غریب کی خوشی کادن!

وطنِ عزیز میں طبقاتی تقسیم کاحال یہ ہے کہ ہمارے یہاں غریب تو غریب ایک درمیانے درجے کاشہری بھی عزت کی زندگی نھیں جی سکتا۔یہاں اشرافیہ کومراعات ملتی ہیں جبکہ نچلے طبقات کوفقط دِ لاسے۔امیر،غریب ،ذات پات اورمذہب وفرقہ کی بنیاد پر تقسیم توہے ہی پھرایک ہی ذات ومذہب کے لوگوں میں مال وزر کے سبب بھی لوگ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں ۔مذہبی تہوارہوں یاقومی تہوار سبھی میں امیر وغریب کی یہ تفریق نمایاں ہوتی ہے۔خوشی کے سبھی معیار جُداہیں اورمنانے کے طریقے بھی الگ۔غمی کے مواقع ہوں تووہاں بھی طبقاتی تقسیم کارنگ ظاہر ہوتاہے۔ عیدین کاموقع ہویا کوئی بھی قومی دن امیر وغریب کے اوڑھنے ،پہننے اورکھانے پینے میں فرق نظرآتاہے۔

یومِ آزادی 14اگست امسال بھی ہمیشہ کی طرح جوش وخروش سے منایاگیا۔لوگوں کابے سِمت جذبہ دیدنی تھا جسے کسی رہبر کی ضرورت ہے کہ اس جذبے کو مثبت سمت عطاکرے۔ یومِ آزدی پر جولوگ سب سے زیادہ جذباتی ہوتے ہیں اورسڑکوں پر سلسنسر نکالے،باجے بجاتے یاپھر گاڑیوں میں اونچی موسیقی لگاکر حب الوطنی کاثبوت دے رہے ہوتے ہیں ان میں ہر طبقے کے افراد موجود ہوتے ہیں ۔اشرافیہ بھی،درمیانے درجے کاشہری بھی اورغریب مزدور بھی ۔ یہ خوشی کادن سبھی کے لیے ایک ساہوتاہے ،اس روز ہرنوجوان جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہر طرح کی حرکتیں کررہاہوتاہے۔یہ واحد دن ہوتاہے جب امیروغریب سبھی ایک سے کپڑے پہنتے ہیں اگرچہ قیمتوں کافرق ہوتاہے مگرنمایاں نھیں کیوں کہ رنگ ایک سے ہوتے ہیں ۔دوسرے تہوار دیکھیں تولباس کافرق ہی طبقات کے اختلاف کونمایاں کررہاہوتاہے۔

ایک ایسے روز جب کم از کم غرباکواپنی غربت کا زیادہ احساس نھیں ہوتااُ س روز بھی اگر ہم اپنے اپنے مسائل گنوانے بیٹھ جائیں تویہ غرباکے ساتھ ناانصافی ہے ۔ہمارے یہاں صوبائی ومسلکی خلش بھی موجود ہے اورریاستی ناانصافی بھی ایک حقیقت ۔ وقتا فوقتا اس حوالے سے آواز اٹھائی جاتی ہے اورریاست کوایک ماں سی ریت پرچلنے کی تلقین بھی۔ یومِ آزادی پر جب ہر طرف سے خوشی کی صدائیں آرہی ہوتی ہیں اس روز کہیں حساس دلوں سے مُلکی مسائل پر جلی کٹی آراسماجی ذرائع ابلاغ پر پڑھنے کوملتی ہیں ۔کچھ واقعی فکرانگیز ہوتی ہیں اور کچھ محض ’’دانشوری ‘‘ کارعب بٹھانے کے لیے ہی ہوتی ہیں ۔بلوچ وپشتون،اقلیتوں اور غرباکے مسائل کواُجاگر کیاہوتاہے یاپھر آزادی وتقسیم کی تاریخ کی ’’تصحیح‘‘ کی کوششیں کی گئی ہوتی ہیں ۔

ان مسائل سے انکار نھیں مگرایک ایسے وقت میں جب ایک تندور پرروٹیاں لگانے والا شخص گلے مل کر ’’ جشنِ آزادی مبارک‘‘ کہہ رہاہو،ایک معمولی نائی کی پھول سی بچی سبز وسفید لباس میں ملبوس ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگارہی ہوتونجانے کیوں کچھ قلم زہر لکھ رہے ہوتے ہیں اورزبانیں نفرت اُگل رہی ہوتی ہیں ۔جب ایک ذیابیطس کامریض یہ جانتے ہوئے کہ میٹھا اس کے لیے نقصان دہ ہے میٹھاکھا رہاہو اوراسے ایساکرنے سے روکیں تواُسے غصہ آئے گاکہ کیوں روکاجارہاہے ۔وہ آپ کواپناہمدرد نھیں بلکہ ایک جلاد تصور کرے گا۔ اسی طرح جب ایک غریب خوش ہورہاہو تواسے اس کی غربت کااحساس دلایاجائے گاتووہ آپ کوہمدرد نھیں بلکہ دُشمن تصور کرے گا۔و ہ وطن کی محبت میں اپنے بچوں کو امیر بچوں کے سے کپڑے دلاتاہے ،گھر پرجھنڈے لگاتاہے اورشام کوتفریح کے لیے سیر پر نکلتاہے توعین اس وقت وہ یہ پڑھے یاسُنے کہ کچھ لوگ اُس کے اس جذبے کو فضول خرچی کہہ رہے ہیں یااُس کوبے وقوف اورآوارہ کہہ رہے ہیں تو اُس کے دل پرکیاگُزرے گی۔

ایک مزدورکو فوج اور سیاست کی باہمی چشمک کااندازہے نہ ہی اُسے آمریت وجمہوریت کی پُرپیچ وادیوں کاداؤ پیچ معلوم ہے ۔ اُسے فقط یہ علم ہے کہ یہ وطن اُس کی محبت کاسب سے زیادہ مستحق ہے اور یہ وطن اس کی بقا کاضامن ہے ۔ وہ اس وطن کی محبت میں ہی اپنی فکروں کوبھول کر خوشی منانے نکلتاہے کہ اس روز اسے ہر طرف ایک سارنگ وجوش نظرآتاہے ۔دوسرے ایام مین کوئی جگہ ایسی نھیں جہاں اُسے اپنی غربت کااحساس نہ ہوتاہو یانہ دِلایاجاتاہو بلکہ وہ ہر جگہ پر ایسے طعنے سُنتاہے کہ خود کواس ملک کاکم تر باسی سمجھتاہے ۔یومِ آزادی پر وہ ہر طبقے کی کوتاہیوں اور طعنوں کوبھول کرقومی تہوار منانے نکلتاہے تواس روز بھی کچھ قلم اس کی غربت کانوحہ لکھ کر اس کے احساسِ کمتری کوبڑھاوا دے رہے ہوں تواس کی خوشیاں توغارت ہی ہوں گی۔

پس اُن حساس دلوں ، حقیقت پسند نظروں اور حق گو دانشوروں سے یہی التجاہے کہ کم از کم اس روز خاموش رہاکریں جب غریب کے چہرے پر حقیقی مُسکان ہو۔ جب غریب کمسن بچہ سبز وسفید لباس پہنے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہاہو تواس کے نعروں کاجواب دیاکریں اور یہ نہ کرسکیں توایک روز کے لیے اپنی حساس طبیعت پرجبر کرکے سکوت اختیارکرلیاکیجئے ۔غریب کی روٹی کانوحہ کسی دوسرے سمے لکھ لینا،ریاستی ناانصافی کاماتم کسی اوروقت پررکھ کر قوم کے ساتھ مُسکرالیاکریں تلخیاں نہ لکھاوپھیلایاکریں ۔یقین مانیے یہ اجتماعی غموں کانوحہ لکھنے والے لوگ پھربھی کسی روز بیٹھ کرخوش ہولیتے ہیں مگرغریب کے پاس یہی ایک روز ہوتاہے کہ وہ خوش ہولے۔یہی اس کے لیے یومِ آزادی ہے اورعیدوشادی کادن بھی ۔اس کی خوشیوں کویومِ ماتم مت بنایاکیجیے بلکہ اُس کی غربت کادل رکھنے کے لیے اُس کاہاتھ تھام کر اس کے ساتھ چل لیاکیجیے یہی اُس کی خدمت ہے اوراس سے محبت کاایک ذریعہ بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے