نوجوان اثاثہ

اگر آپ نوجوان ہیں اور اپنے لیے کسی سمت کاتعین نہیں کیا‘ تویہ تباہی کاایک نسخہ ہے‘جو قوت اور تخلیقی صلاحیت ہماری نوجوان نسل میں موجود ہے‘ وہ اُنہیں اس قابل بناتی ہے کہ وہ کچھ بھی مثبت یا منفی کر سکیں ۔نوجوانوں کی قابلیت دو دھاری تلوار کی مانندہے۔ ایک طرف یہ تخلیق اور ترقی کی طرف لے جاسکتی ہے اور دوسری طرف لوگوں کی گردنیں تک کاٹ سکتی ہے ۔

ترقی یافتہ ملکوں میں حکومت نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لیے مثبت مواقع فراہم کرتی ہیں ‘جبکہ ترقی پذیر ممالک میں ایسے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے ہیجان اور تباہی کی طرف لے جاتی ہے ۔تحقیق کے مطابق موجودہ دور میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ آبادی نوجوانوں کی ہے ۔

یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پوری آبادی کا 66فیصد 30سال سے کم ہے ‘جبکہ آبادی کا 29فیصد15سے 29سال کے درمیان ہے۔اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے 195ممالک میں سے صرف 14ممالک تعلیم پر پاکستان سے کم خرچ کرتے ہیں‘ جبکہ ان میں سے 5کی شرح نمو پاکستان سے کم ہے۔ یہ بیکار اور بے روز گار نوجوانوں کا یہ ایک ایسا گروہ ہے‘ جس کی کوئی سمت یا مقصد نہیں ۔

موجودہ نوجوان نسل وہ ہے‘ جوپچھلی صدی کے آخر میں پیدا ہوئے اور اُنہوں نے نوجوانی کے دن اس صدی میں گزارے۔انہوں نے ایک اچھا پاکستان نہیں دیکھا ‘ ان کی یادداشتوں میں بم دھماکے ‘ لوڈشیڈنگ‘معاشی مسائل اور ایک ایسا معاشرہ محفوظ ہے‘ جس نے سوائے کرپشن اور بدعنوانی کے اُنہیں کچھ نہیں دیا ‘لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ نوجوان نسل سوشل میڈیا کی وجہ سے زیادہ باشعور ہے۔وہ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ بااختیار لوگ اس ملک اور دوسرے ممالک میں کیسے رہتے ہیں۔ اُن کے خواب اور خواہشات اپنے والدین کے مقابلے میں الگ اور اچھوتے ہیں۔ خاندان کے نقش قدم پر چلنا اور روایتی طریقوں کو اپنانا اب اُن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ مسائل کو سمجھیں اور اُنھیں بھی سمجھا جائے ‘لیکن سماجی اور معاشی دبائو انہیں اس قابل بننے نہیں دے رہاہے‘ جس کے وہ اہل ہیں ۔ اگرہم نے نوجوانوں کی قوت اور قابلیت کو صحیح طریقے سے استعمال نہ کیا‘ تو اس کے نتائج تباہ کن نکل سکتے ہیں ۔

یو این ڈی پی کی متذکرہ رپورٹ پاکستان میں بے روز گاری اور بڑھتی ہوئی بے چینی کی طرف بھی دھیان دلواتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘پاکستان کو اپنی باشعور اور مشترک نوجوانوں کو تعلیمی اور مثبت کاموں میں مصروف رکھنے کے لیے پانچ سال میں قریباً 45لاکھ نوکریاں پیدا کرنا ہوں گی ۔الغرض ہمیں ایک ایسی کثیرالجہتی اپروچ کی ضرورت ہے‘ جو نوجوانوں کی تعلیم اور روزگار جیسے مسائل کوبیک وقت حل کر سکے۔

اگر ہم دنیا میں ایسے منصوبوں کا جائزہ لیں‘ جہاں نوجوانوں کو بہترین طریقے سے مثبت سرگرمیوں میں مصروف کیا گیا ‘تو اس کی بہترین مثال 1961ء میں امریکہ میں (Peace Corps)کے نام سے شروع ہونے والارضا کارانہ پروگرام ہے ۔ یہ پروگرام امریکی صدر جان ایف کینڈی نے شروع کیا تھا۔اُنہوں نے ایک ایسا منصوبہ پیش کیا ‘جس میں نوجوان طالب علم رضا کار پسماندہ طبقات کی بھلائی اور بہترے کیلئے کام کریں گے۔ یہ رضاکار مختلف شعبہ جات جیسے زراعت‘ معاشی ترقی ‘تعلیم اور دیہاتی اور پسماندہ علاقوں کے لوگوں کی زندگی پر مثبت اثرات چھوڑنے والے منصوبوں پر کام کرتے ہیں۔

پاکستان میں نوجوانوں کی ترقی کے منصوبوں کو مقامی سطح پر متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ نوجوانوں کو صوبائی اور ضلعی سطح پر مختلف رضاکارانہ سرگرمیوں میں مصروف کیا جائے ‘پروگرام کے مطابق ایک مخصوص وقت کے لیے مقامی نوجوانوں کو حکومت کی طرف سے مختلف رضاکارانہ منصوبے جیساکہ صفائی شجرکاری ‘تعلیم وغیرہ میں شمولیت کے لیے آن لائن رجسٹریشن کی دعوت دی جائے۔ہمارے نوجوانوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ان چیلنجز کو قبول کریںگے اور اگر اس کے اچھے نتائج کی میڈیا کے ذریعے تشہیر کی جائے‘ تو نوجوانوں کی حوصلہ افضائی بھی ہوگی اور وہ زیادہ متحرک ہوں گے ۔

گرین ایمبیسڈرز کی طرف سے شروع کی گئی‘ پلانٹ آٹری(Plant A Tree)نامی مہم پاکستانی نوجوانوں میں ماحولیات کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے ۔نوجوان رضاکاروں کو کسی بھی پروگرام کے مقاصد اور اہداف سے روشن کروانے کے لیے ٹریننگ شروع کرنی چاہیے۔ اس پروگرام کا دوسرا مرحلہ نوجوانوں کے ان پروگرامز میں کارکردگی کے جائزہ پر مشتمل ہے۔ ماہرین پر مشتمل ایک آزاد مانیٹرنگ ٹیم اس کام پر معمور ہو کہ وہ نظم و ضبط ‘کام کی کوالٹی اور منصوبے کے اثرات وغیرہ کا جائزہ لے اور اس منصوبے کے اختتام پر یہی کمیٹی رضاکاروں کی کارکردگی کی بنیاد پر درجہ بندی کرے ۔اس سارے نتائج کاتعین انتہائی سخت اور قابل اعتماد طریقہ کار سے کیا جائے۔

اس کا تیسرا مرحلہ نوجوان رضا کاروں کو مختلف انعامات دینے پر مشتمل ہے ۔یہ انعامات یا وظائف کارکردگی اور ضرورت کے تحت بنیادی یا پیشہ وارانہ تعلیم کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔ یہ وظائف ان یونیورسٹیز سے حاصل کئے جا سکتے ہیں‘ جن کے پاس نوجوانوں خاص طور پر ضرورت مند طلبا کے لیے فنڈز موجود ہوں۔مقامی یونیورسٹیز اس پروگرام میں شامل ہونے کے لیے اپنی سطح پران نوجوانوں کی استعداد بڑھانے کے لیے کیرئیرکائونسلنگ جیسے پروگرام شروع کر سکتی ہیں‘ جو اپنے رضاکارانہ منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ چکے ہوں۔

اس پروگرام کا آخری مرحلہ نوجوانوں کے لیے ملازمت کا حصول ہے ۔ضلعی اور صوبائی حکومتیں مختلف صنعتوں میں روابط بنا کر ایسے منصوبوں میں نوجوانوں کو نوکریاں دلوا سکتے ہیں‘ جہاں ہنرمندی افرادی قوت کی ضرورت ہو۔ بین الاقوامی سطح پر آئی ٹی سوفٹ ویئر‘ہوٹل مینجمنٹ اور خدمات کی فراہمی جیسے منصوبوں میں نوجوانوں کو کھپایا جا سکتا ہے‘ کیونکہ ایسے منصوبوں افرادی قوت کی مانگ ہمیشہ رہتی ہے ۔ہر وہ منصوبہ جو نوجوانوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر مصروف کرے‘ وہ نوجوانوں کے لیے پرُکشش ہے۔ نوجوانوں کو اگر ایک ہی کام اورنپی تلی روٹین پر رکھا جائے‘ تو ایک وقت آتا ہے کہ وہ خود کو بیکار سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔

آخر صرف یہی عرض ہے کہ ہر رضاکارانہ منصوبہ نوجوانوں کو احساس ذمہ داری سے روشناس کرواتا ہے اور اگر یہی منصوبے تعلیم اور تربیت کے متعلقہ ہوں‘ تو نوجوان دل و جان سے اس میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ایک ایسی نوکری‘ جو نوجوانوں کو معاشی فکر سے آزاد ہونے کے قابل کر دے ‘ہی وہ واحد راستہ ہے‘ جو نوجوانوں کے اس ہجوم کو مفید شہری بنا سکتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے