1980میں ہم اسکول میں تھے

آج کل کے نوجوانوں کو طعنے دینا بہت آسان کام ہے….. تم محنت نہیں کرتے، سخت سست ہو، کوئی کام تمہیں نہیں آتا، کوئی ہنر تم نہیں جانتے، شارٹ کٹ سے پیسے کمانا چاہتے ہو، سارا دن مردوں کی طرح سوئے رہتے ہو، آوارہ گردی کرتے ہو، پڑھائی میں دھیان نہیں دیتے، وقت ضائع کرتے ہو، ہر وقت موبائل میں گھسے رہتے ہو، تمہاری صحبت ٹھیک نہیں، باہر سے الا بلا کھاتے رہتے ہو، دین کی فکر ہے نہ دنیا کی، لڑکیوں کے چکر میں رہتے ہو…..یہ طعنے سُن کر مجھے اپنا وقت یاد آ جاتا ہے جب ہمیں بھی ایسے ہی باتیں سننے کو ملتی تھیں اور ان میں سے زیادہ تر درست ہوا کرتی تھیں۔

یہ اسّی کی دہائی تھی، بھارتی فلمیں وی سی آر پر دیکھی جاتی تھیں، گانے ڈیک پر سنے جاتے تھے اور واک مین اُن دنوں فیشن کی نشانی سمجھا جاتا تھا، امیر لڑکے واک مین پینٹ میں اُڑس کر کانوں میں ہیڈ فون لگا کر رکھتے تھے اور ہم ایسے انہیں حسرت سے دیکھتے تھے۔ اسّی کی پوری دہائی اسکول میں گزری، یہ وہ دور تھا جب سردیاں آتے ہی ہماری جان نکل جاتی تھی، شدید سردی میں نیکر پہننا یونیفارم میں شامل تھا، البتہ چھٹی جماعت کے بعد نیکر کی جگہ پینٹ لے لیتی تھی، ہم سوچا کرتے تھے کہ نہ جانے وہ وقت کب آئے گا جب اِس نیکر سے جان چھوٹے گی اور ہم بھی شان سے پینٹ پہن کر اسکول جایا کریں گے۔

پانچویں جماعت کے بچوں کی چھٹی بھی آدھ گھنٹہ پہلے ہو جایا کرتی تھی، چھٹی کے بعد ہم دیکھتے کہ بڑے لڑکے اب بھی کلاسوں میں بیٹھے پڑھ رہے ہیں تو سوچتے کہ یقیناً یہ زیادہ اہم اور سیریس کام کر رہے ہوں گے کیونکہ یہ بڑے ہو چکے ہیں، نہ جانے ہم اتنے بڑے کب ہوں گے۔ پانچویں جماعت تک بچوں کو پین استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی، ہم سارا کام پنسل سے کرتے تھے اور اُن بڑے بچوں کو دیکھ کر رشک کرتے تھے جو پین استعمال کرتے تھے۔ بالآخر ایک دن ہم بھی سینئر سیکشن میں داخل ہو گئے، پینٹ شرٹ اور کوٹ یونیفارم بن گیا اور ہاتھ میں پین آ گیا۔ مجھے آج تک یاد ہے جب ہم نے پہلے دن پین استعمال کیا تو ہر لڑکے نے اپنے ہاتھ سیاہی سے بھرلئے اور شیخی بھگاری کہ یار آج پین سے لکھا ہے اس لئے یہ حال ہو گیا ہے۔

اُن دنوں ہاتھوں کی سیاہی پر ہی اکتفا کیا جاتا تھا ایک دوسرے کے چہرے پر سیاہی نہیں ملی جاتی تھی۔ سینئر سیکشن کا شوق جلد ہی اتر گیا، چھٹی دیر سے ہونے لگی، پڑھائی مشکل ہو گئی، میٹرک کا امتحان اُس وقت اکٹھا ہوتا تھا اِس لئے فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کو ایک ساتھ ہضم کرنا پڑا، ریاضی قدرے دلچسپ لگتی تھی مگر لڑکوں میں یہ کہنا فیشن تھا کہ میتھ کا پیپر سب سے مشکل ہوتا ہے۔ اسکول کا سینئر سیکشن عذاب لگنے لگا، ہم دعائیں مانگنے لگے کہ کب اسکول سے جان چھوٹے گی اور ہم کالج جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے