قانونِ قدرت

کیا آخری معرکہ وہ جیت سکے گا؟ میرا خیال ہے کہ اس کا انحصار ہیجان سے نجات اور قوانین ِقدرت کے ادراک پہ ہے۔ ہر چیز بدلتی ہے‘ مگر قوانین ِقدرت کبھی نہیں بدلتے۔

کبھی ایک غالب وقاہر حکمران‘ کبھی ایک گروہ اور کبھی ایک پورا معاشرہ‘ ہیجان کا شکار ہو جاتا ہے۔ خیالات کی ایک دنیا آباد کر لیتا ہے اور اس میں رہنے بسنے لگتا ہے۔ مولانا روم‘ اقبالؔ اور سلطان باہو‘ استثنیٰ ہیں ۔ شاعر خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے ہیں۔ وہ ایک ذاتی زندگی جیتے ہیں۔ وہ انسانی احساسات اور تیوروں کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ ان کی سنی جاتی ہے‘ مگر نہیں سنی جاتی۔یہ ادبی جمالیات کی دنیا ہے۔ کہنے والا بھی جانتا ہے اور سننے والا بھی کہ حقائق سے کوئی تعلق اس کی بات کا نہیں۔ احمد مشتاق نے کہا تھا۔
یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں
ہوائے غم کے لیے کھڑکیاں بناتے ہیں

سیاست اور اقتدار کی دنیا میں جب یہ حادثہ پیش آتا ہے‘ تو ایک قیامت گزر جاتی ہے۔ ہٹلر کے جرمنی اور مسولینی کے اٹلی کی داستاں ‘ابھی کل کی بات ہے۔ اس سے پہلے نپولین کی۔ انتشار اور درماندگی کے مارے یورپ میں فرانسیسی فاتح دندناتا ہوا نکلا۔ ایک کے بعد دوسرے ملک کو روندتا چلا گیا۔ اصلاً وہ اطالوی تھا اور اس کی رگوں میں عرب خون دوڑ رہا تھا۔ اس عہد کی باقیات‘ مسلمان لشکر چھ ماہ تک جب سسلی پہ قابض رہا۔

پھر اسے روس اور ایشیا کی سوجھی۔ ایک زمانے میں اس کا خیال یہ بھی تھا کہ یورپ کے بعد ترکی اور ایران کو پامال کرتا ہوا‘ وہ ہندوستان میں داخل ہو۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے یا اس کے جانشینوں نے ٹیپو سلطان سے جا ملنے کا ارادہ بھی کیا‘ جس کے ذکر سے برطانوی سماج گونج رہا تھا۔

ماسکو میں فرانس کا سفیر‘ نپولین کا ذاتی دوست بھی تھا۔ فرانسیسی فاتح کے عزائم کی خبر پا کر اس نے لکھا کہ روس کو فتح کرنے کا خواب خطر ناک ہوگا۔ تیمور کی موت کے بعد‘ صدیوں سے بدلتی دنیا میں‘ روسی زار ایک بڑی قوت بن کے ابھرے تھے۔ تیمور نے گردوپیش کی اکثر سلطنتوں کو پامال کرکے ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔ بعدازاں نپولین ایسے فاتحین اسی راکھ سے اٹھے۔

فرانسیسی سفیر کے انتباہ کی نپولین نے رتی برابر پرواہ نہ کی۔ نپولین اپنے دوست کا مذاق اڑاتا رہا کہ وہ زار سے مرعوب ہے اور روس کے برف زاروں میں جا اترا‘ باقی تاریخ ہے۔

صرف جذبۂ انتقام ہی نہیں‘ ہٹلر اور مسولینی کو بھی حد سے بڑھا ہوا اعتماد لے ڈوبا۔

چھ برس ہوتے ہیں‘ پاک فوج کے ایک ممتاز جنرل نے مجھ سے پوچھا کہ عمران خان کا مسئلہ کیا ہے۔ مراد یہ تھی کہ گاہے‘ وہ غیرمحتاط کیوں ہو جاتا ہے۔ عرض کیا کہ وہی جو زیادہ ورزش کرنے والے‘ غیرمعمولی صحت کے حامل لوگوں کا ہوتا ہے۔ اپنے آپ پہ بے پناہ بھروسہ۔ کہنے کو میں یہ کہہ بیٹھا‘ مگر فوراً ہی خیال آیا کہ جنرل صاحب خود بھی زیادہ ورزش کے عادی ہیں۔ یہی نہیں جب چاہیں دوپہر کا کھانا ترک کرکے وزن گھٹا لیتے ہیں۔

عمران خان کی حد سے زیادہ پراعتمادی‘ خود کو مختلف اور بالا سمجھنے میں‘ اس کی غیرمعمولی کامیابیوں کا دخل بھی ہے۔ کرکٹ کا عالمی کپ اس نے جیتا۔ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کسی نے۔ جیتا بھی اس حال میں یکے بعد دیگرے چار میچ اس کی ٹیم ہار چکی تھی۔ شوکت خانم ایسا ہسپتال بھی‘ اسی نے تعمیر کیا‘ کوئی دوسرا نہ کر سکا۔ عالمی معیار کی یونیورسٹی بھی اس نے تعمیر کی۔ بڑے بڑے جواں مرد‘ ارب پتی بھی جو نہ کر سکے۔

پھر اس کی غیرمعمولی وجاہت کہ لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ اسرائیل کی اس سابق وزیراعظم کا نام اب میں بھول رہا ہوں۔ حصولِ اقتدار سے قبل تب وہ امریکہ میں تھیں۔ اچانک ٹی وی پہ اس کی نظر پڑی‘ جہاں کرکٹ میچ دکھایا جا رہا تھا۔ وہ اس کھیل سے آشنا تھی اور نہ کھلاڑی سے۔ سوال کرنے پر اس کے پاکستانی رفیق نے کپتان کے بارے میں بتایا ‘تو بے ساختہ اس نے کہا: ایسا لگتا ہے کہ خدا نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ وجاہت چیز ہی ایسی ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا۔
حسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم
اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی

عزم‘ بے خوفی اور مستقل مزاجی‘ عمران خان کی شخصیت کے کبھی نہ الگ ہونے والے عناصر ہیں۔ سب نعمتیں اور خوبیاں ‘مگر کسی کو عطا نہیں کی جاتی ہیں۔ معاملہ فہمی اس میں بہت کم ہے۔ مردم شناسی نام کو نہیں۔ اسی لیے وہ فریب کھاتا ہے۔ اسی لیے نعیم الحق‘ صداقت عباسی اور عامر کیانی ایسے کردار اس کے اردگرد پائے جاتے ہیں۔ دھوکہ کھاتا ہے اور کھاتا ہی رہتا ہے۔ جہانگیر ترین ذہین آدمی ہے اور بے دریغ خرچ کرنے والا۔ کوئی عامی بھی عمران خان کو مستقل فریب دے سکتا ہے‘ مگرخوشامد کے فن سے۔

شریف برادران تو مردم شناس اور معاملہ فہم ہیں نا؟ بلکہ زمانہ ساز ہیں۔ عملیت پسند ہیں اور باہمت بھی۔ ڈوب ڈوب کر ابھرتے رہے‘ مگر ایک بنیادی فرق ہے۔ عمران خان میں خلقِ خدا کے لیے کچھ کر دکھانے کا جذبہ غالب ہے۔ تالی بجوانے اور بجواتے رہنے کا۔ یہی اس کی زندگی کا محور ہے۔ اقتدار کا بھی اس لیے وہ طالب ہے۔ زمانے پہ اپنا نقش قائم کرنے کے لیے۔

شریف برادران درہم و دینار کے بندے ہیں۔ عمران خان شاذ ہی جھکتا ہے‘ وہ جھک جاتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو موم کے بن جاتے ہیں۔ خیر‘ اب تو عمران خان بھی کچھ ایسا صداقت شعار نہیں‘ شریف برادران کو غلط بیانی میں ذرا سا تامّل بھی نہیں ہوتا۔ محلات‘ خورونوش‘ گاڑیاں‘ زروجواہر کے انبار جمع کرنے کی آرزو۔

عقب میں وہی غلبہ پانے کی جبلت‘ ازل سے جو آدمی میں کارفرما ہے۔ پینتیس برس سے‘ ہزاروں انسانوں کو اپنا نخچیر بنا رکھا ہے۔ قابل ِانتخاب امیدوار وں کا معاملہ دوسرا ہے‘ عرف ِعام میں جنہیں ELECTABLES کہا جاتا ہے‘ دانشور اور منجھے ہوئے سیاسی کارکن بھی ان کے مداح ہیں۔ ”آہنی اعصاب کا آدمی‘‘ نوازشریف کے بارے میں ایک ممتاز اخبار نویس نے کہا تھا‘ جو خود بھی ایک ذہین آدمی ہے۔ پچھلے دنوں عمران خان کے بارے میں اس نے کہا: قلندرانہ ادائیں اس میں پائی جاتی ہیں۔

شہبازشریف کی بھی اس طرح مدح کی جاتی ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ چینی بھی اس کا شکار ہوگئے۔ ”پنجاب سپیڈ‘‘ اور” شہباز سپیڈ‘‘ کی اصطلاحیں وہیں سے آئی ہیں۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ شخصیت پرستی ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ مائوزے تنگ کو انہوں نے دیوتا ہی مان لیا تھا۔ ڈنگ سیائو پنگ کی تلقین سے بالآخر ان کی آنکھ کھلی تو افلاس اور درماندگی سے نجات پانے کا عمل شروع ہوا۔ مائوزے تنگ کی راہ چلتے چلے جاتے تو غربت اور پسماندگی سے کبھی نجات حاصل نہ پا سکتے۔

زرداری صاحب کے کارناموں کے باوصف کرشماتی بھٹو کی وراثت دیہی سندھ میں اب بھی کارفرما ہے‘ لیکن بڑے لشکر دوسرے ہیں۔ ایک شریف خاندان اور دوسرے عمران خان کے اسیر ۔ عمران خان سے ایسی امیدیں لاکھوں کروڑوں نے وابستہ کرلی ہیں‘ جیسی کبھی قائداعظمؒ اور بھٹو سے کی تھیں۔

باہم دونوں لشکر متصادم ہیں اور اس تصادم میں معاشرہ ہیجان کا شکار ہے۔ سنجیدگی سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نیازی خاندان کا فرزند نیلسن منڈیلا اور مہاتیر محمد سے بڑا لیڈر ہے۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں‘ قائداعظمؒ کے جو قائل نہ تھے‘ مگر عمران خان کے ہوگئے۔

شریف خاندان کا سورج تو شاید ہمیشہ کے لیے ڈوب چکا۔ عزائم عمران خان کے بلند ہیں۔ کارنامہ انجام دینے‘ ایک فرسودہ قوم کو سربلند کرنے کے لوازم‘ مگر مہیا نہیں۔ اس پہ مستزاد وہ ہیجان ہے‘ جو حقائق کا ادراک کرنے نہیں دیتا۔

شریف خاندان سے یقینا وہ بہتر ہے۔ پختون خوا میں پولیس‘ ہسپتال‘ تعلیمی ادارے ‘سول سروس اور آخر میں عدالت کو بھی اس نے بہتر بنانے کی سعی کی۔ اس کوشش پر داد بھی اسے ملی۔ 2013ء کی 33 کے مقابلے میں 2018ء میں صوبائی اسمبلی کی 66 سیٹیں اس نے جیت لیں۔

کیا آخری معرکہ وہ جیت سکے گا؟ میرا خیال ہے کہ اس کا انحصار ہیجان سے نجات اور قوانین ِقدرت کے ادراک پہ ہے۔ ہر چیز بدلتی ہے‘ مگر قوانین ِقدرت کبھی نہیں بدلتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے