احمدحاطب صدیقی اور فقرغیور

احمد حاطب صدیقی نہ صرف اسم بامسمی ہیں بلکہ ایک نہایت خوبصورت اور سر تا پا ادب و آداب میں لتھڑی ہوئی شخصیت کے مالک بھی ۔بہت سے اہل علم کے نزدیک آج کے دور کی بڑی ادبی شخصیت ہیں مگر اپنی سادہ مزاجی اور اقتدار و اہل اقتدار سے پہلو تہی کے باعث کوئی سرکاری ایوارڈ نہ ملنے کے سبب اس ٹولے میں شامل نہ کئے جا سکے ہیں جو اپنے آپ کو ادب کے چیمپیئن کہتے اور تمام حکومتی عنایات کا سزاوا گردانتے ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ حاطب صاحب اس ٹولہ میں شامل نہ ہونے پر یقیناًمغرور ہوں گے اسی وجہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی روز کنواں کھودتے اور روز پانی نکالتے ہیں۔ البتہ بہت سی ایسی نشستوں میں انہیں شمع محفل بنے دیکھا جہاں آج کے زر پرست ادیب قریب سے گزرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

کالم نویسی، شعرگوئی، تقاریر، ر تنقید، خاکہ نویسی، اصلاح زبان، ادارت وغیرہ ان کا معمول زندگی ہے اور قوم کی تربیت و اصلاح ان کا مشن۔ کتابیں بھی لکھ ماری ہیں کہ مالی معاملات اجازت دیتے تو شائد کئی درجن کتابوں کے مصنف ہوتے۔ کمال یہ ہے کہ ادب کے اس کافر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو ماضی و حال کے تمام ادباء کی معروف و غیر معروف علتوں سے بے نیاز و پاک ہیں ۔ روئے سخن حاطب بھائی کی جانب ان کی ایک تازہ تحریر کے باعث گیا جس میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی کی اس ادبی عدالت کی روداد بیان کی جس کے مجرم ابن صفی مرحوم اوروکیل استغاثہ شفیع نقی جامعی تھے۔ روداد کیا ہے گذرے زمانوں اور بھولی بسری یادوں کا ایک نوحہ ہے۔ ا

یک حاطب ہی کیا اس ملک کا ہر ایک اہل سخن اسی کرب کا شکار ہے کہ وہ محفلیں اجڑ گئیں، وہ اقدار دفن ہوئیں وہ روایات پامال ہو ئیں وہ اہل فن و ہنرگزر گئے ۔ صحبتیں تو شائد اب بھی موجود ہیں مگر نہ غزویانہ تڑپ ہے نہ خمزلف ایاز۔ اس تحریر نے کہ انسان زندگی کے تمام اچھے برے رنگوں کو اپنے تجربات کے تناظر میں دیکھتا ہے، مجھے بھی ایک ایسی ہی محفل کی یاد دلا دی۔ بے اختیار حاطب بھائی کو رابطہ کیا اور نہ صرف ماضی کے دریچے کھولنے پر مبارکباد پیش کی جہاں سے ایک بار پھر ٹھنڈی ٹھنڈی یادوں کی ہوائیں آنے لگی ہیں یہ وعدہ بھی کر لیا کہ حضور نہلے پہ دھلامیرے ذمہ رہا۔

یہ بات ہے 1986ء کی جب انہی جامعہ کراچی کی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے نیشنل کالج کراچی میں بھی ایک ادبی محفل سجالی گئی۔ مرحوم ابوالخیر کشفی صاحب کہجامعہ کے شعبہ اردو کے سربراہ تھے کمال مہربانی سے محفل کے صدر نشیں ہونے پر نہ صرف آمادہ ہوئے بلکہ بر وقت آ بھی گئے ہاتھ پیر پھول گئے کہ جلسہ کی حاظری ابھی نامکمل تھی چنانچہ کارکنوں کو دوڑایا کہ کلاسیں زبردستی ختم کرائیں تا کہ محفل جم سکے۔ وکلاء کے گاون کیلئے ہمیشہ کی طرح کالج کے اساتذہ سے ان کے گاؤن مستعار لئے کہ ابھی ان میں بھی ذوق طلب کو جانچنے کی صلاحیت اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کا جذبہ باقی تھا۔ باقی تو کچھ یاد نہیں ہا ں یہ ضرور یاد ہے کہ وکیل استغاثہ معوذ صدیقی تھے جو آج کل امریکہ میں آج ٹی دی کے نمایندہ ہیں۔ محفل انہوں نے ہی لوٹنی تھی کہ زبردست مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ حالات کی نزاکتیں بھی جانتے تھے۔

لڑائی جھگڑوں والے نیشنل کالج میں یہ ایک نئی روایت کا آغاز تھا جس کی سب سے اہم بات ڈاکٹر کشفی صاحب کی وہ تقریر تھی جس میں حوصلے ہی حوصلے تھے۔اسید زاہدی بھی تھے مگر اب بھول گیا کہ ان کے ذمہ کیا تھا۔کشفی صاحب کیلئے نصیحت اور سفارش دونوں خالد خورشید نے کی تھیں کہ فاونڈیشن کالج کی حکومت میرے حوالہ کر کے سیدھے جامعہ کراچی گئے۔ جنگ لندن کی ادارت سے تھک گئے تو گذشتہ ایک دھائی سے اردو نیوز جدہ کو خون جگر پلا کر نہیں تکھے۔ آج بھی میرے مربی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں بہت بڑیبہادر تھے۔ میں نے صرف نیک بہادری کا دور دیکھا اور وہی کچھ سیکھا۔

عجیب حسن اتفاق ہے کہ ہمارے دور طالب علمی کے اکثر دوست صحافت میں آگئے اور نامور ہوئے ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔مگر کشفی صاحب کو اس کے بعد کبھی بھول نہ سکا۔ ان کے فرزندابو احمد عاکف کہ آج کل ماحولیات کے وفاقی سیکریٹری ہیں جن سے2012ء کے حج میں مکہ شریف میں ملاقات ہوئی۔ بھلے آدمی ہیں مگر ابا کو بھول گئے اور صرف نوکری کو یاد رکھتے ہیں۔ان سے میری یکطرفہ محبت کا سبب بھی کشفی صاحب ہیں کی اس روز انہوں نے اس ادبی عدالت میں آ کر نہ معلوم کتنے لوگوں کی زندگیاں تبدیل کیں ۔ چراغ کاکام ہی روشنی پھیلانا ہے اپنے پرائے ہر ایک کیلئے یکساں مخلص و بے نیاز۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے