یومِ آزادی یا یومِ جدوجہد آزادی

ایم ایم اے اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن کا ایک بیان ان دنوں میڈیا میں زیرِ بحث ہے جس میں انہوں نے قوم کے سامنے یہ سوال اٹھایا ہے کہ 14اگست یومِ آزادی ہے یا یومِ جدوجہد آزادی ؟بادی النظر میں ہم مولانا پر تنقید کر سکتے ہیں اور ماضی کی کئی مسخ شدہ باتوں کو بنیاد بنا کر اُن کی اور ان کے بزرگوں کی مذمت بھی کر سکتے ہیں، یہ کہ وہ متحدہ ہندوستان کے حامی تھے یا انہوں نے پارٹیشن کو دل سے قبول نہیں کیا۔ کئی لوگ اس سے بڑھ کر یہ بحث بھی کرتے ہیں کہ پارٹیشن 14 اگست کا دن پوری طرح گزرنے کے بعد عین اُس وقت ہوئی تھی جب 15اگست کا آغاز ہو چکا تھا اور تب ستائیسویں رمضان کا دن بھی 14 نہیں بلکہ 15اگست 1947کو ہی آیا تھا۔ کئی سرکاری حوالہ جات بھی دیے جاتے ہیں، ایسی دستاویزات بھی پیش کی جاتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابتداً یوم آزادی 15اگست ہی قرار پایا تھا اور فی الواقع بنتا بھی یہی تھا اس نئی مملکت میں جو سرکاری پوسٹل ٹکٹ جاری ہوئے تھے اُن میں بھی مملکتِ خداداد کا قیام 15اگست1947ء قرار دیتے ہوئے قوم کو مبارکباد دی گئی تھی مگر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس وقت ہم جس ایشو پر بحث کرنا چاہ رہے ہیں وہ ہے یومِ آزادی یا یومِ جدوجہد آزادی؟

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ انگریز سامراج کی حکمرانی سے اس خطہ ارضی کی آزادی کے مطالبہ پر تو سوائے چند نوابزادگان کے کسی کو بھی اختلاف نہیں تھا اگرچہ ہمیں اس امر میں بھی اشتباہ نہیں کہ عوام الناس میں ایسے طبقات بھی موجود تھے جو ہندوستان میں انگریز کی حکمرانی کو ’’سایہ خدائے ذوالجلال‘‘ خیال کرتے ہوئے خطے کی سلامتی جغرافیائی استحکام اور سیاسی و مذہبی ہم آہنگی کے لیے اسے رحمتِ ایزدی قرار دیتے تھے اس کی تفصیلات ہمیں اُن تمام سپاسناموں میں مل جاتی ہیں جو ہندوستان کے کونے کونے میں آخری وقت تک انگریز حکمرانوں کو پیش کیے جاتے رہے مگر ہم اس طرح کی غلامانہ سوچیں رکھنے والوں کو خوشامدی ٹولے کہہ کر مسترد کر سکتے ہیں اور اس پوائنٹ کو پوری ہندوستانی قوم کا اجماع قرار دے سکتے ہیں کہ سب کے سب آزادی کے متوالے تھے۔ انگریزوں سے آزادی کے حوالے سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں تھا اگر کوئی اختلاف تھا تو وہ پارٹیشن کے سوال پر تھا۔

ہندوستانی عوام کی طاقتور مسلم کمیونٹی کا میجارٹی طبقہ ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ اور ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کیے ہوئے تھا۔ اگرچہ پارٹیشن ون مین ون ووٹ کے ذریعے نہیں ہوئی ہندوستان میں آج بھی ایسے محققین اور دانشوروں کی کمی نہیں جو ملک توڑنے کا الزام تنہا قائداعظم پر عائد کرتے ہیں، اس ایشو پر وہ اتنے متشدد ہیں کہ ایڈوانی نے جب اتنا کہا کہ ’’جناح صلح جو سیکولر سیاستدان تھے‘‘ تو اُ ن کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا دیا گیا حالانکہ تاریخی حقائق اور حوالہ جات کے ساتھ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ جناح صاحب کی ساری جدوجہد مسلم کمیونٹی کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے تھی۔ پارٹیشن اُن کا اولین مطمح نظر نہیں تھا اور انہوں نے اس سے بچنے کی کئی شعوری کاوشیں بھی کیں۔ اس حقیقت کوکوئی فراموش نہیں کرسکتا کہ جناح ہندومسلم اتحادکے سب سے بڑے داعی تھےلیکن نہرو رپورٹ کے بعد انہوں نے کہاکہ اب ہندو مسلم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے انہوں نے آخری دنوں میں ہندوستان بھیجے گئے کیبنٹ مش پلان پر بھی بہت مثبت طرزِ فکرو عمل کا مظاہرہ کیا تھا البتہ خود کانگرس کے اندر موجود کئی انتہا پسند شخصیات مسلم کمیونٹی کی تقسیم کو تماشا بنانے کی خاطر یا انہیں کارنر کرنے کے لیے بٹوارہ چاہتی تھیں اُن کا خیال تھاکہ ایسی صورت میں پاکستان چند ماہ سے زیادہ چل نہیں سکے گا۔

اس پسِ منظر میں مولانا فضل الرحمٰن کے بزرگوں یعنی جمعیت علمائے ہند کے وابستگان، علامہ عنایت اللہ مشرقی کی خاکسار تحریک، باچاخاں کی خدائی خدمتگار تحریک، عطاء اللہ شاہ بخاری کی مجلس احرارِ اسلام، مولانا مودودی (کی جماعتِ اسلامی اگرچہ اُس وقت کوئی بڑا عوامی اثر رسوخ نہیں رکھتی تھی) ان سبھی نے مسلم لیگ کی پارٹیشن کی سوچ کی مخالفت کی تھی اور ان سب سے بڑھ کر امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد جیسی قدآور شخصیت نے پارٹیشن کے خلاف ایڑی چوٹی کازور لگا دیا تھا۔ ان تمام بزرگوں کا خوف یا خدشہ یہ تھا کہ پارٹیشن کی صورت میں ہندوئوں کا تو کچھ نہیں بگڑے گا البتہ مسلمان دو پھانگ یا دو ٹکڑے ہو جائیں گے اور بعد میں وقت نے یہ ثابت کیا کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمان دو نہیں تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے، یوں ان کی متحدہ طاقت بکھر کر رہ گئی۔آج ہم لاکھ کہیں کہ پارٹیشن کی صورت میں ہم نے مسلم کمیونل مسلم حل کروا لیا مگر ہندوستان میں بسنے والے چوبیس کروڑ مسلمان یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ کیونکر اور کیسے حل ہوا ہے؟

مسلم میجارٹی خطوں میں بسنے والوں کو آج بھی یہ جواب دینا ہو گا کہ وہ مینارٹی خطوں میں بسنے والی کروڑوں پر محیط مسلم آبادی کو کس کے رحم و کرم پر چھوڑ آئے؟ قائد تو قانون کے اتنے پاسداری کرنے والے تھے کہ انہوں نے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں سے فرمایا کہ ’’اب آپ ہندوستان کا حصہ ہیں‘‘ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ حقوق کے تحفظ کا اصل ایشو تو تھا ہی مینارٹی خطوں کے مسلمانوں کا۔ میجارٹی والوں کا تو فی نفسہ یہ ایشو نہیں تھا اُن کی اپنی ریاستی حکومتیں الگ سے بن جانی تھیں اور اپنی اس طاقت کا فائدہ ا ٹھاتے ہوئے وہ مینارٹی خطوں کے مسلمانوں کو اصول توازن کے تحت ایک نوع کی مضبوط ڈھارس فراہم کر سکتے تھے کیونکہ اُن کے خطوں میں جو ہندو یا دیگر کمیونٹیز کی مینارٹیز آباد تھیں انہیں بھی تو اپنے تحفظ کے لیے ان کی ضرورت تھی۔مسلم لیگ اور اس کے قائد کی جیت ہمارا قابلِ فخر سرمایہ ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بٹوارے کا نعرہ لگا کر ہمیں آزاد خود مختار پاکستان دلوا دیا اگرچہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسی بہار آئی جو خزاں بھی ساتھ لائی، پارٹیشن کے نتیجے میں بڑی بڑی آبادیوں کا جو ظالمانہ انخلاء ہوا اس میں لاکھوں بے گناہ انسان بے دردی سے قتل ہو گئے، پاکباز خواتین اپنی عزتیں گنوا بیٹھیں، معصوم نومولود نیزوں پر چڑھائے گئے یہ آزادی کا نہیں پارٹیشن کا اور ہر دو بڑی کمیونٹیز میں پھیلائی گئی ناجائز و ناروا منافرت کا فوری نتیجہ تھا، جس نے بانی پاکستان کو ہی توڑ پھوڑ کر نہیں رلا یا بلکہ آزادی کا ہر متوالہ اشکبار و سوگوار ہوا۔ درویش نے اپنی نوعمری میں جنون کی حد تک اپنے علاقے میں آباد مہاجر بزرگوں سے باتیں اور بحثیں کیں اور ان کے تڑپا دینے والے واقعات سنے جو کبھی نہیں بھلا سکتا۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ منافرت کی یہ آگ چار جنگیں لڑنے اور اپنے جوانوں کو ان کا ایندھن بنانے کے باوجود نہیں تھم سکی اس سے بھی بدتر صورت یہ ہوئی کہ اس جنونی ماحول کو برقرار رکھنے میں جس طبقے کا بہت بڑا مفاد وابستہ ہو گیا اُس نے ہم پر ظلم کی ایسی کاٹھی ڈالی ہے کہ آج ہم انگریز کی کاٹھی اور اس کی سختی کو بھول چکے ہیں۔ آج ہم یہاں نئے آقاؤں کے زیرِ اثر شاہ دولے کے چوہے بن کر رہ گئے ہیں اور حالتِ خوف میں جی رہے ہیں۔ ایک تخلیق کا ر یا لکھاری کی حیثیت سے اس حبس،گھٹن اور تعفن کی مسموم فضا میں ہر روز دم گھٹتا ہے۔

ایک عام آدمی درویش سے یہ پوچھتا ہے کہ نسل در نسل یہ میرے بزرگوں کی جدی سرزمین ہے میں اسے چھوڑ کر کہاں جاؤں اور کیوں جاؤں ؟ اس پر میرا پیدائشی حق ہے اور پھر میر ے ساتھ میری قوم کے لاکھوں کروڑوں انسان میری طرح ہی پس رہے ہیں میں ان پستے ہوئے اپنوں کو چھوڑ کر کیا کہیں اور سکون سے جی یا مر سکتا ہوں؟ ہر گز نہیں۔ سو کیوں نہ مولانا فضل الرحمٰن کی سوچ پر لبیک کہتے ہوئے 14اگست کو’’ یوم جدوجہد آزادی‘‘ کے طور پر مناؤں، یہ عزم کروں کہ میں نے پاکستان کو قائد کے خوابوں کی آزاد پرامن اور جمہوری مملکت بنانا ہے۔ غلامی کا خوگر بننے کی بجائے اس ملک کو قبضہ گروپ سے آزاد کروانا ہے۔ اپنے عوام کو ان کے لوٹے ہوئے پیدائشی، انسانی اور جمہوری حقوق دلوانے ہیں یہ ملک ہمارا ہے، بائیس کروڑ عوام کا ہے۔ ہمارا اگر کوئی عوامی نمائندہ غلط کام کریگا تو اس کا احتساب اپنے ووٹ کے ذریعے ہم عوام کرینگے کوئی خودبخود اس کا ذمہ دار نہ بنے۔ ووٹ کی عزت ہی عوام کی عزت ہے اس پر چوری عیاری یا ڈکیتی کے خلاف عوامی شعور کو بیدار کرتے ہوئے جدوجہد ہی درحقیقت آزادی کی جدوجہد ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے