حکیمی نسخے

میری اصل پہچان میری حکمت ہے میں وہ حکیم حاذق ہوں جس کے نسخوں سے زرد چہروں والے مریض تروتازہ اور صحت مند ہو کر اٹھتے ہیں، کبڑے سیدھے ہو کر چلنا شروع کر دیتے ہیں، اندھوں کو میری دوائی سے نظر آنا شروع ہو جاتا ہے، بہرے سننے کے قابل ہو جاتے ہیں، لنگڑے اپنا لنگ بھول کر دوڑنے لگتے ہیں۔ قبض، مردانہ کمزوری، بدہضمی، ذیابیطس ، سرطان، بلڈ پریشر، چیچک، دمہ ، ہیضہ، سردرد اور گلے کی خرابیوں سمیت تمام بیماریوں کا میرے پاس شافی علاج ہے جو مریض میرے پاس آتا ہے وہ اس قدرشفایاب ہو کر جاتا ہے کہ اسے دوبارہ زندگی بھر میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

میں عام طور پر اپنے مریضوں کے نام نہیں بتاتا انہیں خفیہ رکھتا ہوں لیکن مفاد عامہ کے لئے آج یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہر جماعت سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے سیاست دان میرے مریضوں میں شامل ہیں۔ میں ان سیاست دانوں کی بیماریوں ہی سے ملک کے سیاسی حالات کو جان لیتا ہوں نصف صدی کے تجربے کے بعد میرے پاس جہاں مریضوں کے لئے حکیمی نسخے موجود ہوتے ہیں وہاں سیاسی مشورے بھی تیار رکھتا ہوں۔ہر سیاسی مریض کو اس کے حالات کے مطابق مشورہ دینا اور اسکی بیماری کے لئے مناسب نسخہ دینا ہی اصل حکمت ہے ۔میری حکمت کی شہرت چاردانگ ہے اسی لئے ملک بھر سے سیاسی مریضوں کی کثیر تعداد میرے حکیمی نسخے اور سیاسی مشورے استعمال کرتی ہے۔

کل ہی میرے پرانے مریض بٹ پہلوان آئے تھے انہیں اکثر بدہضمی کی شکایت رہتی ہے موٹاپے کی وجہ سے چلنے پھرنے میں بھی تکلیف ہوتی ہے لیکن میرے مجرب نسخوں کی وجہ سے وہ اب بھی نہاری، حلوہ پوری، پلائو کباب اور کھابے بخوبی ہضم کر لیتےہیں ،کل اپنی بیماری پر مشورے کے بعد کہا کہ کچھ بات تخلیے میں کرنی ہے میں انہیں دوسرے کمرے میں لے آیا۔ بٹ پہلوان نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر میرے کان میں کہا میرے لیڈر شہباز شریف کی طبیعت خراب ہے براہ کرم ان کے لئے بھی کوئی ادویات لکھ دیں میں نے پوچھا انہیں شکایت کیا ہے تو بٹ پہلوان نے کہا کہ میاں صاحب رات گئے اٹھ جاتے ہیں ،

ڈرائونے خواب دیکھتے ہیں، انہیں ہتھکڑیاں اور جن بھوت نظر آتے ہیں۔بٹ پہلوان کا خیال تھا کہ انہیں مصلحت کی گولیوں کا ایک اور پیکٹ دے دوں مگر میں نے تجویز کیا کہ انہیں ’’کشتۂ مردمی‘‘ جیسی مقوی دوا کی ضرورت ہے۔ ’’شربت بہادری‘‘ کے دوبڑے چمچے صبح شام بھی تجویز کئے جن بھوت بھگانے کے لئے آیت الکرسی کا ہر دم ورد کرنے کا مشورہ بھی دیا۔بٹ پہلوان نے مجھ سے رازداری کا وعدہ کیا تھا مگر چونکہ یہ رازداری کی بات نہیں ہے اس لئے اسے بتانے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

آج کوئی اور نہیں بلکہ میڈم کنول بنفس نفیس میرے مطب آئیں ان کے آنے سے فضاء معطر سی ہو گئی پہلے خیر سے میری محلے دار تھیں مگر اب ڈیفنس منتقل ہو چکی ہیں۔انصاف اور جدت پسندی کی قائل ہو کر انصافین کہلاتی ہیں میری پرانی مہربان ہیں اگر کوئی اہم مشورہ کرنا ہو یا ناقابل علاج بیماری کے بارے میں جاننا ہو تو پھر خاص طور پر پرانے محلے میں میرےمطب میں آتی ہیں آج بھی تشریف لائیں تو فوراً کہا کہ میرے پاس زیادہ وقت نہیں حکیم صاحب فوراً مشورہ دیں میں نے پوچھا خیریت توہے،

صحت تو بالکل ٹھیک نظر آ رہی ہے لیموں اور کھیرے کو ملا کر جو ’’نسخہ حسن‘‘ میں نے انہیں تیار کرکے دیا تھا اس نے مکمل طور پر کام دکھایا تھا میڈم کا چہرہ کھلے ہوئے پھول کی طرح دکھائی دے رہا تھا میں سمجھا کوئی پوشیدہ بیماری نہ ہو اس لئے انہیں الگ کمرے میں بٹھا کر پوچھا کہ اب کیا مسئلہ ہے تومیڈم نے کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں مسئلہ تو پارٹی قیادت کو درپیش ہےجب سے اقتدار ملتے ہوئے نظر آنے لگا ہے انکے خون میں گردش زیادہ ہو گئی ہے ،غصہ اور جوش بڑھ گیا ہے، پچھلے چند دنوں میں ایک دو نے تو معمولی باتوں پر تھپڑ رسید کر دیئے ہیں جبکہ لڑائی جھگڑے کے واقعات بڑھ گئے ہیں ۔ میڈم نے کہا کہ کوئی ایسی دوا تجویز کریں جس سے قیادت کا چڑھا ہوا پارا کچھ نیچے اتر جائے۔

میرے ذہن کی پردہ سکرین پر پچھلے چند دن کے واقعات فلم کی طرح چلنے لگے۔ میں نے تھوڑی دیر آنکھیں بند کیں اور پھر اپنے معاون ’’دیسی برگر‘‘ کو آواز دی کہ وہ فوراً ’’معجون عقل‘‘ اور ’’عرقِ برداشت‘‘ لائے تاکہ تحریک انصاف کی قیادت کو بھیجا جا سکے وہ آئندہ دنوں میں ان ادویات کے استعمال سے پرسکون رہیں گے۔ بلند فشار خون کے لئے ’’املی کا شربت‘‘ پینے کا بھی مشورہ دیا تاکہ مخالفانہ بات سن کر ان کا خون جوش نہ مارے اور وہ تحمل سے حکومت کا مزہ لےسکیں۔

میرے محلے گوالمنڈی میں ایک پرانا جیالا زاہد گوگا بھی رہتا ہے کوڑے کھا چکا ہے اس لئے کبھی کبھار اسکی کڑوی کسیلی باتیں سننے کے لئے آصف زرداری بھی اسے بلا لیتے ہیں ۔کل ہی اسلام آباد سے آیا ہے سینہ پھلائے ہوئے مطب میں آیا اور زور سے بے تکلفانہ آواز لگائی حکیم صاحب! حکیم صاحب! میں نے جھٹ سے کہا آپ کے سامنے تو بیٹھا ہوں کیوں اتنا شور مچا رہے ہو۔ گوگا نے کہا حکیم صاحب بات ہی ایسی ہے کل ہی پارٹی قیادت سے ملا ہوں اب آپ سے مشورہ لینا ہے کہ کیا کیا جائے ؟

ہوا کیا ہےمیں نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو گوگا نے کہا کہ قیادت مجھے ضمنی الیکشن لڑنے کا کہہ رہی ہے خرچہ بھی پارٹی دے گی، میں نے فوراً کہا تو حرج ہی کیا ہے فوراً تیاری کرو۔ گوگا سوچ میں پڑ گیا اور کہا جیتنے کا کوئی چانس نہیں پھر بھی؟ میں نے کہا ہاں پھر بھی۔تمہارا نقصان ہی کیا ہے پارٹی جیتنے کی پوزیشن میں آئی تو جیالوں کو کب ٹکٹ ملے گا۔ابھی الیکشن لڑ کر شوق پورا کر لو۔زاہد گوگا تھوڑا ریلیکس ہوا تو کہنے لگا حکیم صاحب میں نے زرداری صاحب سے آپ کا ذکر کیا تھا اور بتایا تھا کہ آپ کے حکیمی نسخے دائمی مریضوں کو بھی ٹھیک کر دیتے ہیں۔

گوگا نے کہا کہ آپ زرداری صاحب کے لئے کچھ نسخے، کچھ دوائیاں اور خوراک میں احتیاط وغیرہ تجویز کر دیں۔ میں نے فوری طور پر گوگا کو کہا کہ زرداری صاحب شریفیہ دسترخوان سے اجتناب کریں کیونکہ اس دسترخوان سے استفادہ کرنے والوں کو آج کل جائے پناہ نہیں مل رہی اور اگر ہوسکے تو مولانا فضل الرحمٰن کو بھی یہ خوراک کھانےسے باز رکھیں، میں نے یہ بھی تجویز کیا کہ زرداری صاحب ’’اکسیر عسکری ‘‘ کا استعمال بڑھائیں اور ’’تریاکِ زر‘‘ نامی ’’زہر مار‘‘ کی خوراک شروع کریں کیونکہ اصل میں یہی وہ زہر ہے جو پارٹی اور زرداری صاحب کو اندر ہی اندر کھا رہا ہے۔

میں نے متحدہ پاکستان کو بھی ’’خمیرۂ مصلحت توڑ‘‘ تجویز کی ہے جبکہ مصطفیٰ کمال کی خراب آنکھوں کی درستی کے لئے ’’عرق گلاب اور ردِ غلط فہمیہ گولیاں ‘‘ تجویز کی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن خود بھی حکمت جانتے ہیں مگر پھر بھی ان کے لئے میں نے خاص طور پر ’’بنی گالہ کا اصلی دیسی اور چھوٹی مکھی کا شہد‘‘ بھیجا ہے تاکہ ان کے ٹوٹے ہوئے دل کی مرمت تیز تر ہو سکے ۔جاوید ہاشمی کی کمزوری کا پتہ چلنے پر میں نے نوازی اور شہبازی دواخانے سے ’’معجون حوصلہ افزائی ‘‘ بھجوائی ہے امید ہے انہیں تھوڑا بہت افاقہ ضرور ہوا ہو گا ۔باقی سیاسی مریضوں کے لئے بھی نسخے تیار ہیں جسے ضرورت ہو منگوالے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے