اصل خطرہ چوہدریوں سے ہے!

پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھا لیا ہے، ان کی حلف برداری کے بعد میں نے ٹی وی آف کردیا ہے اور کالم لکھنے بیٹھ گیا ہوں، مجھے علم نہیں کہ اس کے بعد وہ وزیراعظم کے طور پر تقریر کریں گے یا کر چکے ہیں مگر حلف کے الفاظ دہرانے میں انہیں دقت پیش آرہی تھی، ان میں یا تو نئے الفاظ شامل کئے گئے تھے یا آسان لفظوںکو مشکل بنادیا گیا تھا، صدرممنون حسین کے لئے تو ان الفاظ کی ادائیگی ’’گھر کی بات‘‘ تھی میں نے گھر کی لونڈی نہیں کہا کیونکہ کچھ لوگ بقول شخصے اردو کے ساتھ پھر سلوک بھی لونڈیوں جیسا ہی کرتے ہیں تاہم میانوالی کے نیازی کے لئے یہ الفاظ ایک مشکل پرچے کی طرح تھے جو انہیں حل کرنا ہی پڑا۔

اس دفعہ نئے وزیراعظم کا بہت گھاگ یا منجھے ہوئے سیاست دانوں سے پالا پڑا ہے، مسلم لیگ (ن)کے ارکان اسمبلی نے کل اس وقت بہت چالاکی سے عمران خان کو پٹڑی سے اتار دیا جب ایوان نے انہیں وزیراعظم منتخب کیا تو انہوں نے نئے وزیراعظم کو غصہ دلانے کے لئے اتنی بھرپور نعرہ بازی کی کہ عمران خان اپنی وہ تقریر بھول گئے جو انہوں نے کرنا تھی اور اس کی جگہ کنٹینر والی تقریر کر ڈالی جو انہیں پورے ایوان کو اور پورے ملک کو زبانی یاد ہو چکی تھی۔ نئے وزیراعظم اپوزیشن کے بچھائے ہوئے جال میں آگئے۔ اپوزیشن ان کی مزاج شناس تھی مگر عمران خان معاملہ فہم نہ نکلے اور یوں وہ اقتدار کی پہلی سیڑھی ہی سے پھسل گئے۔

عمران خان کو اس تقریر سے ایک نقصان یہ بھی پہنچا کہ اپوزیشن کے دنوں کی تقریروں اور ان میں کئے گئے وعدوں کو عموماً سیاسی سمجھتے ہیں، مگر جب خان صاحب نے وہی تقریر بطور وزیراعظم بھی کر ڈالی تو انہوں نے اب اسے سیریس لینا شروع کردیا تاہم سادہ لوح عوام بھی یہ سمجھ گئے کہ ڈاکوئوں، چوروں، لٹیروں کی ایک تعداد کو تو انہوں نے اپنی صفوں میں شامل کرلیا ہے، سو اب جو احتساب ہوگا وہ محض انتقامی ہوگا اور عوامی فلاح و بہبود کے وعدے بھی محبوب کے وعدے ہی ثابت ہوں گے۔
میرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا
کسی سے سن لیا ہوگا یہ دنیا چار دن کی ہے

سیاسی نجومیوں نے وزیراعظم عمران خان کی مدت اقتدار بہت کم بتائی ہے۔ مگر ان کے اندازے اکثر غلط ہی ثابت ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ چند مہینے یا دو تین سال جتنا عرصہ بھی وہ وزیراعظم ہیںان کے حوالے سے بات ہوتی رہے گی۔

مگر میں اس وقت چند اہم باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خلاف بہت کچھ کہا جا چکا ہے مثلاً یہ کہ ان کا بیانیہ ان کے قائد میاں نوازشریف سے مختلف ہے، وہ احتجاجی جلوس لیکر ادھر ادھر ہوتے رہے، مگر ایئرپورٹ نہیں گئے، یا یہ کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈرے ہوئے ہیں، وغیرہ وغیرہ، مگر یہ سب کچھ کہتے ہوئے کسی کو یاد نہ رہا کہ پنجاب میں ان کی لاجواب کارکردگی کی وجہ سے اس الیکشن بلکہ بقول بلاول بھٹو سلیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے جتنی کامیابی حاصل کی وہ اپنے قائد نوازشریف کی رہنمائی میں ان عالیشان منصوبوں کی تکمیل اور آغاز کی وجہ سے تھی جو شہباز شریف کی دن رات محنت کے سبب وجود میں آئے۔

میں اس موقع پر شہباز شریف کو دو مشورے دینا چاہتا ہوں، ایک تو یہ کہ جو ہونا ہو وہ ہو کر ہی رہتا ہے چنانچہ اب بطور اپوزیشن لیڈر انہیں سارے ’’دھونے دھو‘‘ دینا چاہئیں۔ کچھ لوگوں کا ذکر تاریخ میں سنہری لفظوں میں آتا ہے، خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر ہوں۔ مجھے یقین ہے شہباز شریف تاریخ میں اپنا نام ان افراد کی فہرست میں لکھانا پسند کریں گے جو جبر کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں، حق سچ بات کہتے ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے، شہباز شریف اپنا نام اس سنہری فہرست ہی میں لکھوانا پسند کریں گے۔

ان کے لئے دوسرا مشورہ چودھری پرویز الٰہی کے حوالے سے ہے، وہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کے بارہ ارکان نے خفیہ رائے شماری میں ان کے حق میں ووٹ ڈالا۔ شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے لئے اصل خطرہ عمران خان نہیں کہ وہ بہت جلد ایکسپوز ہو جائیں گے، اصل خطرہ چودھریوں سے ہے جو اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر ہوں اپنے مخالفین سے اپنے رابطے منقطع نہیں ہونے دیتے، پرویز مشرف کے دور میں جب چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے چیف منسٹر مقرر ہوئے، میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مجھے پتہ چلا کہ وہ مجھ سے ملنے میرے گھر آرہے ہیں، حالانکہ وہ اچھی طرح شریف فیملی سے میرے روابط کے بارے میں جانتے تھے۔ اس وقت کھانے کا وقت تھا، ہم سب نے کھانا کھایا، گپیں لگائیں اور پھر وہ چلے گئے مگر ایک خوشگوار یاد اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔

شریف فیملی جب جلا وطنی کے دور میں جدہ میں تھی انہوں نے ان کے کسی خیر خواہ کو کوئی ضرر نہیں پہنچنے دیا۔ یہ اس خاندان کا عمومی رویہ ہے یہ سب کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اس دوران میری تین سگی بہنیں انتقال کر گئیں اور مسلم لیگ کی قیادت نے میرے اس شدید صدمے کو شیئر نہ کیا۔ دشمن دوست سب تعزیت کے لئے آئے مگر کسی مسلم لیگی عہدیدار نے بوقت ملاقات بھی رسمی تعزیت نہیں کی۔ یہ لوگ پارٹی کے ان دشمنوں سے روابط رکھتے ہیں جو ایک اسٹرٹیجی کے تحت ان کے لئے کوئی تعریفی کلمہ لکھ دیں۔

میں خود سے شرمندہ ہوں کہ کہنا میں کیا چاہتا تھا اور درمیان میں ذاتی دکھ آگیا جو جانے کب سے میں اپنے اندر چھپائے بیٹھا تھا، مجھے کہنا یہ تھا کہ اب چودھری خاندان پورے شدومد کے ساتھ مسلم لیگی ارکان سے رابطے شروع کرے گا۔ جو کام جہانگیر ترین جہاز کے پٹرول پر خرچ کر کے بھی اتنی کامیابی سے نہیں کر سکا۔ خصوصاً پنجاب میں شہباز شریف کے کاموں کی دھوم تھی کہ وہ نظر آتے تھے۔ چنانچہ وہ دل و جان کے ساتھ مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔

نوازشریف کی قائدانہ صلاحیتیں ان انتخابات میں پہلے سے کہیں زیادہ موثر انداز میں سامنے آئیں، لوگ ان کی خوئے دلنوازی کے بھی قائل ہیں، وہ جس سے ملتے ہیں، اس کا دل جیت لیتے ہیں، اوپر سے انہوں نے بھرپور جلسے کئے، عوام میں جوش و خروش کی ایک لہر دوڑا دی، چنانچہ قائد کی قیادت اور شہباز شریف کے کاموں نے مسلم لیگ کے ٹکٹ کے لئے دھڑا دھڑاپلائی کرنا شروع کردیا کہ وہ اپنے علاقے کے عوام کے جذبات سے آگاہ تھے۔

ابھی تک تو مسلم لیگ کی اسٹرٹیجی برقرار ہے مگر چودھری برادران آہستہ آہستہ اس میں رخنہ ڈال سکتے ہیں، اور یوں مجھے لگتا ہے کہ مسلم لیگ کے لئے عمران خان نہیں چودھری برادران خطرہ ہیں۔ سو مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف کو چاہئے کہ وہ ہر طرح کے خدشات سے آزاد ہو کر اہم لوگوں سے اپنی پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں سے رابطوں میں تیزی پیدا کریں۔ جتنی محنت وہ عوام کے فلاحی کاموں پر کرتے رہے ہیں، اتنی ہی محنت اب پارٹی کو جوڑے رکھنے کے لئے درکار ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے