زبان اردو کے حوالے سے وقتاً فوقتاً میں سعی کرتا ہوں کہ اپنے طلَبہ کے لیے اصلاحی چیزیں سامنے لاتا رہوں۔ہمارے ہاں اردو کے لکھنے اور بولنے والوں کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ اکثر پڑھے لکھے لوگ جب بڑی بڑی غلطیاں کرتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔یہ زبان ہم نے آسانی سے حاصل نہیں کی بل کہ اس کو بھی وطنِ عزیز کی طرح کوششوں سے حاصل کیا ہے۔
میں چند روز قبل اثریہ کالج چہلہ بانڈی میں انٹرمیڈیٹ سال اول کی جماعت میں درخواست پڑھا رہا تھا۔ درخواست کے عنوان میں لفظ ’’آسامی‘‘ لکھا دیکھ کر چونکا۔ہمارے معزز پروفیسر صاحب جنھوں نے وہ کتاب مرتب کی اس بات کو بھول گئے کہ ’’آسامی ‘‘ اور ’’اسامی میں کیا فرق ہے؟
اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے طلَبہ کی رہنمائی کے لیے یہ مضمون مرتب کیا جس میں کچھ ایسے الفاظ کی نشان دہی کی گئی ہے جن کو ہمارے ہاں عام طور پر غلط ہی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
میرا ایمان ہے کہ اگر میرے مضمون سے فردِ واحد بھی اصلاح قبول کرتا ہے تو میری کوشش بار آور ہوگی۔میں جب بھی کہیں کوئی غلطی دیکھتا ہوں تو اسے لکھ لیتا ہوں اور اس پر غور کرتا ہوں میرے مشاہدے میں آنے والی چند اغلاط کی درستی اپنے ان قارئین کے لیے جو اصلاح پسند کرتے ہیں۔ جو لوگ ہٹ دھرمی اور غلطی کو اپنا وتیرہ بنا چکے ان کے لیے فقط دعا۔
[pullquote]یاداشت:[/pullquote]
اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ اخبارات وغیرہ کے علاوہ کچھ کتب میں بھی ’’یاداشت‘‘ ایک ’’د‘‘ کے ساتھ لکھا ہوتا ہے۔ واضح کر دوں کہ ’’ یادداشت‘‘ میں دو ’’د‘‘ ہوتے ہیں۔فارسی میں داشتن مصدر سے داشت ہے جس کا معنی ’’رکھنا ‘‘ہے ۔داشت سے ہی یا’’د داشت ‘‘ بمعنی یاد رکھنا ہوئے ۔ درست املا ’’ یادداشت‘‘ ہوگا نہ کہ ’’ یاداشت‘‘۔ ’’یادداشت‘‘ حافظے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
[pullquote]آسامی:[/pullquote]
ہمارے اخبارات میں جب بھی کسی ملازمت کے لیے جب اشتہار دیا جاتا ہے تو اہتماماً ’’آ‘‘ سے لکھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ ’’آ‘‘ الف ممدوہ سے لکھے جانے والے ’’آسامی‘‘ کا مطلب بالکل مختلف اور الگ ہوگا۔ یاد رکھیں’’ آسام‘‘ بھارت کے شمال مشرق میں واقع ایک ریاست ہے۔ اس ریاست کی دفتری زبان ’’آسامی‘‘ ہے۔ اس ریاست کا باشندہ بھی ’’آسامی‘‘ ہوگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح چین کی زبان اور چین کا باشندہ ’’چینی‘‘ کہلاتے ہیں۔ جگہ جو بھرتی کے لیے خالی ہو وہ ’’ اسامی‘‘ الف مقصودہ کے ساتھ درست ہے۔ اسی اسامی سے ایک محاورہ بھی ہے۔’’ اسامی بنانا ‘‘یعنی الو بنانا یا پھسلانا۔
بہاول پور کے مقبول شاعر افضل خان کا شعر ہے۔
تری مسند پہ کوئی اور نہیں آسکتا
یہ مرا دل ہے کوئی خالی اسامی تو نہیں
[pullquote]دوران یا دوران میں۔۔۔؟[/pullquote]
ہمارے ایک طالب علم نے اپنے تحقیقی مقالے میں ایک جملہ لکھا جس میں دوران کے ساتھ حرف جار’’میں‘‘لگا دیا گیا۔ اس طالب علم کو ایک فاضل لیکچرار صاحب نے اس بات پر غلط کہا اور’’ میں ‘‘کاٹ دیا۔ اس حوالے سے فقط اتنا کہوں گا کہ ’’دوران‘‘ کا معنی کسی بھی مستند لغت میں دیکھیں تو زمانہ یا عہد برا مد ہوگا۔’’دوران‘‘ عربی زبان سے مشتق اسم ہے جس کے ساتھ سنسکرت زبان سے ماخوذ حرف جار ’’میں‘ لگایا گیا ہے۔ زمانے میں یا عہد میں ہی ہو گا۔
اختر انصاری کا قِطعہ بہ طور حوالہ ملاحظہ ہو۔
ہلکی ہلکی پھوار کے دوران میں
دفعتاً سورج جوبے پردہ ہوا
میں نے یہ جانا کہ وحشت میں کوئی
روتے روتے کھلکھلا کر ہنس پڑا
سعادت حسن منٹو کے ایک ڈرامے ’’کیا میں اندر آسکتا ہوں؟‘‘ سے اقتباس دیکھیں:
وقفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس دوران میں ساز بجتے رہے
غلام عباس کے ’’اوورکوٹ‘‘ سے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی‘‘۔
[pullquote]کے بجائے:[/pullquote]
’’کے بجائے‘‘ کا ستعمال کرنے والوں کی بھی کمی نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ’’کے بجائے‘‘ سے بہتر ’’کی بجائے‘‘ہے ۔اردو کی سبھی لغات کے بموجب ’’جا‘‘ بہ معنی ’’ جگہ‘‘ موئنث ہے۔ اس کی جگہ اس کی بہ جائے۔ لہذا کی بجائے؛ درست ہونا چاہیے نہ کہ ’’کے بجائے‘‘۔
راجندر سنگھ بیدی کے افسانے ’’گرم کوٹ‘‘ سے اقتباس دیکھیں:
’’میں نے سمی سے اپنا کوٹ چھین لیا، اور کہا ’’ مشین کے پاس بیٹھنے کی بہ جائے تم میرے پاس بیٹھو‘‘۔
انعام الحق کا یہ شعر دیکھیں:
وہ ڈگری کی بہ جائے میم لے کر لوٹ آیا ہے
ملا تھا داخلہ جس کو سمند پار کالج میں
[pullquote]پرمحیط:[/pullquote]
میری ایم فل کی ہم جماعت نگہت نورین نے کال کر کے پوچھا کہ’’پر محیط درست ہوگا یا کو محیط‘‘ میرا جواب تھا کہ بے شمار لوگ ’’پر محیط‘‘ کو درست سمجھتے ہیں لیکن معنوی اعتبار سے محیط کے معانی گھیرے ہوئے یا احاطہ کیے ہوئے کے ہیں۔ اس حساب سے تو ’’پر محیط‘‘ درست معلوم نہیں ہوتا۔ ’’کو محیط‘‘ کو درست مانا جائے گا۔
مبین مرزا کا اقتباس
’’جہاں جو نئی چیز ہے وہ ناول کا زمانی سیاق ہے جو بیس ویں صدی کی لگ بھگ آٹھ دہائیوں کو محیط ہے‘‘۔
مرتضیٰ برلاس کا شعر اس حوالے سے دیکھا جاتا ہے۔
وہ مری جرأت پرواز کو کیا سمجھے گا
جو فضاؤں کو محیط مہ و خورشید کرے
نوجوان شاعر صداقت طاہرؔ کے ہاں ’’کو محیط‘‘ کا استعمال ملاحظہ ہوؤکرب کربل کا ابھی تک ہے زمانے کو محیط
ہائے ہم آج تلک پیٹ کے سر روتے ہیں
[pullquote]شَفا:[/pullquote]
کسی کو جب دعائے صحت دی جائے تو یوں بولتے ہیں۔ ’’اللہ آپ کو شَفا دے‘‘ یاد رکھیں یہ جملہ ایک ’’ش‘‘ کو مفتوح کرنے سے غلط ہو جاتا ہے۔ آپ دعا کو بد دعا میں بدل دیتے ہیں۔ یعنی اللہ آپ کو زوال عطا کرے یا آپ کو موت آئے۔ صحت یابی کی دعا کے لیے لفظ ’’شِفا‘‘ کسر کے ساتھ بولا جائے گا۔ ’’اللہ آپ کو شِفا دے‘‘ اللہ آپ کو صحت دے یا تن درستی عطا کرے۔ حوالے کے لیے مصباح الغات (ابو الفضل مولانا عبدا لحفیظ کا مرتبہ لغت )ملاحظہ کریں۔
[pullquote]سمجھ آنا:[/pullquote]
ایک دن ریڈیو پاکستان مظفرآباد اسٹیشن پر جناب زاہد کلیم کے پاس بیٹھا تھا۔ انھوں نے کوئی بات بتائی تو میں نے فوراً کہہ دیا’’ مجھے سمجھ نہیں آئی‘‘ زاہد صاحب نے مجھے ٹوکا کہ ’’سمجھ نہیں آئی‘‘ درست جملہ نہیں’’میری سمجھ میں نہیں آئی‘‘ مجھے بہت خوشی ہوئی اور اچھا بھی لگا۔ میں نے جب لغات کو دیکھا تو ’’ سمجھ‘‘ کا معنی عقل، شعور یا فہم ملا۔ تب’’ سمجھ میں آیا‘‘ کہ ’’سمجھ آنا‘‘ درست نہیں ہوگا۔ ’’سمجھ میں آنا ‘‘ ہی درست ہوگا۔