عمران کی حکومت اورکشمیری دیوانے

پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی نے کامیابی سمیٹی اور ابھی تک پوری طرح سے نتائج سامنے نہیں آئے تھے کہ ہندوستانی زیرانتظام ریاست جموں کشمیر سے حریت رہنماؤں کی ان کو مبارک باد آنا شروع ہو گئی۔ عمراں خان نے Victory Speech میں بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور مسئلہ ریاست جموں کشمیر سے دیگر تمام مسائل پر بات کرنے کی بات کی تو ایک مرتبہ پھر سرینگر سے "آفریں آفریں” کے نعرے بلند ہوئے۔ حریت کانفرنس کے مختلف دھڑوں کے رہنماؤں نے جمعہ کو مسجد میں عمران خان کی تقریر پر خصوصی گفتگو کی۔

حریت قیادت ایک مرتبہ پھر تاریخ میں اسی موڑ پر کھڑی ہے جہاں تیس سال قبل کھڑی تھی اور اقوام متحدہ میں نواز شریف کی تقریر پر "آفریں آفریں” کی آوازیں آئیں تھیں کہ پاکستانی قیادت نے کسی بین الاقوامی فورم پر "کشمیریوں” کی بات کی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے کسی بھی سیاسی رہنما نے خواہ وہ وزایراعظم ہی کیوں نہ ہو یا پھر سیاسی اشرافیہ میں سے کوئی بھی شخص، اس نے بھارت کو stake holder تو تسلیم کیا لیکن کبھی بھی ریاست جموں کشمیر کے سیاسی رہنماؤں یا پھر Stake Holders کی بات نہیں کی اور بات بھی ہمیشہ "کشمیری” اور "مسلمانوں” ہی کی کی ہے جبکہ مسئلہ ریاست جموں کشمیر کے فریق لداخ کے بدھ اور جموں کے ہندو اور سکھ بھی ہیں۔

مسئلہ ریاست جموں کشمیر پر جب تک بنیادی فریق اور تمام فریقوں کو برابری کی بنیاد پر بیٹھنے کا موقع نہیں دیا جاتا تب تک نہ تو اس نے کسی سمت قدم بڑھانا ہے اور نہ ہی کوئی رسمی و غیر رسمی ترقی ہونی ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارتی زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کے حصے میں بھارتی آئیں کے آرٹیکل 35A کی کافی چرچا ہوئی. یہ آرٹیکل ریاست جموں کشمیر میں State Subject Rule کو تحفظ فراہم کرتا ہے جسے پاکستان پہلے ہی گلگت بلتستان سے ختم کر چکا ہے۔ گلگت بلتستان میں کالونی کی حیثیت سے ختم کیا گیا باشندہ ریاست قانون کی بحالی کی ایک مرتبہ مانگ کی جا رہی ہے لیکن پاکستان میں کوئی بھی سیاستدان یا ادارہ اس پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے جبکہ آزاد کشمیر میں بھی ریاستی املاک (خالصہ سرکار) پر آہستہ آہستہ لینڈ مافیا اور خاص کر غیر ریاستی لینڈ مافیا کا "لیز” کے نام پر قبضہ شروع ہو چکا ہے۔

پاکستان کے ریاست جموں کشمیر کے اس حصے میں جہاں اس نے انتظام سنبھالا ہوا ہے، اپنے مقاصد اور مفادات ہیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والی سابق آئی ایس آئی اور را کے آفیسران کی کتاب The Spy Chronicle میں اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان کو آزاد کشمیر نامی جگہ پر بھی پاکستان کوئی لگ بھگ پانچ ہزار میگاوٹ کے بجلی پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں جبکہ اس وقت قریبا پچیس سو میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے ، جس میں حال ہی میں شروع ہونے والا نیلم جہلم پروجیکٹ بھی شامل ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ان پروجیکٹس کو کسی طور بھی نہیں کھو سکتی ہے جبکہ سی پیک کے بعد گلگت بلتستان جو کہ براہ راست مسئلہ ریاست جموں کشمیر سے جڑا ہوا ہے کی اہمیت دس گنا بڑھ گئی ہے سے پاکستان کسی صورت بھی دستبردار نہیں ہو سکتا۔

عمران خان نے وزارت عظمی کی تقریب حلف برداری کے لیے دنیا بھر میں سیاسی رہنماؤں سمیت بھارت کے بھی سیاسی، سماجی اور کھیل خصوص کرکٹ کے جڑے ہوئے چند بڑے ناموں کو شرکت کی دعوت دی ہے اور ساتھ ساتھ بھارتی ہائی کمیشنر نے عمران خان سے ملاقات کر کے انہیں مبارکباد بھی ہے لیکن ریاست جموں کشمیر کے کسی بھی حصے سے کسی بھی بڑی سیاسی یا سماجی شخصیت کو اس قسم کی دعوت کا عندیہ نہیں دیا گیا جس سے واضع ہوتا ہے کہ عمران خان بھی مسئلہ ریاست جموں کشمیر پر اسی مخصوص روش پر قائم رہیں گے جس میں ریاست کے شہریوں کو ایک غیر معقول چیز سمجھا جاتا ہے۔

اس سب کے بعد حریت قیادت کا خاص کر وادی میں پاکستان میں کسی بھی نئی حکومت سے امید لگانا گدھے کے سر پر سینگ اُگنے کی امید لگانے جیسا ہی ہے۔ جبکہ منقسم ریاست کے دونوں اطراف کی قیادت میں بھی ہم آہنگی اور یقین کا واضح فقدان ہے۔ نچلی سطح کی قیادت، چند صحافی اور سول سوسائٹی گرچہ کچھ حد تک ایک دوسرے کی جڑنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر دونوں حصوں کی نمائندہ حکومتوں کا اس معاملے میں کوئی کردار بظاہر نظر نہیں آ رہا ہے۔

عمران خان پہلے ہی ایک مرتبہ ریاست کی تقسیم کی بات کر چکے ہیں اس صورتحال میں ممکنہ پیش رفت بھی شاید ریاست کی تقسیم کی جانب ہی ہو۔ منقسم ریاست کے دونوں اطراف اور چاروں جغرافیائی وحدتوں کی قیادت کو اس حوالے سے سر جوڑنا ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے