حج کے موقع پر بھگدڑ کیوں مچتی ہے ؟سائنسی تجزیہ

adam

ایڈم روجرز

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مکّہ اسلام کا مقدس ترین شہر، قرآن میں بیان کیے گئے اکثر واقعات کی جگہ اور حج ، جس کی سال میں ایک مرتبہ ادائیگی کے لیے دنیا بھر سے تین ملین سے زائد مسلمان سعودی عرب آتے ہیں، کا مرکزہے۔ گزشتہ ہفتے مکّہ میں ایک سانحہ بھی پیش آیا جب خیموں کی عارضی بستی، منیٰ ، جہاں لاکھوں حاجی قیام کرتے ہیں، میں بھگدڑ مچنے سے کم و بیش اٹھ سو حاجی ایک دوسرے کے قدموں تلے کچلے جانے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ تاہم ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا اور نہ ہی یہ کوئی انوکھا واقعہ ہے۔ حج کے دوران، ہر سال، ایسے واقعات کاتسلسل پایا جاتا ہے، ان کی وجوہ میں کم و بیش یکسانیت پائی جاتی ہے جسمانی دباﺅ اور جذباتی انشقاق۔

مجموعی طور پر انسانیت کے لیے یہ کوئی نیا سانحہ نہیں ۔ ریکارڈ کے مطابق1896 میں روس کے شہنشاہ زار نکولس دوم کی تاج پوشی کے وقت ماسکو سے باہر ہونے والی تقریب میں بھگدڑ مچنے سے ایک ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوگئے۔ بھگدڑ مچنے کی وجہ ایک افواہ تھی کہ رعایتی نرخوں والے اسٹینڈز پر یادگاری چیزیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ ہندوستان میں مذہبی اجتماعات، یورپ میں فٹ بال میچوں اور امریکہ میں میوزک کنسرٹ کے مواقع پر ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں۔ ایسے واقعات کا احاطہ کرنے والی ایک سٹڈی کے مطابق 1980ء سے لے کر 2007 تک بھگدڑ مچنے کے 215 واقعات پیش آئے۔
حج ، جہاں گزشتہ جمعرات کویہ سانحہ پیش آیا، گزشتہ کئی عشروں سے مہلک ثابت ہورہا ہے۔ حاجیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے ہلاکت خیز واقعات کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ 2009 ءسے پہلے ایک سو سال کے دوران ہلاکتوں کے اعتبار سے دس مہلک ترین واقعات میں سے پانچ منیٰ کی وادی میں پیش آئے۔ 2006 ءمیں سعودی حکام نے یک طرفہ راستے بنائے، حاضرین کو گننے اور تھیم پارک جیسے داخلے کے شیڈول کویقینی بنانے کی کوشش کی، لیکن جمرات پل (جہاں شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں)پر بھگدڑ میں ایک ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوگئے ۔ آج یہاں کثیر منزلہ پل اور کئی راستے بنا دیے گئے ہیں تاکہ لوگ ایک جگہ رکنے کی بجائے متحرک رہیں اور ہجوم اکٹھا نہ ہونے پائے۔ گزشتہ عشروں کے دوران سعودی حکومت نے بہت سے ماہرین تعمیرات اور ڈیزائنرز، جن میں عالمی شہرت یافتہ فرم جنسلر (Gensler) بھی شامل تھی، سے مشاورت کی تاکہ اہم مقامات سے حاجیوں کی محفوظ آمدورفت کو یقینی بنایا جاسکے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں افراد کی اتنی محدود جگہ پرموجودگی کے بعد بھگدڑ مچنے سے بچاﺅ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ مسئلے کی ایک وجہ لوگوں کا جسمانی طور پر بہاﺅ میں ہونا، ذہنی طور پر بوکھلا جانا اور نفسیاتی طور پربڑھتے ہوئے ہجوم میں معقول رویہ دکھانے کے قابل نہ ہونا ہے۔

اس مسئلے کا آغاز ہیجان خیزی سے ہوتا ہے جس میں لوگ رش سے بچنے کے لیے جلداز جلد منزل پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں وہ اس رش یا ہجوم کی وجہ بن جاتے ہیں جس سے وہ بچنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس کے باوجود افراد کی حرکت ایک سمت میں ہی ہوتی ہے اور اصولی طور پر ایک سمت میں بڑھنے والے ہجوم میں کوئی مسلہ پیدا نہیں ہونا چاہیے تاوقتیکہ اُن کا سامنا کسی رکاوٹ سے ہو یا بہت سے افراد کے راستے میں کوئی تنگ گزرگاہ آجائے، یا اُنہیں کوئی اچانک تنگ موڑ مڑنا پڑجائے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی مقام پر ہجوم کا دوسری سمت میں آنے والے ہجوم سے ٹکراﺅ ہوجائے۔ حالیہ سانحے کی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ منیٰ کی خیمہ بستی سے دو مختلف راہداریوں سے آنے والے حاجیوں کے دوریلے کسی تنگ مقام پر آپس میں ٹکرا گئے۔ ہر دو واقعات کے نتیجے میں بھگدڑ مچ سکتی ہے۔ جب چھے یا سات افراد بھی مل کر ایک طرف دھکا لگانا شروع کردیا تو پیدا ہونے والے دباﺅ نے لوہے کے جنگلے میں لگی ہوئی سلاخوں کو ٹیرھا کردیا۔ ریسرچ کرنے والا خیال تھا کہ جب ہجوم منتشر ہو کر بھاگتا ہے تو ان کی طاقت میں یکسوئی نہیں ہوتی کیونکہ وہ مختلف سمتوں میں زور لگا رہے ہوتے ہیں لیکن اگر تمام فعال قوتیں ایک ہی سمت زور لگارہی ہوں تو پھر راستے میں آنے والے افراد کے کچلے جانے یا دم گھٹنے سے ہلاک ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ حالیہ حادثے میں دم گھٹ کر ہلاک ہوجانے والے افراد کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم ظاہر کرتا ہے کہ ان کی چھاتیوں پر دباﺅ 6.4 پی ایس آئی (پاﺅنڈ فی مربع انچ) تھا۔ کچھ افراد کی موت اس طرح واقع ہوئی کہ وہ جہاں کھڑے تھے، وہیں ہجوم کے اندر پھنس گئے ۔ ان پر پڑنے والا دباﺅ اُن کی ہلاکت کا باعث بن گیا۔ یقینا یہ ایک انتہائی افسوس ناک صورت ِحال تھی۔

عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی، ای ٹی ایچ زیورخ کے سوشل سائنسدان ڈرک ہلبنگ( Dirk Helbing) کے مطابق منیٰ حادثے کی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ مختلف ہجوم مختلف راہداریوںسے گزررہے تھے لیکن پھر وہ ایک تنگ جگہ پر پہنچ کر ایک دوسر ے سے ٹکرا گئے۔ وہ کہتے ہیں ’عوام کا ہجوم اتنا بڑھ گیا ایک جسم دوسرے جسم کو بھینچ رہا تھا۔ ایک ہلکی سے حرکت بھی ساتھ لگے ہوئے اجسام پر دباﺅ ڈال رہی تھی (ڈرک ہلبنگ نے جمرات پل پر شروع میںکام کیا تھا لیکن وہ براہ راست مکّہ میں کئی برسوںسے کسی کام میں شریک نہ تھے)۔ اس صورت میں وہاں موجود افراد بے ہنگم دباﺅ کا شکار ہوکر زمین پر گر گئے ۔ رکاوٹ پیدا ہونے سے دیگر افراد اُن پر گرگئے۔ اس طرح گرنے والے دیگر افراد کے اوپر دیگر افراد گرتے گئے۔

ہلبنگ کی تشریح کے مطابق ہجوم کا رخ بیرونی طرف تھا اور لوگ اس رش سے بچنے کی کوشش کررہے تھے تاکہ اپنی منزل پر جلد از جلد پہنچ جائیں۔ جن مقامات پر کم رش تھا، لوگوں کا رخ اُس طرف ہوگیا۔ اس سے وہ مقامات بھی تیزبہتے ہوئے دریا کے دھارے میں تبدیل ہوگئے۔ جب وہاں ہجوم کا دباﺅ بڑھا تو جیسا کہ ان مواقع پرہوتا، کوئی چلنے والا ذرا آہستہ ہوتا ہے تو اس کے ساتھ چلنے والے بھی اپنی رفتار سست کرلیتے ہیں۔ اس طرح اُس مقام پر رش ہوجاتا ہے اور پھر وہ افراد اپنے ہی پیدا کردہ رش سے بچنے کے لیے رفتار تیز کر دیتے ہیں۔ اس طرح عوام کے ہجوم کی لہریں یکے بعد دیگرے پیدا ہوتی اور ایک دوسرے سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ جلد ہی اس ہجوم سے بچنے والے خود اس ہجوم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ صورت ِحال تمام قواعد وضوابط اور لگائے گئے تمام تخمینوں کو باطل کردیتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہجوم زیادہ گنجان ہونے لگے تو عوام عقل و خرد کا دامن ہاتھ سے کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ کچھ دیگر مخلوقات جیسا کہ پرندے یا مچھلیاں بہت بڑے غول میں ہونے کے باجود بہت حیرت انگیز تعاون کی فضاقائم رکھتی ہیں۔ پرنسٹن یونیورسٹی کے لین کوزن کا کہنا ہے کہ بہت سے جاندار نہایت سلجھے ہوئے اعلیٰ اجتماعی رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’جب ہم پرندوں یا مچھلیوں کے غول کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اُنھوں نے ہجوم میں رہنا سیکھ لیا ہے، لیکن بدقسمتی سے انسان نے ابھی یہ رویہ نہیں سیکھا۔ ہم صرف چھوٹے خاندانوں میں انفردای زندگی گزارنے کے ہی قابل ہوئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بڑے شہر بہت گنجان آباد ہیں، لیکن انسانی ذہن اس گنجان آباد ی کو قبول کرنے کے لیے فی الحال تیار نہیں۔ کوزن کا کہنا ہے، ’ہم نہیں جانتے کہ اس صورت ِحال میںکیسا رویہ اختیار کریں۔ ہم فطری طور پر بھی اس بات کی تفہیم نہیں کر پاتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد کیا ہورہا ہے۔‘اس کا مطلب یہ نہیں کہ مخصوص حالات میں انسان بہتر اجتماعی طرز عمل دکھانے سے قاصر ہیں۔ ایسا نہیں ہے، انسان اجتماعی رویہ اپنا سکتا ہے ۔ عام طور پر لوگ اپنے رہنماﺅں کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کی بڑی مثال کسی پیدل چلنے والے کے ساتھ دیگر افراد کا اُسی رفتار سے چلنا ہے، لیکن خود کار طریقے سے، فطری طور پر انسان ایک بڑے ہجوم کے اندر بہتر رویہ دکھانے کے قابل نہیں ہے۔ کوزن کا کہنا ہے، ’ہمیشہ نہیں تو بھی انسان اکثر ہیجان خیزی او ر افراتفری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ان کا رد ِعمل خطرناک ثابت ہوتا ہے۔‘ ان حادثات میں حج کے انتظامات کرنے والوں کے سیکھنے کے لیے ایک سبق ہے۔ اس ہفتے اُنھوں نے ایک بات ضرور سیکھی ہوگی کہ اُنھوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا تھا۔ تاہم اُنہیں یہ کوشش ترک نہیں کرنی چاہیے۔

بشکریہ:دنیا پاکستان

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے