پاک روس اکھ مٹکہ ( پہلا حصہ )

روسی سفیر الیکسی یوری وچ دیدوف نے بھی گذشتہ ہفتے بنی گالا میں عمران خان سے ملاقات کی اور دو طرفہ تجارتی و دفاعی تعاون میں اضافے کے امکانات پر تبادلہِ خیالات کیا۔اس ملاقات سے ایک روز پہلے روس کے نائب وزیرِ دفاع کرنل جنرل الیگزینڈر فومین نے جی ایچ کیو میں بری سپاہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔

جنرل فومین پاک روس مشترکہ عسکری تعاون کمیشن کے پہلے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تھے اور اس موقع پر وزارتِ دفاع سے ایک سمجھوتے پر بھی دستخط ہوئے جس کے تحت امریکی تربیتی امداد بند ہونے کے نتیجے میں پاکستانی عساکر پہلی بار روس کے اعلی تربیتی اداروں میں کورسز کے لیے بھیجے جا سکیں گے۔روس اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کا تازہ دور بدلی ہوئی علاقائی و جیو پولٹیکل تصویر کے تناظر میں اب سے چار برس پہلے شروع ہوا۔مگر اس تازہ تعلق کی اہمیت، ضرورت اور گیرائی سمجھنے کے لیے دو طرفہ تعلقات کے ہچکولے دار ماضی کو سمجھنا ازبس ضروری ہے۔

اگرچہ ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی نے انیس سو چھیالیس میں پارٹیشن کے تصور کی حمایت کی اور تقسیم کے بعد نوزائیدہ ملک میں کمیونسٹ تحریک منظم کرنے کے لیے سجاد ظہیر سمیت بہت سے کامریڈز کی مراجعت کی حوصلہ افزائی کی۔مگر نئی مملکت میں پاؤں جمانے کے نئے مواقع دیکھ کر ان مذہبی شخصیات نے بھی پاکستان کو اپنا نیا وطن بنایا جو کچھ ہی عرصے پہلے تک پارٹیشن کے تصور کو برطانوی استعماری سازش سمجھتے تھے جس کا مقصد مسلمانانِ ہند کے اتحاد و ثقافت کو جناح جیسے ’’ سیکولر مغرب نواز کی مدد سے تقسیم اور کمزور کرنا تھا۔‘‘

پاکستان کا حکمران طبقہ چونکہ پنجاب اور یوپی کے جاگیردارانہ پس منظر ، برطانوی ہند کی مڈل رینکنگ عسکر شاہی و آئی سی ایس نوکر شاہی کے اجزائے ترکیبی سے گندھا ہوا تھا اور مہاجر اردو داں متوسط دانشور و نوکری پیشہ طبقہ طبعاً واجبی ہی سہی مگر مذہبی رجحانات کا حامل تھا لہذا بایاں بازو پارٹیشن کی حمایت کے باوجود مشکوک ہی رہا اور دیوبندی و خاکساری و جماعتِ اسلامی کا نقطہِ نظر قیامِ پاکستان کی سیاسی مخالفت کے باوجود نئے ملک میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ان سب نے مغرب زدگی کے طعنے تو جناح کو دیے مگر اپنا غیر اعلانیہ نیچرل اتحادی مانوس مغربی استعماری قوتوں کو ہی جانا۔

چین ابھی پکچر میں داخل نہیں ہوا تھا اور ملحد روس ہمسایہ ہونے کے باوجود برطانیہ اور امریکا کے اہلِ کتاب کے مقابلے میں ذہنی طور پر بھارت اور پاکستان کی نئی اشرافیہ سے کوسوں دور تھا۔حسنِ اتفاق سے دوسری عالمی جنگ کی جگہ سرد جنگ لے رہی تھی لہذا بائیں بازو کے لیے نئے ملک میں بالعموم اور مغربی پاکستان میں بالخصوص بہت زیادہ پنپنے کا زیادہ موقع نہیں تھا۔

بٹوارے میں برٹش انڈیا کے دور کی وہ فائلیں بھی ہاتھ آئیں جن میں بھگت سنگھ سے پہلے اور بعد کے بائیں بازو کے شرارتی عناصر کا پورا کچا چٹھہ موجود تھا۔سرحدیں بدل گئیں مگر سی آئی ڈی اور پولیس کی نگاہیں اور ذہن نہیں بدلا۔بس یہ ہوا کہ پہلے افسرِاعلی گورا تھا اب افسرِ اعلی گورے کا سابق ماتحت کالا ہوگیا۔

پاکستان بننے کے ڈھائی ماہ بعد مرزا ابوالحسن اصفہانی کی قیادت میں جو پہلا اعلی سطح کا وفد واشنگٹن پہنچا۔اس کے ہاتھ میں شاپنگ لسٹ تھی۔کہانی یہ بنائی گئی کہ شمال کی جانب سے زرد اور سرخ خطرے سے نپٹنے کے لیے پاکستان آزاد دنیا کا ہراول رضاکار چوکیدار بننے پر آمادہ ہے مگر اس کام کے لیے اسے کم ازکم دو نئے ڈویژن کھڑے کرنے اور کیل کانٹے سے لیس کرنے کی ضرورت ہو گی۔ یہ سامان ہنگامی طور پر درکار ہے۔

امریکی محکمہ دفاع و خارجہ نے اس شاپنگ لسٹ کو مسکراتے ہوئے ایک طرف رکھ دیا۔ ان کی نگاہ ایشیا میں برطانیہ کے جانشین نہرو کے ہندوستان پر تھی اور امریکیوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین کس نوعیت کی چپقلش پک رہی ہے۔

کریملن میں بیٹھی سوویت قیادت بڑی دلچسپی سے جنوبی ایشیا میں ہونے والی یہ ایڈجسٹمنٹ دیکھ رہی تھی۔اس کا تجزیہ تھا کہ دو میں سے ایک پھل ضرور اس کی گود میں گرے گا لہذا عجلت کیسی۔جب نہرو کو امریکا کے دورے کی پہلے دعوت ملی تو پاکستان میں کھلبلی مچ گئی۔سوویت قیادت نے جواب میں پاکستانی قیادت کو ماسکو کے دورے کی دعوت دے کر جنوبی ایشیا کی بساط پر ہلکے سے ایک سفارتی مہرہ کھسکا دیا۔امریکا نے یہ دیکھا تو لیاقت علی خان کو جوابی دعوت دے ڈالی۔پاکستانی قیادت کو اندازہ ہوا کہ اگر دائیں کی توجہ حاصل کرنا مقصود ہے تو دائیں کے قدموں میں بیٹھ کر نہیں بلکہ بائیں کی جانب جھکاؤ ظاہر کر کے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔یہ نسخہِ کیمیا آج تک کارآمد ہے۔

سوویت دعوت نامہ دکھا کے امریکی نگاہ کیش ہو گئی، پر اس کے عوض امریکا نے آنے والے دنوں میں پاکستان کو امدادی بوٹی دے کر بدلے میں پورا بکرا لے لیا۔

جنگِ کوریا میں سوویت اتحادی شمالی کوریا کے خلاف برسرِپیکار امریکی عرف اقوامِ متحدہ کی افواج کو پٹ سن کی بوریاں بیچ بیچ کر نئی طفیلی کیپٹیلسٹ کلاس کھڑی ہوتی چلی گئی۔عدم تحفظ سے دوچار عسکری قیادت کو پینٹاگون کی قربت اور یکے بعد دیگرے سیٹو ، سینٹو اور پھر امریکا سے دوطرفہ دفاعی معاہدے کی چھتری میسر آ گئی۔ہم نے بھی شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ راولپنڈی سازش کیس کے ملزموں کی سرکوبی ہو کہ مشرقی پاکستان کے کمیونسٹ ٹیک اوور کا ہوا دکھا کر نوزائیدہ جمہوری عمل سے کھلواڑ کرنے اور انتخابات ملتوی کرنے کا موقع ہو۔ہر چھوٹی بڑی اسکیم پر عمل سے قبل امریکی قیادت کو اعتماد میں لیا جاتا اور خاموشی کو رضامندی جان لیا جاتا۔

چنانچہ سوویت قیادت نے بھی سن چون کے بعد کشمیر کے معاملے پر اقوامِ متحدہ کے فورم پر غیرجانبداری ترک کر دی۔افغانستان اور بھارت کریملن کی علاقائی پالیسی میں اہمیت اختیار کرتے چلے گئے۔مگر امریکا نے پاکستان کو مٹھی میں رکھنے کے باوجود اپنی پہلی جنوبی ایشیائی محبت بھارت کو یاد رکھا اور بھارت نے اس امریکی خواہشِ ناتمام کو چین کا ابھرتا ہوا دکھا کر اپنے حق میں خوب خوب استعمال کیا۔یوں سمجھ لیجیے کہ اگر پاکستان کو اس دور میں امریکی نگاہ میں رہنے کے لیے تین قدم چلنا پڑتا تھا تو بھارت کو امریکی توجہ حاصل کرنے کے لیے بس ایڑیوں کے بل کھڑا ہونا کافی تھا۔بہتر برس بعد بھی اس سہہ طرفہ تکون کی نفسیات وہی کی وہی ہے۔

مگر ایسا نہیں کہ سوویت یونین پاکستان کو یکسر ناامید ہوگیا۔پچاس کے عشرے میں امریکی کیمپ سے مکمل طور پر جڑ جانے کے بعد بھی سوویت یونین نے انیس سو اٹھاون میں اسٹیل مل کی تعمیر کی پیش کش کی اور بڈابیر سے انیس سو ساٹھ میں پرواز کرنے والے امریکی یو ٹو جاسوس طیارے کو مار گرانے اور پائلٹ کیپٹن گیری پاورز کو زندہ پکڑ لینے اور اس سے پشاور سے اڑنے کا اقبال کرانے کے بعد بھی پاکستان میں معدنی وسائل کی تلاش کے سلسلے میں وزیرِ قدرتی وسائل ذوالفقار علی بھٹو ماسکو سے خالی ہاتھ نہیں لوٹے۔

ساٹھ کے عشرے میں چین اور سوویت یونین کی نظریاتی رقابت کھلم کھلا چوک پر آ چکی تھی۔چنانچہ پاکستانی لیفٹ بھی اپنے معروضی حالات کی روشنی میں کوئی آزاد حکمتِ عملی وضع کرنے کے بجائے ماسکو نواز اور پیکنگ نواز میں بٹ گیا۔

جہاں تک ایوبی آمریت کا معاملہ تھا تو اس کی نگاہ میں دایاں اور بایاں برابر تھا اور دونوں سے مساوی سختی برتی جا رہی تھی۔اس دوران کرنا خدا کا یوں ہوا کہ پینسٹھ کی جنگ چھڑ گئی۔امریکا نے بھارت اور پاکستان کی فوجی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا۔مگر یہ کوئی منصفانہ امریکی فیصلہ نہیں تھا۔بھارت کے پاس باسٹھ میں چین کے ہاتھوں شکست کے بعد وصول ہونے والے امریکی اسلحے کی اچھی خاصی کھیپ موجود تھی جب کہ پاکستان کے پاس صرف دس دن کی لڑائی کا گولہ بارود تھا۔

چنانچہ ایوبی حکومت نے چین کو براہِ راست اور سوویت یونین کو بلاواسطہ درمیان میں ڈالا۔یوں سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے نام پر گلو خلاصی ہوئی اور پینسٹھ کی مہم جوئی میچ نتائج کے اعتبار سے ڈرا میچ ثابت ہوئی۔ پھر سوویت وزیرِ اعظم الیکسی کوسیجن کا دعوت نامہ ایوب خان اور لال بہادر شاستری کو موصول ہوا۔

پاک سوویت تعلقات میں یہ دوسرا موڑ تھا جب پاکستان اپنے تئیں بے وفا امریکی سئیاں سے پینسٹھ کے تلخ تجربے کے سبب روٹھا روٹھا سا تھا اور سوویت یونین کا رویہ ایک بار پھر پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں غیر جانبدارانہ ہونے لگا تھا۔پاکستان چاہتا تو یہی وقت تھا جب خارجہ پالیسی کو سمندر پار سے کھینچ کر علاقائی صحن میں لایا جا سکتا تھا۔ایوب خان نے معاہدہِ تاشقند کے بعد محدود پیمانے پر اپنے آخری ایام میں سوویت اسلحہ بھی خریدا۔مگر جیسے ہی امریکا نے ایک بار پھر مسکرا کے دیکھا محبِ وطن پاکستانی اشرافیہ پھر دوڑی دوڑی بے وفا شہری بابو کی جانب کھچتی چلی گئی۔

پھر اسی بے وفا پے مرتے ہیں

پھر وہی زندگی ہماری ہے

اور پھر سوویت یونین پہلی بار سیریس ہو گیا اور اس نے وہ فیصلہ کیا جس کا نتیجہ پاکستان نہ جھیل پایا

[pullquote] (جاری ہے)۔[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے