یہ سب دھند ہے

ملزم سر جھکا کر بیٹھا تھا‘ گود میں فائل تھی اور پولیس کے دواہلکار ساتھ کھڑے تھے‘ ملزم کی نظریں فرش پر تھیں‘ وہ بار بار ایڑھیاں رگڑتا تھا‘ جوتوں کی ہلکی سی آواز آتی تھی اور وہ اس آواز پر سر دھننے لگتا تھا‘ ذرا دیر بعد سیدھا ہوتا تھا‘ کنکھیوں سے جج کے کمرے کی طرف دیکھتا تھا اور پھر دوبارہ سر جھکا لیتا تھا‘ بینچ پر اس کے ساتھ ایک اور ملزم بھی بیٹھا تھا‘ وہ ملزم بار بار سگریٹ سلگاتا تھا۔

بتیسی نکال کر اس کی طرف دیکھتا تھا اور اس کے کان میں سرگوشی کرتا تھا ’’سر اب تو پی لیں‘‘ اور وہ مسکرا کر انکار میں سر ہلا دیتا تھا‘یہ انکار سن کر پولیس اہلکاروں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ آ جاتی تھی‘ لوگ اس کے آس پاس سے گزر رہے تھے‘ ملزم بھی آ رہے تھے‘ مجرم بھی لائے جا رہے تھے‘ وکیل اور جج بھی گزر رہے تھے‘ پولیس بھی آ جا رہی تھی اور عدالتی اہلکار بھی الجھتے کھانستے گزر رہے تھے لیکن کوئی اس کا نوٹس نہیں لے رہا تھا۔

کسی کو یاد بھی نہیں تھا‘ لاہور کے احتساب جج نجم الحسن کی عدالت کے سامنے بینچ پر بیٹھا یہ شخص 2018ء کے فروری تک پنجاب کا طاقتور ترین بیوروکریٹ تھا‘ یہ اہل ترین سرکاری افسر بھی کہلاتا تھا اور لوگ ملاقات کے لیے آٹھ آٹھ گھنٹے اس کے دفتر کے سامنے بیٹھے رہتے تھے‘ جی ہاں یہ شخص احد چیمہ تھا‘ پنجاب کا طاقتور ترین افسر احد چیمہ‘ یہ 21 فروری کو گرفتار ہوا تو پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار سول بیوروکریسی نے کسی ساتھی کے حق میں ہڑتال کی۔

پنجاب اسمبلی نے احد چیمہ کی گرفتاری کے خلاف نیب کے خلاف قرارداد پاس کی اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے احد چیمہ کے حق میں بیان دیا اور22فروری کو جب اسے ریمانڈ کے لیے اسے جوڈیشل کمپلیکس لایا گیا تو اڑھائی سو پولیس اہلکاروں نے کمپلیکس کو گھیرے میں لے رکھا تھا‘ احد چیمہ بکتر بند گاڑی میں عدالت لایا گیا اورپنجاب کے 25بڑے بیورو کریٹس اس سے اظہار محبت کے لیے عدالت میں موجود تھے لیکن ٹھیک پانچ ماہ بعد 9 اگست کو وہی احد چیمہ تھا‘ وہ پولیس کی بس میں عام قیدیوں کی طرح نیب کورٹ لایا گیا۔

اس کے ساتھ صرف دو پولیس اہلکار تھے‘ جج صاحب عدالت میں موجود نہیں تھے لہٰذا پولیس نے اسے عام ملزموں کے بینچ پر بٹھا دیا اور یہ پورے دو گھنٹے عدالت کے برآمدے میں ملزموں کے درمیان بیٹھا رہا‘ ملزم‘ وکیل اور پولیس آتی رہی‘ جاتی رہی اور یہ سر جھکا کر چپ چاپ بیٹھا رہا‘ کسی نے اس کا نوٹس تک نہ لیا‘ احد چیمہ کی گرفتاری پر ہڑتال کرنے والے سرکاری ملازموں‘ اس کی پہلی پیشی پر عدالت میں پیش ہونے والے بیورو کریٹس‘ پنجاب اسمبلی میں اس کی گرفتاری پر نیب کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کرنے والے سیاستدان اور احد چیمہ کو اپنا بیٹا کہنے والے شریف برادران میں سے کوئی شخص عدالت میں موجود نہیں تھا‘ وہ لوگ بھی غائب تھے جو ملاقات کے لیے آٹھ آٹھ گھنٹے اس کے دفتر کے سامنے بیٹھے رہتے تھے۔

وہ سب اسے بھول چکے ہیں‘ وہ میاں شہباز شریف بھی جس کے لیے اس نے دن کو رات اور رات کو دن میں بدل دیا‘ وہ حمزہ شہباز بھی جس کا فون یہ رات چار بجے بھی سنتا تھا‘ وہ تمام کولیگز بھی جو اسے آئیڈیل کہتے اور سمجھتے تھے اور وہ تمام بزنس مین‘ ٹھیکیدار اور دوست بھی جو اس کے دستخطوں سے ارب پتی بن گئے‘ وہ سب اسے پانچ ماہ میں بھول چکے تھے‘ وہ اس کا نمبر ڈیلیٹ کر کے غائب ہو چکے ہیں‘ پیچھے صرف یہ رہ گیا تھا‘ اس کی فائل رہ گئی تھی‘ احتساب عدالت رہ گئی تھی اور جیل کی کوٹھڑی رہ گئی تھی اور یہ ہے احد چیمہ کا انجام۔

میں ذاتی طور پر احد چیمہ اور فواد حسن فواد کو پسند نہیں کرتا‘ یہ دونوں متکبر تھے‘لوگوں کی گردنوں میں عموماً سریا ہوتا ہے لیکن ان دونوں کی پوری گردنیں سریے کی بنی ہوئی تھیں‘ میاں نواز شریف فواد حسن فواد پر اندھا اعتماد کرتے تھے‘ فواد صاحب جو کہہ دیتے تھے میاں صاحب اس کو حرف آخر سمجھتے تھے لیکن اس تکبر کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے یہ دونوں قابل اور ماہر افسر ہیں‘ احد چیمہ میاں شہباز شریف کی پنجاب اسپیڈ کا پہیہ تھا‘ یہ نہ ہوتا تو آج لاہور ملک کا ترقی یافتہ شہر اور پاکستان لوڈ شیڈنگ سے پاک ملک نہ ہوتا‘ احد چیمہ نے بجلی کے پلانٹ لگائے‘ یہ پاکستان کی تاریخ کے سستے ترین پلانٹ تھے‘ پرائیویٹ پلانٹ بھی ان سے پچاس فیصد مہنگے تھے‘ لاہور کے اندر تمام انڈر پاسز‘ میٹرو اور اورنج لائین ٹرین بھی احد چیمہ نے بنوائی‘ یہ تمام منصوبے اس قدر شاندار ہیں کہ نیب پانچ ماہ میں کھربوں روپے کے ان منصوبوں میں اس کے خلاف کوئی ثبوت تلاش نہیں کر سکی۔

اس کے خلاف مقدمہ بھی بنا تو ناجائز اثاثہ جات کا بنا‘ یہ الزام لگایا گیا احد چیمہ نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میںبسم اللہ انجینئرنگ کو ٹھیکہ دے کر32 کنال زمین بطور رشوت لی‘ زمین کی مالیت3کروڑ9 لاکھ تھی‘ یہ الزام درست ہو سکتا ہے لیکن آپ کم از کم ملزم کا موقف تو سن لیں‘ یہ کیا کہہ رہا ہے یا یہ کیا کہنا چاہتا ہے کوئی یہ جاننے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کر رہا‘ہم میں سے کوئی یہ سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں یہ اگر رشوت خور تھا تو یہ لاہورمیٹرو اور بھکی پاور پلانٹ میں سے ایک دو ارب روپے نکال لیتا‘ یہ دونوںکھربوں روپے کے منصوبے تھے‘ احد چیمہ کو اس آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں رشوت لینے کی کیا ضرورت تھی جو مکمل نہیں ہو سکی اور جو میاں شہباز شریف کے ناکام اور ادھورے منصوبوں میں شمار ہوتی ہے۔

آپ کسی دن ٹھنڈے دل و دماغ سے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم پر تحقیق کریں‘ آپ حقائق جان کر حیران رہ جائیں گے حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت 2015ء میں بسم اللہ انجینئرنگ اور کاسا ڈویلپر کو سرکاری زمین دی‘ کمپنیوں نے وہاں سات ہزار گھربنانے تھے‘ یہ دونوں کمپنیاں ناکام ہو گئیں‘ یہ مکان نہ بنا سکیں‘ حکومت نے لیز منسوخ کر دی اور سرکاری زمین واپس لے لی‘ سرکار کا ایک پیسہ ضایع نہیں ہوا لیکن نیب کا خیال ہے یہ منصوبہ اگر مکمل ہو جاتا تو حکومت کو 14 ارب روپے کا فائدہ ہوتا‘ یہ ان 14 ارب روپوں کو Opportunity Loss کہتے ہیں‘ یہ بات بھی درست ہو سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے 1960ء میں کالاباغ اور 2010ء میں دیامیر بھاشا ڈیم بننے تھے۔

یہ دونوں نہیں بنے اوران کی وجہ سے پاکستان کو پچاس ارب ڈالر کا نقصان ہوا‘ کیا ہم نے کبھی اس ’’اپارچیونٹی لاس‘‘ کا تخمینہ لگایا‘ کیا ہم نے ان ادھورے منصوبوں کے ذمے داروں کے خلاف مقدمے بنائے؟ اگر نہیں تو پھر صرف احد چیمہ کیوں؟ اور احد چیمہ اگر ناجائز اثاثوں کی وجہ سے جیل میں ہے تو پھر شیخ رشید‘ جہانگیر ترین اور پاناما کی آف شور کمپنیوں کے ساڑھے چار سو مالکان کیوں گھروں میں بیٹھے ہیں؟

ہمارے متوقع وزیراعظم عمران خان تین سو کنال کے گھر میں رہتے ہیں‘ ان کے گھر پر آٹھ گاڑیاں کھڑی ہیں لیکن یہ اثاثوں میں ’’پیدل‘‘ ہیں‘ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں‘یہ آج بھی چارلاکھ20 ہزارروپے سالانہ ٹیکس دیتے ہیں اور یہ ٹیکس احد چیمہ سے کم ہے‘ عمران خان‘ شیخ رشید اور جہانگیر ترین اس وقت حکومت بنا رہے ہیں اور احد چیمہ دو دو گھنٹے عدالت کے برآمدے میں بیٹھا رہتا ہے‘ کیوں؟ آخر کیوں؟۔

ہم ایک دلچسپ قوم ہیں‘ ہم خود کچھ نہیں کرتے اور جو کرنے کی غلطی کربیٹھے ہم اسے عبرت کی نشانی بنا دیتے ہیں‘ فواد حسن فواد 22ویںگریڈ کا سینئر ترین بیوروکریٹ تھا‘آپ اس کا حشر دیکھ لیجیے‘ احد چیمہ نیا کامران لاشاری بن کر ابھر رہا تھا لیکن ہم نے اس کابھی حشر کر کے رکھ دیا‘ یہ لوگ آج اپنے ہی مزار کی لوح عبرت بن کر رہ گئے ہیں‘ ان دونوں کو وکیل اور ڈاکٹر کی سہولت بھی حاصل نہیں‘ فواد حسن فواد اپنے وکیل‘ اپنی فیملی اور اپنے ڈاکٹر سے مل سکتے ہیں اور نہ ہی گھر جا کر نیب افسروں کی ڈیمانڈ کے مطابق کاغذات لا سکتے ہیں‘ یہ شدید بیمار ہیں‘ ان کی کمر اور کولہے میں بھی درد ہے اور یہ دل کے مریض بھی ہیں لیکن انھیں ڈاکٹر کی سہولت تک نہیں دی جارہی‘ یہ سہولتیں نہ بھی دی جاتیں تو شاید کوئی مضائقہ نہ ہوتا لیکن یہ لوگ عزت کے حق دار تو ہیں‘آپ انھیں سرعام رسوا کیوں کر رہے ہیں؟

آپ اگر پرفارم کرنے والے لوگوں کو بھی مجرموں کے درمیان دو دو گھنٹے بٹھائے رکھیں گے تو کیا یہ زیادتی نہیں ہو گی‘کیا یہ پوری بیوروکریسی کا مورال ڈاؤن نہیں کر دے گی؟ آپ یقین کیجیے کامران لاشاری‘ فواد حسن فواد اور احد چیمہ کا حشر دیکھ کر بیورو کریسی کانوں کو ہاتھ لگا رہی ہے‘ یہ لوگ سمجھ رہے ہیں اس ملک میں کام کرنا جرم ہے‘ آپ پوری زندگی کچھ نہ کریں آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا لیکن آپ نے اگر کام کرنے کی غلطی کر دی تو پھر آپ باقی زندگی عدالتوں کے برآمدوں میں گزاریں گے۔

لہٰذا یہ لوگ اب لاشاری‘ فواد یا چیمہ بننے کی غلطی نہیں کریں گے‘ یہ اب صرف نوکری کریں گے اور یہ رویہ ملک کے لیے کتنا خطرناک ہوگا آپ اندازہ کر سکتے ہیں اور میں یہ بھی سوچتا ہوں فواد حسن فواد اور احد چیمہ آج جب پیچھے مڑ کر ان لوگوں کو تلاش کرتے ہوں گے جن کے لیے انھوں نے اپنی زندگی اور عزت دونوں داؤ پر لگا دی تھی تو یہ لوگ کیا سوچتے ہوں گے؟ یہ یقینا سوچتے ہوں گے عہدہ ہو‘ شہرت ہو یا پھر پرفارمنس ہو یہ سب دھند‘ یہ سب دھواںاور یہ سب ریت ہے‘ انسان اکیلا آیا تھا اور یہ اکیلا واپس چلا جائے گا‘ فائلیں‘ دفتر اور’’ویلڈن‘‘ کی آوازیں یہ سب پیچھے رہ جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے