاقوامی انسانی قانون سے متعلق آٹھ دس تعارفی اور دستاویزاتی کتب کا سیٹ کورس کے شرکا کو عنایت کیا تھا۔ ان سب کتابوں کو جمع کر کے ایک ڈبے میں ڈالا تو اچھا خاصا وزن بن گیا، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ واپسی پر ایئر پورٹ پر کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور سامان کی چیکنگ کرنے والے عملے نے کتابوں سے بھرا ہوا کارٹن دیکھ کر احترام سے فوراً آگے جانے دیا۔

بیروت میں اسلامی تاریخ کے عظیم فقیہ امام اوزاعی کا مرقد بھی ہے جو ان کے نام پر قائم محلہ اوزاعی میں واقع ہے۔ ہماری بہت خواہش تھی کہ امام صاحب کی قبر پر ضرور حاضری دی جائے، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ عارف حسین نے بتایا کہ امام صاحب کی قبر ایک خاص احاطے میں واقع ہے جسے غالباً شام چار بجے کے بعد بند کر دیا جاتا ہے، اس لیے اگر قبر کی زیارت مقصود ہو تو دن کو کسی وقت جانا پڑے گا، لیکن ٹریننگ کورس کے سیشن دن بھر جاری رہنے کی وجہ سے ہمارا دن کو نکلنا ناممکن تھا، سو یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ امام اوزاعی کو اس خطے کے مسیحیوں کے ہاں خاص احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ تاریخی طورپر یہ ہے کہ امام اوزاعی کے زمانے میں جبل لبنان میں مقیم مسیحیوں میں سے کچھ لوگوں نے بعبلبک کے افسر محصولات سے کسی شکایت کی بنا پر بغاوت کر دی۔ مسلمان حاکم صالح بن علی بن عبد اللہ نے ان میں سے شر پسند عناصر کی سرکوبی کے بعد آئندہ اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو، جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہاں سے جلا وطن کر دیا۔ (بلاذری، فتح البلدان، ص ۱۶۹) اس پر امام اوزاعی نے اسے تفصیلی خط لکھا جس کا کچھ حصہ امام ابوعبید نے اپنی کتاب ’’الاموال‘‘ میں نقل کیا ہے۔ امام صاحب نے فرمایا:

’’جبل لبنان کے جن اہل ذمہ کو جلا وطن کیا گیاہے، ان کے بغاوت کرنے پر ساری جماعت متفق نہیں تھی، اس لیے ان میں سے ایک گروہ کو (جس نے بغاوت کی) قتل کرو اور باقی لوگوں کو ان کی بستیوں کی طرف واپس بھیج دو۔ کچھ افراد کے عمل کی پاداش میں سارے گروہ کو کیونکر پکڑا جا سکتا اور انھیں ان کے گھر بار اور اموال سے بے دخل کیا جا سکتا ہے؟ …. یہ لوگ غلام نہیں ہیں کہ تمھیں ان کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ وہ آزاد اہل ذمہ ہیں (جو بہت سے قانونی حقوق اور ذمہ داریوں میں ہمارے برابر ہیں، مثلاً) ان میں سے کوئی شادی شدہ فرد زنا کرے تو اسے رجم کیا جاتا ہے اور ان کی جن عورتوں سے ہمارے مردوں نے نکاح کیا ہے، وہ دنوں کی تقسیم اور طلاق وعدت میں ہماری عورتوں کے ساتھ برابر کی شریک ہوتی ہیں۔‘‘ (الاموال، ص ۲۶۳، ۲۶۴)

یہ واقعہ پڑھ کر میرے دل میں حسرت سی پیدا ہوئی کہ کاش ہمارے آج کے مذہبی راہ نما بھی محض سیاسی ضرورتوں کے لیے نہیں، بلکہ حقیقی اسلامی جذبے سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی آواز بلند کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھیں تو :

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
امام اوزاعی نے جبل لبنان کے اہل ذمہ کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں جو ذمہ داری ادا کی، وہ اسلامی تاریخ کی کوئی نادر مثال نہیں ہے۔ اسی نوعیت کی ایک روشن مثال آٹھویں صدی کے عظیم مجدد اور مجاہد امام ابن تیمیہ کے ہاں بھی ملتی ہے۔ امام صاحب کے زمانے میں جب تاتاریوں نے دمشق پر حملہ کر کے بہت سے مسلمانوں اور ان کے ساتھ دمشق میں مقیم یہودیوں اور مسیحیوں کو قیدی بنا لیا تو امام صاحب علما کا ایک وفد لے کر تاتاریوں کے امیر لشکر سے ملے اور اس سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ تاتاری امیر نے ان کے مطالبے پر مسلمان قیدیوں کو تو چھوڑ دیا، لیکن یہودی اور مسیحی قیدیوں کو رہا نہیں کیا۔ ا س پر امام صاحب نے اس سے کہا کہ :

’’تمھیں ان تمام یہودیوں اور مسیحیوں کو جو ہمارے اہل ذمہ ہیں اور تمھارے قبضے میں ہیں، چھوڑنا ہوگا۔ ہم تمہارے پاس اپنا کوئی قیدی نہیں چھوڑیں گے، خواہ وہ مسلمان ہو یا اہل ذمہ میں سے۔ اہل ذمہ کے وہی حقوق ہیں جو ہمارے ہیں اور ان کے فرائض بھی وہی ہیں جو ہمارے ہیں۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ ۲۸/۶۱۷، ۶۱۸)

چنانچہ تاتاری امیر کو یہودی اور مسیحی قیدیوں کو بھی رہا کرنا پڑا۔

عارف حسین نے الشیخ طاہر سلیم کردی سے ہماری ملاقات کا اہتمام بھی کیا تھا جو لبنان کے نائب امین الفتویٰ ہیں۔ یہ ملاقات بیروت شہر کے عین وسط میں واقع بے حد خوب صورت جامع مسجد محمد خاتم النبیین کے ساتھ ان کے دفتر میں ہوئی۔ مسجد ایک چوک میں واقع ہے اور اس کے ارد گرد کا سارا علاقہ بیروت کا بلکہ شیخ کے بیان کے مطابق پورے شرق اوسط کا مہنگا ترین علاقہ ہے اور یہاں جائیداد کی قیمت دوبئی سے بھی زیادہ ہے۔ شیخ کے دفتر کی کھڑکی باہر کی طرف جس سڑک پر کھلتی ہے، شیخ نے بتایا کہ ۷۵ء سے ۹۰ء تک کی خانہ جنگی کے زمانے میں یہ سڑک متحارب فریقوں کے مابین حد فاصل کی حیثیت رکھتی تھی اور سڑک کے مغرب میں واقع علاقہ مسلمانوں کے، جبکہ مشرق کی طرف کا علاقہ مسیحیوں کے زیر تصرف تھا۔ دونوں فریق مسلح تھے اور باقاعدہ منظم ہو کر ایک دوسرے کے علاقوں پر حملے کیا کرتے تھے۔ شیخ طاہر سلیم ماشاء اللہ نوجوان، وسیع المطالعہ اور صاحب علم وفضل شخصیت ہیں۔ علم حدیث سے خاص شغف رکھتے ہیں۔ انھوں نے مختلف مشائخ حدیث سے اپنی ملاقاتوں کے واقعات بھی سنائے۔ دوران گفتگو مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ علیہ کا ذکر ہوا تو انھوں نے بڑی محبت اور عقیدت سے بتایا کہ وہ ان کے شاگرد ہیں اور مدینہ منورہ میں ان کی صحبتوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ انھوں نے الشیخ عبد الفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ علیہ کا ذکر بھی کیا اور بتایا کہ شیخ کے انتقال سے کچھ ہی عرصہ پہلے ان کی شیخ سے آخری اور تفصیلی ملاقات ہوئی جسے انھوں نے ویڈیو کیمرے کے ذریعے سے باقاعدہ محفوظ کر لیا۔

شیخ طاہر سلیم نے کہا کہ فرانسیسی حکمرانوں نے اپنے دور انتداب میں مسلمانوں کے ساتھ دو بڑی زیادتیاں کیں۔ ایک یہ کہ ان کے تعلیمی ومذہبی اداروں کے اوقاف ضبط کر لیے جو بعد میں مختلف مذہبی گروہوں اور سرکاری تحویل میں چلے گئے۔ مثال کے طورپر انھوں نے بتایا کہ ساحل سمندر کے ساتھ واقع وہ سارا علاقہ جہاں اس وقت بیروت کا ایئر پورٹ قائم ہے اور بلاشبہ اربوں روپے کی ماہانہ آمدن کا ذریعہ ہے، یہ مسلمانوں کے اوقاف میں شامل تھا۔ شیخ نے دوسری زیادتی یہ بتائی کہ فرانس نے جانے سے پہلے یہاں تقسیم اقتدار کا ایسا فارمولا بنایا جس کی رو سے لبنان کی صدارت مستقل طور پر مارونی مسیحیوں کا حق قرار پائی۔ اس کے علاوہ بھی اہم سرکاری مناصب انھی کے پاس ہیں۔ شیخ نے بتایا کہ اب اہل تشیع اقتدار میں اشتراک کے اس فارمولے پر مطمئن نہیں ہیں اور اس تناسب کو بدلنے کے لیے وقتاً فوقتاً آواز بلند کی جا رہی ہے۔ شیخ نے یہ بھی فرمایا کہ لبنان میں مذہبی اور نسلی حوالے سے ایک خاص تناؤ پایا جاتا ہے اور مسلمانوں کو بہرحال بڑی احتیاط اور توازن سے کام لینا پڑتاہے، تاہم اس ماحول میں دعوت اسلام کے بھی بڑے امکانات ہیں اور ہم پر اس ضمن میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ شیخ نے لبنان کے اہل سنت کے زیر اہتمام قائم بعض جامعات اور دعوتی اداروں کے متعلق بھی بتایا اور فرمایا کہ اگر ہم وقت نکال سکیں تو وہ ہمیں ان اداروں کا وزٹ کرانے کا اہتمام کر سکتے ہیں، لیکن ہمارے تربیتی کورس کا پہلے سے طے شدہ شیڈول اس میں بھی مانع رہا اور کوئی صورت نہ بن سکی۔ شیخ طاہر سلیم سے ملاقات جتنی مفید اور معلومات افزا تھی، افسوس ہے کہ اتنی ہی مختصر بھی رہی۔ وہ اپنی مصروفیات میں سے خاص طور پر وقت نکال کر ہماری ملاقات کے لیے مسجد محمد میں تشریف لائے تھے اور اس کے بعد بھی انھیں کہیں جانا تھا۔ چنانچہ ہم عشا کی نمازپڑھ کر ان سے رخصت ہوئے۔

بیروت کے بعض حصوں کو دیکھنے کی تقریب ایران سے آئے ہوئے شیعہ عالم الشیخ محمد ابراہیمی نے پیدا کی۔ ریڈ کراس کے زیر اہتمام بین الاقوامی انسانی قانون سے متعلق تربیتی کورس کے لیے ہمیں بیروت کے محلے حازمیہ کے ایک مشہور اور معیاری ہوٹل فندق روتانا میں ٹھہرایا گیا تھا۔ حازمیہ مسیحی آبادی کا علاقہ ہے۔ میں نے ۲۸؍ مارچ کو ہوٹل میں پہنچتے ہی استقبالیہ سے معلوم کیا کہ یہاں قریبی مسجد کون سی ہے تو جواب ملا کہ مسجد یہاں سے خاصے فاصلے پر ہے اور شاید ٹیکسی لے کر وہاں جانا پڑے گا۔ خیر میں عصر کی نماز کے بعد باہر نکلا اور خاصی دور تک سڑکوں پر گھوم پھر کر مسجد تلاش کرتا رہا، لیکن واقعتا قریب میں کوئی مسجد نہیں تھی، البتہ ایک آدھ گرجا ضرور دکھائی دیا۔ اگلے دن فجر کے وقت مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہوٹل کے عقب میں دور سے کہیں اذان کی مدھم سی آواز آ رہی ہے۔ خیر میں نے ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کے کمرے میں ان کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ ایک دو روز کے بعد قاری محمد حنیف جالندھری بھی پہنچ گئے اور پھر باقی ایام کے لیے وہی ہمارے مستقل امام قرار پائے۔ ہمارے قیام کے دوران میں دو جمعے آئے اور اہل عرب کو خطبہ جمعہ سنانے اور نماز کی امامت کرانے کا اعزاز باری باری قاری محمد حنیف صاحب اور ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کو ملا۔ قاری محمد حنیف صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم پر مشتمل وہ جامع خطبہ پڑھا جو برصغیر میں عام طور پر جمعہ کے موقع پر پڑھا جاتا ہے جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے اور متعدد حضرات نے ایسا فصیح وبلیغ اور جامع خطبہ پڑھنے پر انھیں داد دی۔ جمعے کی نماز سے فارغ ہوتے ہی بیشتر حضرات نے وہیں جمع بین الصلاتین کرتے ہوئے عصر کی نماز بھی ادا کرنا چاہی۔ قاری محمد حنیف صاحب نے حنفی فقہ کے مطابق معذرت کر لی تو امامت کے لیے ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کو آگے کر دیا گیا۔ بعد میں ایک موقع پر حالت سفر میں نماز قصر کرنے کا ذکر ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے ایک عرب دوست کو بتایا کہ ہم حنفی ہیں اور احناف کے نزدیک پندرہ دن سے کم مدت سفر میں نماز قصر کی جاتی ہے۔ قاری حنیف صاحب تاک میں تھے۔ انھوں نے فوراً پھبتی کسی کہ ڈاکٹر صاحب مدت سفر کے معاملے میں تو حنفی ہیں، لیکن جمع بین الصلاتین کے معاملے میں نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ان کی راے میں جمع بین الصلاتین کے جواز پر احادیث میں مضبوط دلائل موجود ہیں، اس لیے وہ حنفی ہونے کے باوجود اس مسئلے میں دوسرے ائمہ کی راے کو زیادہ درست سمجھتے ہیں۔ راقم کی راے میں بھی یہی موقف اقرب الی الصواب ہے، چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حنفی ہونے کے باوجود دوسرے بہت سے مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی شوافع وغیرہ کے موقف کو ترجیح دی ہے۔ (ازالۃ الخفاء ۲/۹۵)

خیر ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم جس علاقے میں ٹھہرے ہوئے ہیں، وہ مسیحی آبادی کا ہے، چنانچہ تین چار روز تک ہم آپس میں اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ یہاں کے مسلمان دین سے کس قدر لا تعلق ہیں کہ پورے محلے میں کہیں کوئی مسجد نہیں ہے۔ ادھر ایران سے آئے ہوئے الشیخ محمد ابراہیمی اپنے طور پر ہوٹل سے خاصے فاصلے پر اہل تشیع کی ایک دو مسجدیں تلاش کر چکے تھے۔ ایک دن باہمی گفتگو میں مسجد کا ذکر ہوا تو انھوں نے بتایا کہ انھیں مسجد کا راستہ معلوم ہے اور وہ روزانہ ایک آدھ نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے وہیں جاتے ہیں۔ چنانچہ اس دن ہم عصر کے بعد اکٹھے نکلے اور شیخ کی راہ نمائی میں ایک مسجد جا پہنچے۔ ہماری خوش گمانی تھی کہ شاید یہ اہل سنت کی کوئی مسجد ہوگی۔ مسجد کے قریب پہنچے تو کوئی نوجوان لاؤڈ اسپیکر پر نہایت خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا اور ذرا فاصلے سے ہی اس کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی، لیکن قریب جا کر دیکھا تو وہ اہل تشیع کی مسجد نکلی۔ اب شیخ ابراہیمی ساتھ تھے اور ہمارے لیے ’پاے رفتن نہ جاے ماندن‘ کی صورت حال تھی۔ بہرحال مغرب کی نماز میں ابھی کچھ وقت تھا۔ قاری محمد حنیف صاحب نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ابھی خاصا وقت ہے، اس لیے آگے کسی اور مسجد کی طرف چلتے ہیں۔ شیخ ابراہیمی بھی سادہ پرکار تھے، ہمیں لے کر آگے چل دیے اور تھوڑی ہی دور واقع مسجد الحسنین میں لے گئے جو لبنان کے سب سے بڑے شیعہ عالم اور مرجع الشیخ حسین فضل اللہ کی مسجد ہے جنھیں ان کے علمی مقام ومرتبہ اور تصنیفی وتحقیقی خدمات کی وجہ سے پوری شیعی دنیا میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پتہ چلا کہ شیخ حسین فضل اللہ خود تو ان دنوں خاصے علیل ہیں اور نماز کی امامت اور خطبۂ جمعہ وغیرہ کی ذمہ داری ان کے صاحبزادے کے سپرد ہے۔

مسجد الحسنین ایران اور عراق کے مخصوص شیعہ طرز تعمیر کے مطابق بنائی گئی بے حد خوب صورت، شان دار اور وسیع مسجد ہے اور حسن انتظام، صفائی ستھرائی اور خوش سلیقگی کا بہت عمدہ نمونہ پیش کرتی ہے۔ ہم نے یہاں زندگی میں پہلی مرتبہ کسی شیعہ عبادت گاہ میں شیعہ امام کے پیچھے نماز مغرب ادا کی۔ میں صف میں کھڑا ہوا تو محسوس ہوا کہ میرے اور دائیں اور بائیں کھڑے نمازیوں کے مابین خاصا فاصلہ ہے، چنانچہ میں نے ایک طرف کے نمازی کے قریب ہو کر دوسری طرف کھڑے صاحب کو اشارہ کیا کہ وہ ساتھ ہو جائیں، لیکن انھوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ اس پر دوسری طرف کے صاحب نے مجھے کہا کہ آپ واپس اپنی جگہ پر چلے جائیں۔ میں نے ذرا توجہ سے دائیں بائیں دیکھا تو پوری صف کی صورت حال یہ تھی کہ ہر نمازی مصلے پر بنی ہوئی محراب کی جگہ پر کھڑا تھا اور ہر دو نمازیوں کے مابین اتنی جگہ خالی چھوڑ دی گئی تھی کہ مجھ جیسا دبلا پتلا نمازی وہاں آسانی سے کھڑا ہو سکتا تھا۔ خیر نماز شروع ہوئی۔ طریقہ نماز یہ تھا کہ تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام تک رکوع وسجود اور قومہ وجلسہ کی تسبیحات اور دعاؤں سمیت ساری نماز جہری تھی۔ امام صاحب نے اللہ اکبر کہتے ہی فوراً سورۂ فاتحہ کی تلاوت شروع کر دی۔ نماز کے ہر رکن میں ’’اللّٰہم صل علی محمد وآل محمد‘‘ کا ورد کیا گیا، جبکہ دوسری یا تیسری رکعت میں دعاے قنوت بھی پڑھی گئی۔ آخر میں ایک سلام سے نماز ختم کی گئی اور شیعہ حضرات کے مخصوص طریقے کے مطابق بار بار ہاتھ اٹھا کر رفع یدین کیا گیا۔ سلام پھرنے کے بعد ہر آدمی نے دائیں بائیں نمازیوں سے مصافحہ کیا۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جیسے ہی امام صاحب تیسری رکعت میں سجدے سے اٹھ کر تشہد کے لیے بیٹھے، میری بائیں جانب کھڑے صاحب، جو ابتدا سے نماز میں شریک تھے، امام صاحب کے سلام پھیرنے سے پہلے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک رکعت مزید شامل کر کے چار رکعتیں مکمل کر لیں۔ پھر یہ محسوس کرتے ہوئے کہ میں یہاں نووارد اور شیعہ طریقہ نماز سے ناواقف ہوں، انھوں نے میرے سامنے باقاعدہ وضاحت کی کہ میں مغرب کی نماز پہلے پڑھ چکا ہوں اور یہ میں نے عشاء کی نماز ادا کی ہے۔

بہرحال یہ تجربہ دلچسپ رہا۔ میرے ذہن میں اس سے پہلے شیعہ اور سنی طریقۂ نماز کا نمایاں فرق یہی تھا کہ اہل سنت عام طور پر ہاتھ باندھ کرنماز پڑھتے ہیں اور شیعہ ہاتھ کھلے چھوڑ کراور یہ کہ وہ سجدے کے لیے ٹھیکری یا لکڑی کا کوئی ٹکڑا سامنے رکھ لیتے ہیں۔ (مسجد الحسنین میں، میں نے بعض لوگوں کو ٹشو پیپر پر سجدہ کرتے ہوئے بھی دیکھا۔) لیکن یہاں تو معاملہ وہ نکلا کہ:

مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

شیعہ امام کے پیچھے نماز کا ارتکاب کرنے کے بعد ہم تینوں سنی اکٹھے ہوئے تو باہم مشورہ ہوا کہ نماز ہو گئی ہے یا نہیں؟ قاری محمد حنیف صاحب نے بتایا کہ انھوں نے نماز دہرا لی ہے، جبکہ ڈاکٹر عصمت اللہ نے کہا کہ وہ اس کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ ظاہر ہے کہ میرے لیے بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں یا تو نماز دہرا لیتا یا نہ دہراتا، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ بعد میں الشیخ طاہر سلیم کردی سے ملاقات میں ہم نے ان سے مسجد الحسنین میں نماز مغرب کی ادائیگی کا ذکر کیا اور پوچھا کہ شیعہ کے پیچھے نماز ادا ہو جاتی ہے یا نہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہاں لبنان میں معمول یہی ہے کہ اہل سنت، شیعہ کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ ہم نے پوچھا کہ معمول سے ہٹ کر اصولی طور پر اس کی گنجایش ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں شیخ نے مالابار کے ایک معروف شافعی فقیہ کی کتاب ’’فتح المعین‘‘ کی یہ عبارت سنائی کہ: ’وتجوز الصلاۃ خلف الرافضی اذا لم یصرح بما یکفر بہ وکانت ارکانہا توافق ارکاننا‘ یعنی اگررافضی اپنے کفریہ عقائد کا برملا اظہار نہ کرتا ہو اور اس کی نماز کے بنیادی ارکان ہماری نماز کے ارکان کے مطابق ہوں تو اس کے پیچھے نماز ادا ہو جائے گی۔ مجھے یاد آیا کہ امام ابن تیمیہ نے بھی، جو اسلامی تاریخ میں شیعہ سنی علمی نزاعات کے حوالے سے اہل سنت کے شاید سب سے ممتاز وکیل ہیں، اپنے فتاویٰ میں روافض کے گمراہ کن اور کافرانہ عقائد پر سخت ترین تبصرے کرنے کے باوجود رافضی امام کی اقتدا میں نماز کو جائز قرار دیا ہے، بلکہ اس بات کو اہل سنت کے مقابلے میں گمراہ فرقوں کی خصوصیت شمار کیا ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے فرقے کے امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔

شیخ محمد ابراہیمی جامعہ شہید بہشتی قم میں استاذ اور متعدد علمی کتابوں کے مصنف ہیں۔ نہایت سادہ، نرم خو اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا جھکاؤ اہل تشیع کے طبقہ اصولیین کی طرف تھا، چنانچہ وہ بار بار قرآن اور اس کے بعد عقل کی اہمیت پر زور دیتے اور ان کے مقابلے میں اخبار وروایات کو زیادہ اہمیت نہ دینے پر اصرار کرتے تھے، بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ شیعہ اصول فقہ میں عقل کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور ایک مجتہد اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے براہ راست نصوص سے استنباط کا اصولی طور پر اختیار رکھتا ہے، لیکن اہل تشیع کے مراجع بھی اب اس اصول سے عملاً کام نہیں لیتے اور تقلیدی منہج پر ہی فتوے جاری کرتے رہتے ہیں۔ شیخ ابراہیمی سے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ خلافت وامامت کے موضوع پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ یہ ایک اجتہادی اور سیاسی نوعیت کا اختلاف تھا۔ صحابہ کی اکثریت نے یہ سمجھا کہ حضرت ابوبکر اس منصب کے زیادہ حق دار ہیں اور انھوں نے انھیں خلیفہ منتخب کر لیا۔ جہاں تک روحانی فضیلت کا تعلق ہے تو تصوف کے زیادہ تر سلسلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ اپنی نسبت سیدنا علی کے واسطے سے جوڑتے ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں حضرت علی کی افضلیت کو اہل سنت بھی تسلیم کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ مستند شیعہ اکابر کی تصریحات اس کے برعکس ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا علی کی بیعت نہیں کی، انھوں نے ارتداد کا ارتکاب کیا۔ شیخ نے اس کا دلچسپ جواب دیا اور کہا کہ ایسی عبارات میں ’ارتدوا‘ کا لفظ تردد اور اشتباہ کے معنی میں ہے، یعنی صحابہ کو اشتباہ لاحق ہو گیا اور وہ تردد میں پڑ گئے کہ اس معاملے میں کیا فیصلہ کریں۔ تحریف قرآن کے حوالے سے شیخ نے کہا کہ اہل تشیع اس کے قائل نہیں اور موجودہ قرآن کو ہی اصل اور مکمل قرآن مانتے ہیں، بلکہ انھوں نے ایک دلچسپ بات یہ کہی کہ عام طور پر علامہ نوری طبرسی کی کتاب ’’فصل الخطاب‘‘ کو اس بات کی دلیل کے طورپر پیش کیا جاتا ہے کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں، حالانکہ مصنف نے یہ کتاب اس کے برعکس یہ ثابت کرنے کے لیے لکھی ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔

ایک دن کھانے کی میز پر ان سے جمع بین الصلاتین کے مسئلے پر بات ہوئی۔ میں نے شیخ ابراہیمی سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نماز کے پانچ اوقات مقرر کیے ہیں اور عام معمول میں ہر نماز اپنے اپنے وقت میں ہی ادا کی ہے تو پھر شیعہ حضرات ظہرین اور مغربین کو جمع کیوں کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک حدیث میں حالت حضر میں کسی عذر کے بغیر بھی آپ کے جمع بین الصلاتین کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ ان کا اشارہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی اس مشہور حدیث کی طرف تھا جس میں ’من غیر خوف ولا مطر‘ نمازیں جمع کیے جانے کا ذکر ہوا ہے۔ ڈاکٹر عصمت اللہ نے کہا کہ: ’ولکن ہذا الحدیث لم یاخذ بہ احد من الفقہاء‘ (اس حدیث کو فقہا میں سے کسی نے بھی اختیار نہیں کیا)۔ اس پر شیخ نے برجستہ جواب دیا: ’نحن اخذنا بہ‘ (ہم نے اختیار کیا ہے)۔ البتہ اس بات کا کوئی تشفی بخش جواب ان سے نہ مل سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر عذر کے ہی سہی، حضر میں جمع بین الصلاتین کرنے کا واقعہ ایک آدھ مرتبہ کا ہے تو پھر اہل تشیع کے ہاں اسے ایک مستقل معمول کی حیثیت سے کیوں اختیار کر لیا گیا ہے۔ بہرحال شیخ ابراہیمی کے حسن طبیعت کی وجہ سے ان سے بے تکلفی کا تعلق بن گیا اور عمر کے باہمی تفاوت کے باوصف ہم ان کے ساتھ مزاح بھی کرتے رہتے تھے جس کا انھوں نے بالکل برا نہیں منایا۔

بیروت میں دو ہفتے کے قیام کے دوران میں پہلی مرتبہ فصیح کتابی عربی سے ہٹ کر اس عامیانہ زبان سے واسطہ پڑا جس کے قصے اور لطائف اس سے پہلے بالواسطہ سننے میں آتے تھے۔ تربیتی کورس کے بیشتر محاضرات عربی زبان میں، جبکہ چند ایک انگریزی زبان میں تھے جس کے لیے فوری عربی ترجمے کا انتظام کیا گیا تھا۔ زیادہ تر ماہرین نے فصیح عربی میں گفتگو کی اور ان کا مدعا سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی، تاہم مصر اور لبنان کے بعض حضرات کی زبان پر عامی لہجہ اتنا پختہ ہو چکا تھا کہ ایک علمی موضوع پر بات کرتے ہوئے بھی انھیں فصیح لہجے میں گفتگو کرنے میں دقت پیش آتی تھی۔ ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب نے تو سترہ اٹھارہ سال سعودی عرب میں گزارے ہیں، اس لیے انھیں عامی لہجے سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی، تاہم ہمارے لیے ان حضرات کی گفتگو میں اکثر ’’زبان یار من عامی ومن عامی نہ می دانم‘‘ کی صورت حال پیدا ہو جاتی تھی۔ ڈاکٹر عصمت اللہ نے مختلف مواقع پر دو تین مرتبہ فاضل محاضر کو روک کر درخواست کی کہ بعض حضرات عامی لہجہ نہیں سمجھ سکتے، اس لیے ازراہ کرم فصحی میں گفتگو کی جائے۔ فاضل محاضر نے کہا کہ اچھا، میں کوشش کرتا ہوں، لیکن چند منٹ کے بعد بے ساختہ ان کی پٹری بدل جاتی اور وہ عامی لہجہ بولنا شروع کر دیتے۔ اس پر مجھے زمانۂ طالب علمی کا ایک لطیفہ یاد آ جاتا۔ ۱۹۸۹ء میں، میں مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں درجۂ رابعہ کا طالب علم تھا۔ شرح جامی کے نصف اول کی تدریس مولانا قاضی حمید اللہ خان کرتے تھے، جبکہ نصف ثانی مولانا سید عبد المالک شاہ صاحب کے سپرد تھا۔ کلاس میں اکثریت پٹھان طلبہ کی تھی، جبکہ ایک آدھ پنجابی طالب علم بھی تھا۔ سید عبد المالک شاہ صاحب ہماری رعایت سے اردو میں سبق پڑھانا شروع کرتے، لیکن تھوڑی دیر کے بعد انھیں محسوس بھی نہ ہوتا اور وہ پشتو بولنا شروع کر دیتے۔ کچھ وقت گزرنے پر انھیں تنبہ ہوتا تو وہ فرماتے، ’’او ہو، میں پشتو بول رہا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ اردو میں تقریر شروع کرتے، لیکن یہ سلسلہ جاری رہتا۔

میں نے یمن کے الدکتور احمد سے کہا کہ مجھے مصری اور سوری لہجے سمجھنے میں کافی دقت پیش آتی ہے اور بعض اوقات لگتا ہے کہ ہم کوئی بالکل نئی زبان سیکھ رہے ہیں (انہ بمثابۃ تعلم لغۃ جدیدۃ تماما)۔ اس پر وہ بہت ہنسے اور کہا کہ بعض اوقات خود ہمیں بھی یہ لہجے سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ بہرحال دو ہفتے کی مدت میں اس عامی عربی کے جو موٹے موٹے صرفی ونحوی قاعدے یا بے قاعدگیاں میری سمجھ میں آ سکیں، وہ یہ ہیں:

مضارع کے صیغوں پر باے جارہ داخل کرنا عام معمول ہے، مثلاً: ’تتکلم‘ کو ’بتتکلم‘ اور ’تشتری‘ کو ’بتشتری‘ پڑھتے ہیں۔
حرف جر کے معمول اور مضاف الیہ پر جر کے بجاے رفع یا نصب پڑھا جاتا ہے، مثلاً: ’فی حد ذاتہ، نہنۂ علی زیادۃ وزنہ‘۔

’کلہا‘ یا اس طرح کی تاکیدات میں متبوع کے اعراب کی موافقت کے بجاے ہر جگہ نصب پڑھتے ہیں۔ (الشیخ طاہر سلیم کردی نے گفتگو کرتے ہوئے اسی عادت کے مطابق دو تین دفعہ ’کلہا‘ کہا، لیکن پھر فوراً متنبہ ہو کر اعراب درست کیا اور مجلس میں موجود ایک نوجوان فاضل الاستاذ خلیل عجینہ کی طرف اشارہ کر کے، جو عربی ادب میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں، کہا کہ: ’ہو یحاسبنا علی ذالک‘ یعنی وہ اس طرح کی غلطیوں پر ہمارا محاسبہ کرتے ہیں)۔

’نحن‘ کو ’احنا‘ بولا جاتا ہے اور ’کیف انت کو کیفک‘۔ اسی طرح ’انہ‘ اور ’انہ‘ کو مخفف کر کے ’انو‘ اور ’انو‘ پڑھا جاتا ہے اور ’الذی‘ اور ’التی‘ نے ’الی‘ کی شکل اختیار کر لی ہے۔

مصری لہجے میں جیم مستقلاً گاف پڑھی جاتی ہے، جبکہ ’ثاء‘ کا تلفظ عامی زبان میں مستقلاً ’تا‘ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ قاف کو کبھی گاف سے اور کبھی ہمزہ سے بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً ’یقول‘ کو ’یگول‘ یا ’یؤل‘ پڑھا جائے گا۔ دلچسپ صورت حال ’دقائق‘ جیسے الفاظ میں پیدا ہوتی ہے جب وہ اس کو ’دء ائی‘ پڑھتے ہیں۔

لام تعریف کے ہمزہ وصل کو ملا کر پڑھنے کا کوئی تصور نہیں اور ہر کلمے کو الگ الگ ادا کیا جاتا ہے۔ مثلاً ’الاعتراف الاقلیمی بشرعیۃ المقاومۃ الاسلامیۃ‘کو یوں پڑھا جائے گا: ’الاعتراف الاقلیمی بشرعیۃ المقاومۃ الاسلامیۃ‘۔ اس میں غالباً اس پہلو سے سہولت ہے کہ ہر کلمے کا اعراب ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

تائے مدورہ والے ہر کلمے میں ’تا‘ سے پہلے والے حرف پر کسرہ پڑھا جاتا ہے، مثلاً ’اللجنۃ الدولیۃ‘ کو ’اللجنۃ الدولیۃ‘ پڑھا جائے گا۔

’لیہ؟‘ یہ ’’کیوں‘‘ کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ دراصل لام تعلیل، اس کے بعد یاے اشباع اور آخر میں ہاے سکتہ سے مرکب ہے۔

’بس‘ کا لفظ بالکل اردو مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً: ’بس عشرۃ دقائق‘ (بس دس منٹ)۔

الدکتور احمد ابو الوفا اپنی گفتگو میں بار بار ’خد لک‘ کا لفظ بول رہے تھے۔ میں نے ڈاکٹر عصمت اللہ سے اس کا مطلب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ غالباً یہ ’خد لک‘ (ذرا دھیان کرو) کا مخفف ہے۔

عربوں کے پھیکے اور ابلے ہوئے کھانے چکھنے کا بھی زندگی میں پہلی مرتبہ موقع ملا۔ غالباً مولانا مودودی نے کسی مغربی ملک کے سفر سے واپسی پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ وہاں کی ہر چیز پھیکی ہے، یہاں تک کہ عورتیں بھی۔ بیروت میں یہ شکایت صرف کھانے کے بارے میں کی جا سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ کے کسی معروف ماخذ میں یہ واقعہ پڑھنا یاد ہے کہ جب مسلمانوں نے بلاد شام کو فتح کیا تو ان کے امیر لشکر کی طرف سے سیدنا عمر کے نام یہ درخواست بھیجی گئی کہ مجاہدین کو یہاں کی خواتین کے حسن نے متاثر کیا ہے اور وہ آپ سے ان کے ساتھ شادی کی اجازت کے متمنی ہیں۔ کیا بھلا زمانہ تھا! البتہ یہاں حسن زن کے تجارتی استعمال کا رنگ وہی ہے جو ایک جدید مغرب زدہ معاشرے میں ہو سکتا ہے اور یہاں کی سڑکوں اور تجارتی پلازوں میں گھومتے ہوئے جگہ جگہ ایسی بے ہودہ اور واہیات تصویروں پر مشتمل سائن بورڈ نظر آتے ہیں جو نگاہوں کو شرم سے بے اختیار جھکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آداب طعام سے متعلق ایک خاص بدمذاقی جس کا مشاہدہ اپنے ملک میں ہوتا رہتا ہے، یہاں بھی دکھائی دی۔ بے حد تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں کو بھی دیکھا کہ کھانے کی پلیٹ خوب اچھی طرح بھر کر لے آئے اور پھر تقریباً آدھا کھانا پلیٹ میں ضائع ہونے کے لیے چھوڑ کر کوئی اور چیز لینے کے لیے چلے گئے۔ ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب نے بتایا کہ یہ عربوں کا عام مزاج ہے اور عرب دنیا کے کھاتے پیتے لوگوں میں یہ منظر ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔

بیروت میں مجھے خاص طور پر یہ بات جاننے کا تجسس بھی رہا کہ یہاں کے اہل تشیع کا رویہ اہل سنت کے مذہبی احساسات وجذبات اور ان کی محترم مذہبی شخصیات کے بارے میں کیسا ہے۔ مسجد الحسنین کے باہر اہل تشیع کے ایک مکتبے پر میں کچھ دیر کتابوں کی ورق گردانی کرتا رہا۔ ایک کتاب کسی شیعہ عالم نے اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین نزاعی مسائل کے بارے میں مناظرانہ اسلوب میں لکھی تھی۔ مناظرے کا مزاج اور نفسیات بھی عجیب ہوتی ہے۔ سیدنا عمر پر کیے جانے والے اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ صلح حدیبیہ تک ان کا ایمان پختہ نہیں ہوا تھا، کیونکہ اس موقع پر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی وجہ سے اسلام کی حقانیت کے حوالے سے سنگین شکوک وشبہات کا شکار ہو گئے تھے۔ اب اگر اس واقعے کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر سیدنا عمر کے تحفظات اور شبہات دراصل ان کے ایمان واسلام کی غیر پختگی نہیں بلکہ اس کے ساتھ شدید جذباتی تعلق کا نتیجہ تھے اور وہ مشرکین مکہ کے ساتھ کسی بھی درجے کی مصالحت کو دینی غیرت کے منافی سمجھتے تھے، چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ: ’لم نعطی الدنیۃ فی دیننا؟‘ یعنی ہم اپنے دین کے معاملے میں ایک کمزور پوزیشن کیوں قبول کر رہے ہیں۔ یہ مناظرانہ نفسیات کا کمال ہے کہ ان کے اس رد عمل کو وہ مفہوم پہنا لیا جائے جو مذکورہ شیعہ مصنف نے پہنایا ہے۔ بہرحال اس نوع کی مناظرانہ بحثوں سے قطع نظر، میں نے اس ضمن میں شام اور لبنان سے تعلق رکھنے والے جن مختلف حضرات سے صورت حال دریافت کی، ان سب کا جواب یہی تھا کہ یہاں اہل سنت کو شیعہ حضرات سے خلفاے ثلاثہ یا امہات المومنین کے بارے میں سب و شتم کے طرز عمل کی شکایت نہیں ہے۔ شیخ طاہر سلیم سے اس مسئلے پر بات ہوئی تو انھوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ ’’ماذا تعرف عن حزب اللّٰہ‘‘ کے عنوان سے علی الصادق کی لکھی ہوئی ایک کتاب میں بھی جو انٹرنیٹ پر عام دست یاب ہے اور جس میں حزب اللہ کے شیعی تشخص کا پہلو دلائل وشواہد کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے، یہ کہا گیا ہے کہ:

لا یظہرون ان امر یخدش مشاعر طوائف اہل السنۃ (تقیۃ) بل لا یتکلمون الا عن وحدۃ المسلمین وقتال الیہود المحتلین حتی زعیمہم حسن نصر اللّٰہ کان یتجنب الخوض فی المسائل الخلافیۃ بین السنۃ والشیعۃ الامامیۃ.

’’وہ کسی ایسے امر کا اظہار نہیں کرتے جس سے اہل سنت کے جذبات کو ٹھیس پہنچے (اور ایسا وہ تقیہ کے طور پر کرتے ہیں)، بلکہ وہ صرف مسلمانوں کی وحدت اور قابض یہودیوں کے خلاف جنگ کی بات کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا لیڈر حسن نصر اللہ بھی اہل سنت اور شیعہ امامیہ کے مابین نزاعی مسائل میں الجھنے سے گریز کرتا ہے۔‘‘( ۱۳۳)

بیروت سے میں نے جو مختلف کتابیں اور رسائل خریدے، ان میں ایک رسالہ مصر کے فاضل محقق الاستاذ محمد سلیم العوا کا ہے جو ’العلاقۃ بین السنۃ والشیعۃ‘ کے نام سے قاہرہ کے اشاعتی ادارے سفیر الدولیۃ للنشر نے شائع کیا ہے۔ مصنف نے اس کے صفحہ ۴۶، ۴۷ پر ڈاکٹر علی جمعہ کے حوالے سے، جو پہلے مصر کے مفتی عام تھے اور اب شیخ طنطاوی کی وفات کے بعد جامعہ الازہر کے سربراہ ہیں، بتایا ہے کہ کچھ عرصہ قبل بیروت کے ایک شیعہ ناشر نے معروف شیعہ عالم علامہ مجلسی کی ضخیم کتاب ’’بحار الانوار‘‘ شائع کی تو اس میں سے پوری پانچ جلدیں (۲۹ تا ۳۳) حذف کر دیں اور ڈاکٹر علی جمعہ کے دریافت کرنے پر بتایا کہ ان جلدوں میں ایسا مواد موجود ہے جو صحابہ کرام پر سب اور قدح کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی اشاعت فتنے کا باعث بن سکتی ہے جس میں ناشر شریک نہیں ہونا چاہتا، البتہ اس نے دیانت داری کے تقاضے سے ۲۸ ویں جلد کے بعد ۳۴ ویں جلد میں روایات کے نمبر مسلسل درج نہیں کیے تاکہ قاری پر واضح رہے کہ درمیان سے کچھ جلدیں چھوڑ دی گئی ہیں۔ میرے نزدیک اس طرح کے مسائل میں یہی رویہ بہتر اور قابل تقلید ہے اور مجھے اپنے یہاں کے ان سنی حضرات کی ’’سمجھ داری‘‘ کبھی سمجھ میں نہیں آئی جو اسٹیج سجانے کے لیے شیعہ مصنفین کی کتب اور ان کے واعظین کی تقاریر سے توہین آمیز مواد بڑی محنت سے خود نکال کر اسے عوام کے سامنے پیش کرتے اور ان کے ایمان واعتقاد میں ’’اضافے‘‘ کا سامان فراہم کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے