مولانا فضل الرحمن ملا فضل اللہ نہ بنیں

مولانا فضل الرحمن صاحب 2013 کے بعد سے مکمل بدل چکے ہیں ۔ وہ شاید اس امید پہ تھے کہ خیبر پختونخواہ میں ان کی حکومت بنے گی لیکن عمران خان کی جیت نے ان سے یہ صوبہ شاید ہمیشہ کے لیے چھین لیا ہے ۔ مولانا صاحب بجائے اس پہ غور کرنے کے کہ عوام انہیں ووٹ کیوں نہیں دی رہی ، خان صاحب کے خلاف پروپیگنڈا کرنے لگے ۔ پہلے یہودی ایجنٹ کا الزام لگایا ، پھر بڑے تکبر سے کہا کہ یہ پاکستانی سیاست کا غیر ضروری عنصر ہے ۔

عمران خان صاحب ابتداء میں صرف نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے خلاف بات کرتے تھے ، لیکن جب مولانا نے خان صاحب کو بار بار مخاطب بنایا تو خان صاحب نے یہ تاریخی بیان دیا کہ میں ایک بال پہ تین وکٹیں لوں گا ۔ 2013 کے بعد سے مولانا کے زوال کا سفر شروع ہوا اور ہر گزرتے دن اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ وہ اس وقت اپنی ہر اصولی پوزیشن سے دستبردار ہو چکے ہیں ۔ پچھلے الیکشن کی دھاندلی کے بعد انہوں نے کہا کہ نظام جب ایک بار چل جائے تو اسے چلنے دینا چاہیے جبکہ اس بار حضرت فرما رہے کہ ہم نظام نہیں چلنے دیں گے ۔ پہلے مولانا اس ملک کو جمہوری ملک سمجھتے تھے اور ہر جگہ تہتر کے آئین کا حوالہ دیتے تھے جبکہ اب انہوں نے صاف انکار کر دیا ہے اس ملک کے جمہوری ہونے سے ۔ اس انکار کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ ان کا اقتدار سے باہر ہونا ۔

اگر وہ اپنے زعم میں فوجی مداخلت کی وجہ سے ملک کا جمہوری ہونے سے انکار کر رہے تو پھر ہم سوال اٹھائیں گے کہ آپ نے مارشل لاء کے دور میں ایک آمر کے زیر سایہ حلف کیوں اٹھایا تھا ؟ اصل مسئلہ مفادات کا ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ پہلے مولانا اس ملک کو اسلامی کہتے تھے اب وہ کہہ رہے کہ یہ ملک نہ اسلامی ہے اور نہ ہی جمہوری ۔ یہ تو مولانا عبدالعزیز صاحب اور تحریک طالبان کا بیانیہ جو اس ملک کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں ۔ مولانا صاحب برسوں اسلام کا منجن بیچتے رہے اور اب جب شکست کا سامنا کرنا پڑا تو ملک غیر اسلامی ہو گیا ۔ حد ہے اور بے حد ہے ۔ تحریک طالبان والوں کے سامنے مولانا ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ یہ ملک اسلامی ہے اس لیے ہتھیار اٹھانا غیر شرعی ہے لیکن محض اقتدار نہ ملنے کی وجہ سے وہ ملک کو غیر اسلامی کہنے لگے ۔ کیا مولانا صاحب اپنے آپ کو اسلام سمجھتے ہیں ؟ جب تک وہ اسمبلی میں ہوں تو ملک اسلامی اور جونہی وہ اسمبلی سے باہر ہوں تو ملک غیر اسلامی ! مولانا کو صدمے سے نکل کر سوچنا چاہئیے کہ وہ اپنے کارکنوں کو کس طرف لے جا رہے ۔

مولانا فضل الرحمن صاحب کے ساتھ اصل مسئلہ یہ ہوا کہ ایک تو وہ خود نہ جیت سکے اور دوسرا وہ صوبے اور مرکز دونوں جگہ اس بار کسی کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ پہلے وہ مسکراتے مسکراتے اسلام آباد کی طرف جاتے تھے اور اچھا خاصا حصہ وصول کر کے داد طلب نگاہوں سے اپنے کارکنوں کی طرف دیکھتے تھے ۔ کارکن ایک سجدہ شکر بجا لاتے تھے کہ اسلام ایک بار پھر پانچ سال کے لیے محفوظ ہو گیا ۔ اس بار مگر صورتحال مختلف ہے ۔ خیر پختونخواہ میں عمران اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور مرکز میں بھی اس نے مولانا صاحب سے کسی قسم کا تعاون نہیں مانگنا ، اس لیے مولانا صاحب نے ملا فضل اللہ والا انداز اپنایا ہوا ہے اور پاکستان کا جمہوری اور اسلامی ہونے سے انکار کر دیا ہے ۔ مولانا کو چاہیئے کہ وہ صدمے سے نکلیں اور واپس آ جائیں یہی ان کے حق میں بہتر ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے