پولیس افسر اور خاور مانیکا کا معاملہ، اصل کہانی کیا تھی ؟

لاہور: ڈی پی او پاکپتن رضوان کو مبینہ طور پر پیشہ وارانہ غلط بیانی کی وجہ سے او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے، تاہم اصل واقعہ کیا تھا؟

ذرائع کے مطابق تقریباً 20 روز قبل سپیشل برانچ کی جانب سے ایک رپورٹ مرتب کی گئی جسے ڈی پی او پاکپتن کو بھجوایا گیا، اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وزیرِاعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ مانیکا نے مزار پر حاضری دینا ہے، اس لیے سیکیورٹی انتظامات مکمل کر کے رکھے جائیں۔

ذرائع کے مطابق اس معاملے کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا۔ اس لیے پولیس نے سیکیورٹی کے حوالے سے پلان مرتب کیا، اسی دوران ایک خاتون مزار پر حاضری کیلئے پہنچی جس نے وزیرِاعظم کی اہلیہ بشریٰ بی بی جیسا لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ پولیس نے پلان کے مطابق اس خاتون کو سیکیورٹی فراہم کی اور مزار تک گئی۔

تاہم بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ خاتون بشریٰ بی بی نہیں بلکہ ان کی صاحبزادی ہیں۔ ذرائع کے مطابق خاور مانیکا نے سیکیورٹی دینے پر بہت اعتراضات کیے اور حتیٰ کہ غلط زبان تک استعمال کی۔

خاور مانیکا نے کہا کہ ہمارے مطالبے کے باوجود آپ ہمیں کیوں سیکیورٹی فراہم کر رہے ہیں؟ جس پر ڈی پی او پاکپتن کا کہنا تھا کہ ہم سپیشل برانچ کی رپورٹ کی وجہ سے سیکیورٹی فراہم کر رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق اسی دوران ایک گاڑی میں اسلحہ کی نمائش کی جا رہی تھی جسے پولیس کی جانب سے روکنے کی کوشش کی گئی، ایلیٹ فورس نے اس گاڑی کا پیچھا کر کے اسے روکا تو خاور مانیکا نے کہا کہ آپ کیوں ہماری گاڑی روک رہے ہیں؟ جس پر انھیں بتایا گیا کہ اسلحے کی نمائش کی وجہ سے ایسا اقدام اٹھایا گیا۔

خبر ہے کہ اس کے بعد خاور مانیکا نے پولیس والوں کے ساتھ سخت زبان کا استعمال کی اور ڈی پی او رضوان کو فون کال کی۔ ڈی پی او رضوان نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ میں اس معاملے کا نوٹس لے کر اسے چیک کرتا ہوں۔

ذرائع کے مطابق اس گفتگو کے دوران خاور مانیکا نے ڈی پی او پاکپتن رضوان سے کہا کہ میں دیکھ لوں گا کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ اسی دوران انہوں نے آر پی او شارق کمال کو فون کیا لیکن ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔ خبریں ہیں کہ ڈی پی او پاکپتن نے اس تمام معاملے کی تحقیقات کیں تو اس میں پولیس کی جانب سے کسی قسم کی کوئی غلطی سامنے نہیں آئی۔

بعد ازاں خاور مانیکا کی جانب سے مختلف ذرائع سے رابطے کیے گئے۔ اگلے روز وزیرِاعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے ڈی پی او پاکپتن کو فون کیا گیا کہ وہ لاہور پہنچیں۔

باخبر ذرائع کے مطابق ڈی پی او پاکپتن جب عثمان بزدار کے سامنے پہنچے تو خاور مانیکا کے انتہائی قریبی رشتہ دار وہاں موجود تھے جنہوں نے سخت لہجہ استعمال کیا جس پر ڈی پی او نے کہا کہ وہ میرٹ پر اس تمام معاملے کو دیکھیں گے لیکن کسی کے ڈیرے پر نہیں جائیں گے، اگر آپ اسی کے مطابق کوئی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں تو کریں، اگر غلطی ہماری ہے تو ہم معذرت کریں گے۔ اس کے بعد اس معاملے کی تحقیقات کیلئے وزیرِاعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر کمیٹی تشکیل دیدی گئی جس کی سربراہی ابوبکر خدا بخش کر رہے تھے تاہم ابھی تحقیقات شروع ہی نہیں ہوئیں تھیں کہ آئی پنجاب سید کلیم امام نے ڈی پی او پاکپتن رضوان کو او ایس ڈی کر دیا۔

ادھر آئی جی پنجاب سید کلیم امام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ شہری سے پولیس اہلکاروں کی بدتمیزی پر ڈی پی او پاکپتن نے بار بار غلط بیانی سے کام لیا۔ پیشہ وارانہ غلط بیانی، ٹرانسفر کو غلط رنگ دینے اور سوشل میڈیا پر وائرل کرنے پر ان کیخلاف انکوائری کا حکم دیدیا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے