اللہ کے نام سے

دینی جماعتیں میری دلچسپی تو رہی ہیں مگر کبھی بھی میری تحریر وصحافت کا بوجوہ موضوع نہیں رہیں مگر جب بھی کبھی لکھنا پڑاپسندیدگی اور ناپسند کے ہر دو شدید ردعمل کا سامنا رہا۔صحافی کاکام ہی سچ لکھنا ہے چاہے کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو پھر بھی کبھی یہ دعوی نہیں رہا کہ اس موضوع پر پورا سچ لکھ پایا۔28 اکتوبر 2017 کو مجبورا ایک تجزیہ لکھنا پڑا جوقریب آتے انتخابی عمل اور دینی جماعتوں کی ممکنہ کارکردگی کے حوالہ سے تھا۔

دوستوں کو یاددہانی کرائی تو اصرار ہواکہ آگے کی بات بھی لکھ دی جائے تاکہ سند رہے اوبوقت ضرورت کام آوے اور اہل نظرکو رایے بنانے میں مددگار ہو۔اگر ہار کا غم نرمئی گفتار کو تلخ نوائی سے آگے بڑھ کر شعلہ باری اور پھر سیاسی خود کشی پر مائل نہ کرتا تو شاید میں بھی نہ لکھتا۔ مگر کیا کریں حضرت صاحب کے ارشادات عالیہ نے معاشرہ میں پہلے سے گراوٹ کا شکار علما کے تاثر کو مزید تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ حنفی دیوبندی مکتبہ فکر کے حامیوں کو دوراہے پر لا کھڑاکیا ہے۔وطن کی محبت اگر دینداروں کے پاس نہیں تو پھر کس کے پاس ہے؟مگر اس ایک جملہ نے وطن پر نثار ہونے والے دینداروں کی دین پسندی کو گالی بنا دیا ہے۔دیوبندیوں کو 70 سال میں اتنی گالی نہیں پری جتنی ایک ہفتہ میں پڑ چکی ہے۔صرف دیوبندی ہی نہیں سارے دین پسند اور اسے نظام سیاسی بنانے کے دعویدار منہ چھپاتے پھر رہے ہیں حالانکہ مجھے یقینی طور پر علم ہے کہ حضرت صاحب اس گل افشانی گفتار کے تنہا وارث ہیں۔

مدارس میں جو فلسفہ ومنطق پرھائی جاتی ہے اس مہارت سے فائدہ اٹھا کر کوئی نہ کوئی توجیح تلاش کر ہی لی جائے گی مگر یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ پاکستانی معاشرہ میں دینی سیاسی جماعتیں اپنا اثر کھو بیٹھی ہیں۔ مذکورہ بالا تجزیہ میں یہی پیشینگوئی کی گئی تھی کہ یہ ان جماعتوں کا آخری الیکشن ہے اس کے بعد عوام کی لاتعلقی انہیں ماضی کے صفحات میں گم کر دے گی۔ اور ایسا ہی ہوا اور مزیدہونے جا رہا ہے۔ اس کی وجوہات میں جانے کی ضرورت نہیں عوام پہلے سے زیادہ دیندار اور دین کا اچھا خاصہ فہم رکھتے ہیں۔ صرف ان کی تربیت کر کے انہیں نظام سیاسی کی جانب لانے کی ضرورت تھی مگر دینی سیاسی جماعتوں نے اپنا سارا وزن پاکستان مخالف قوتوں کے ساتھ ڈال کر خود کوسیاسی خود کشی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔

اب کوئی اتحاد کوئی الائنس انہیں نہیں بچا سکتا۔ ایم ایم اے کی پہلی حکومت ایک خاص مقصد کے حصول کیلئے تھی جس کیلئے وہ آلہ کار کے طور پر خوشی خوشی استعمال ہوئے۔اس کے بعد کیونکر اتحاد توڑا گیا ؟تا کہ کسی تیسری قوت کیلئے راستہ بنایا جا سکے اس کا جواب بھی ہنوز تشنہ طلب ہے۔اور پورے پانچ سال صوبائی اور مرکزی حکومتوں میں لذتیں کشید کرنے کے بعد ایک ابھرتی ہوئی سیاسی طاقت کے راستے میں بند باندھنے کی ناکام کوشش ایم ایم اے کی تشکیل ،کس کے کہنے پر اور کن مقاصد کیلئے کی گئی؟؟؟یہ تو ان جماعتوں کے بے بینا مقلدین نہ پوچھنے کہ جرات رکھتے ہیں نہ ایس ہوگا البتہ عوام نے ضرور پوچھا ہے۔ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو تو جواب مل بھی چکا ۔ ناموس رسالت اھم ترین مسلہ ہے اس پر انہی دینی سیاسی جماعتوں کا کردار افسوسناک حد تک منافقانہ رہا ہے ۔

اللہ کے ساتھ ساتھ عوام بھی دیکھ رہے تھے اور انہوں نے ووٹ کے ذریعہ جواب دیا ہے۔ اب عوام کو جاہل اور دین سے دور کہہ کر اپنے سادہ لوح کارکنوں سے تو جان چھڑائی جا سکتی ہے مگرووٹر کو کیسے مطمن کریں گے؟ کیا یہ دیکھنا بہت مشکل ہے کہ نو زائدہ تحریک لبیک کیوں سوسو سال پرانی جماعتوں کے اکٹھ سے بھی زیادہ ووٹ لے گئی؟ محض خادم رضوی کی لمبی زبان اس کے موقف کی صداقت کو کم نہیں کر سکی۔ آپ کی زبان اس سے زیادہ لمبی ثابت ہوئی کہ اس کا زہر کہیں زیادہ ہے ۔ ختم نبوت پہلے دن سے دیوبندیوں کا بنیادی اشو تھا مگر اب بریلوی اس کے پشتیبان بن گئے ہیں۔ ملک سے محبت ازلی دشمن بھارت سے نفرت اور افواج پاکستان کی ہمدردی و اعانت آپ کاطرہ امتیاز تھا۔ سب غتربود ہو گیا۔

سٹریٹ پاور آپ کے پاس تھی آج آپ کارکنوں کو بھی گلی میں نہیں نکال سکتے۔ ابھی تو نام نہاد جہاد میں کارکنوں کو اپنوں سے لڑوانے کے جرم کا جواب بھی نہیں دیا۔ آخر پاکستان کی دینی سیاسی جماعتیں مودی اور اس کے یاروں کی حمایت کس طرح کر سکتی ہیں اورعوام کے دلوں میں فوج کی نفرت کیوں پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ جھنگ کی اہل سنت والجماعت ہو یا مریدکے کی جماعۃالدعوہ یا فیصل آباد کی تحریک لبیک، سٹریٹ پاور بھی اب ان کے پاس ہے اور دینی ذہن رکھنے والے عوام کا اعتماد بھی انہیں حاصل ہے۔ ختم نبوت کے بھی یہ چیمپئن ہیں اور بھارت کے خلاف مورچہ بندی کی بھی جرات و خواہش رکھتے ہیں۔ دشمن کو صاف پہچانتے ہیں اور اپنا پیغام سادہ و دلنشیں انداز میں پہنچانا بھی جانتے ہیں۔ دینی قیادت و سیادت دونوں اب اس نئے طبقے کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔ حتی کہ نووارد ہونے کے باوجود کم ازکم 53 قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں ان کی مرضی سے طے ہوئی ہیں۔

خود مولانا صاحب اپنی نشست اہل سنت والجماعت کی وجہ سے جیت نہ سکے جس پر مولانا نے یہ کہ کر اتحاد کرنے یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ سیاست اپنی اپنی۔ تکبر کا یہ جملہ سیاسی موت ثابت ہوا جس کا غصہ ہر روز فوج پر نکالا جاتا ہے۔اگر سوسو سال کی ان پانچ جماعتوں کا مجموعی ووٹ 25 لاکھ ہے تو ان میں سے اکیلے خادم رضوی اتنے ووٹ لے گئے باقی بھی کچھ کم نہیں ثابت ہوئے۔ ممتاز قادری شہید کا معاملہ ہو یا پارلیمنٹ میں حلف کو تبدیل کرنے کی ناپاک جسارت، ملک کے عوام پارلیمنٹ میں موجود دینی سیاسی جماعتوں کو بھی یکساں ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ترکی، مصر و شام و فلسطین سمیت مسلم امہ میں قیادت کا خواب دیکھنے والے اپنے حلقے میں کونسلر بھی بننے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ اور تو اور ریاست و حکومت چلانا اپنا حق سمجھنے والے اس جگہ پہنچ گئے ہیں کہ خدانخواستہ منبرو محراب بھی چھینے جانے کے خطرہ سے دوچار ہونے والے ہیں۔ علماء کی وراثت حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور سیاست میں دلالی نہیں تھی ان کی وراثت کلمہ حق اور اس کی خاطر گردنیں کٹوانا تھا۔ غربت و افلاس میں زندگی گذارتے ہوئے خلق خدا کیلئے نمونہ بنتے تھے نہ کہ اپنے بیٹوں بھائیوں دامادوں کیلئے لذتیں کشید کرنے والے مناصب تلاش کرنا۔

اپنی تمام تر ہمدردیوں کے باوجود یہ کہنے سے نہیں رک سکتا کہ شاہ ولی اللہ کی ولی اللہی تحریک اور سید احمد کی تحریک المجاہدین سے اپنے ناطے جوڑنے والی دینی جماعتیں وقت کی میزان پر مات کھا گئیں جس کی وجہ نظریات کی کمزوری نہیں تھی عمل و کردار کا فقدان تھا۔ معاشرہ کی سوچ اور رحجانات آپ کی سوچ سے مختلف ہیں اسی لئے وہ آپ سے لاتعلق ہو گئے ہیں۔ طبقہ علماء جسے انبیاء کا وارث کہا گیا تھا اب بے توقیر ہو چکا ہے۔ سیاست کی پرخار دادیوں میں نانوتوی، مودودی، شاہ جی وغیرھم کے جانشین پائے استقلال کا مظاہرہ کرنے کے بجائے عہدے ڈھونڈتے فارغ ہو گئے۔ اسی غیرت مند خطہ نے جہاں خان عبدالغفار خان نے ہار کی وجہ یہ بتائی تھی کی جیئتتا کیسے، پیمبر سے مقابلہ تھا آج اسی سرزمین نے پیمبر کے مقابلہ میں شہد پینے والے کو اپنا قائد تسلیم کیا ہے۔

حاجی نمازی کے بجائے یہودی ایجنٹ کوخوشی خوشی اپنا حکمران بنایا ہے۔ بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے مگر آپ میں سے کوئی اس کھلے دن کے سورج کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پھر میں کیا کوئی بھی تاریخ کے اس ورق کو پلٹنے سے نہیں روک سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے