حماقت یا جرم؟

جو کچھ کسی نے بویا ہے وہ اسے کاٹنا ہے۔ چالاکی اور عیّاری سے انسانوں کو دھوکا دیا جا سکتا ہے‘ پروردگار کو نہیں… اور فیصلے اس کی بارگاہ میں صادر ہوتے ہیں۔ ”و الی اللہ ترجع الامور‘‘ معاملات اس کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔

بلال الرشید نے ٹھیک فیصلہ کیا کہ سیاست کی بجائے تخلیقِ کائنات اور انسانی ذہن کی لا محدود دنیا کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ ہم سیاست پہ لکھتے رہے۔ اب اس سے وحشت ہونے لگی۔

سحر کبھی تلاوت سنتا ہوں۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: قرآن ایک حزن کے ساتھ نازل کیا گیا۔ قاری عبیدالرحمن مرحوم کی آواز میں یہ حزن کارفرما ہے۔ لحنِ دائودی اور ایک سچا انہماک۔سویا ہوا شعور کبھی جاگ اٹھتا ہے۔ کبھی موتی سے برسنے لگتے ہیں۔

سولہ برس ہوتے ہیں۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے صدر محمود غازی مرحوم نے اپنا خواب بیان کیا۔ بتایا کہ علامہّ اقبال کی زیارت ہوئی۔ وہ ارشاد فرما رہے تھے: MUSLIMS HAVE STILL NOT DISCOVERED THE GREATNESS OF QURAN مسلمان ابھی تک قرآنِ کریم کی عظمت کا ادراک نہیں کر سکتے۔ کچھ اور بھی ہم بھول گئے۔ مصطفیﷺ کی فضیلت اور مقامات۔ وہی بات جو امام زین العابدینؓ نے کہی تھی: ہم اس طرح سیرت پڑھا کرتے‘ جس طرح قرآن پڑھا جاتا ہے۔ شاعر اور سالک مکرّم احمد جاوید نے بتایا: میرے گرامی قدر استاد نے کہا تھا‘ قرآن کو حدیث کی طرح پڑھ کر دیکھو۔ احمد جاوید ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ خوب انہیں ادراک ہے کہ قرآن حدیث نہیں ہے۔ ایک اللہ کا کلام ہے‘ ایک خیرالبشرﷺ کا۔ اس مفروضے کے ساتھ قرآن پڑھا جائے کہ گویا خود رسالت مآبﷺ تلاوت فرما رہے ہیں‘ تو احساس کی ایک نئی دنیا تخلیق ہوتی ہے۔ میر صاحب نے کہا تھا:
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

قرآنِ کریم میں بہت سے جہانِ دیگر ہیں۔ کائنات کے اسرار اور کائناتیں‘ جو ابھی دریافت ہونا ہیں۔ فرمایا: ”زینا السّماء الدّنیا بمصابیح‘‘ آسمانِ دنیا کو ہم نے ستاروں سے مزین کیا۔ یعنی دوسری دنیائیں دوسرے آسمان بھی ہیں۔ پروفیسر احمد رفیق اخترکا شعر یہ ہے:
جلتے ہر شب ہیں آسماں پہ چراغ
جانے یزداں ہے منتظر کس کا

فرمایا: سات زمینیں ہیں اور سات آسمان ہیں اور ان سب پہ ہمارا حکم اترتا ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے ارشاد کیا تھا: زمین کے وسط سے ایک زنجیر گزاری جائے تو وہ دوسری زمین کے وسط تک پہنچے گی۔ ابھی دس پندرہ برس پہلے تک سائنس دان‘ دوسری کائنات کا ادراک نہ رکھتے تھے۔ اب یہ امکان تسلیم کر لیا گیا ہے۔ حال ہی میں ایک ممتاز سائنس دان نے یہ بھی کہا کہ آدمی کسی اور مقام سے یہاں آیا ہے۔ اس میں مستقل قائم رہنے والی جو سہولت پسندی پائی جاتی ہے۔ عیش کی جو تمنا اس میں پھوٹتی رہتی ہے‘ وہ کسی اور ارضی مخلوق میں نہیں۔ جانور اور پرندے۔ موسموں سے نباہ کرتے ہیں۔ دھوپ اور برف باری میں قدرتی مدافعتی نظام ان کا تحفظ کرتا ہے۔ وہ اس پہ نا خوش نہیں ہوتے۔ کوئی ردّ عمل ان کے اندر ابھرتا ہی نہیں۔ وہ زمینی مخلوق ہیں‘آدمی زمینی مخلوق نہیں۔

آدمی کو اس زمین پر بھیجا گیا تو ارشاد ہوا‘ مستقل نہیں یہ ایک عارضی ٹھکانہ ہے۔ عقل بخشی ہے‘ اسے برتو گے‘ کائنات پہ اگر غور کرو گے تو حق کو پا لو گے۔ سمندر میں تیرتے جہازوں پر جو پہاڑوں کی طرح کھڑے ہوتے ہیں۔ جنگلوں‘ میدانوں اور صحرائوں میں برستی بارشوں پر۔ پتھروں سے پھوٹتے چشموں پر۔ ہوا میں اڑتے پرندوں پر۔ رزق کے اس نظام پر‘ چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک‘ جس میں سب کے لیے رزق کی ضمانت ہے۔ اگر اپنے خالق کو یاد رکھو گے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے‘ بہشتِ بریں میں لوٹا دیئے جائو گے۔

آزمائشیں کئی طرح کی ہیں۔ خوف‘ بھوک‘ اپنے پیاروں کی موت‘ وبائیں‘ فصلوں اور باغوں کی بربادی۔ پھر باہم ناپسندیدگی کے تند جذبات۔ فرمایا: تم میں سے بعض‘ بعض کے دشمن ہوں گے۔ سعادت صرف صبر میں ہے۔ ارشاد کیا: جب کوئی مصیبت انہیں پہنچتی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کے طرف لوٹ کے جانے والے۔

ہمیشہ اور پورا صبر آدمی نہیں کر سکتا۔ فرمایا: تمہیں صبر کیسے آئے‘ تم جانتے جو نہیں۔ مستقل طور پہ بے صبری کو شعار کر لینا تو مگر آدمیت نہیں‘ حیوانیت ہے۔ نوبت درندگی تک پہنچتی ہے۔ آدمی پر آدمی کی ہی نہیں‘ قوموں پر قوموں کی یلغار۔ بے صبری نہیں وحشت۔ دولت اور اقتدار کی بھوک میں پاگل پن۔ فرمایا: آدمی کو بہترین اوصاف کے ساتھ پیدا کیا گیا‘ مگر وہ پست سے پست تر ہو جاتا ہے۔ ان کے سوا جو ایمان لاتے اور صبر کرتے ہیں۔ جو حسنِ عمل کے خوگر ہیں۔
تمہید دراز ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو تمہید ہی میں بات تمام۔ ارادہ تھا کہ نئی حکومت کے پہلے بارہ ایّام میں پیدا ہونے والے مباحث کا جائزہ لیا جائے۔ ملک 92 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ اندرون ملک قرض اس سے کم نہیں۔ دشمن بلیک میلنگ کے در پے ہیں۔ لگ بھگ ایک ہزار ارب روپے بجلی کمپنیوں کے ادا کرنے ہیں۔ بجلی کے علاوہ بھی مالی بحران پیدا کرنے والے سرکاری ادارے ہیں۔ سٹیل ملز‘ واپڈا‘ ریلوے اور پی آئی اے۔ کل 1300 ارب روپے سالانہ۔ سبحان اللہ بحث کس چیز پہ ہے۔ وزیر اعظم نے ہیلی کاپٹر کیوں استعمال کیا؟ بی بی سی کے لیے ماہرین نے واضح کیا کہ کل بارہ ہزار روپے‘ تیس کلومیٹر کے دو طرفہ سفر پہ اٹھتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ڈی پی او پاکپتن اور مانیکا خاندان کو طلب کیا۔ غیر ضروری طور پر ذاتی طیارے میں سفر کیا۔ غلط کیا‘ مگر کون سی قیامت ٹوٹ پڑی۔ ناتجربہ کار ہیں منع کر دیئے جائیں گے۔ باز آ جائیں گے۔

نئی تقرریوں پہ اعتراض ہے کہ یہی لوگ شریف خاندان کا طواف کرتے تھے۔ نئے افسر کیا سمندر پار سے درآمد کیے جائیں۔ بے شک چند اعلیٰ دماغوں کو نظر انداز کیا گیا۔ حکومت کا تجربہ نہیں‘ سیاسی مشیر ناقص ہیں۔ غلطیاں تو ہوں گی۔ میڈیا کا حق ہے کہ نشاندہی کرے۔ دانت پیسنے‘ واویلا کرنے اور رونے کی بات کیا ہے۔ وزرائے اعلیٰ کے تقرر میں‘ وزارتیں سونپنے میں‘ میرٹ کا اس قدر خیال نہ رکھا گیا۔ عرق ریزی درکار تھی۔ کچھ شہ دماغ ہیں‘ کچھ اجلے اور ریاضت کیش‘ پولیس‘ سول انیٹلی جنس اور ٹیکس وصولی کے علاوہ افسروں کے انتخاب اور نگرانی میں جو مددگار ہو سکتے۔ سیاسی جدوجہد کے ہنگام‘ ساری توجہ حریفوں کو اکھاڑ پھینکنے تک محدود تھی۔ ذمہ داریاں سنبھالنے کی تیاری نہ کی گئی۔ غلطیاں تو ہوں گی‘ دیکھنا یہ ہے کہ کیا روش‘ من مانی‘ خود پسندی اور لوٹ مار کی ہے جیسی کہ جہاں پناہ زرداری اور جہاں پناہ نواز شریف میں تھی یا کچھ مختلف۔

ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو مہلت بھی دی جاتی ہے۔ پچھلی سیٹ پہ بیٹھ کر ڈرائیور کو گیئر بدلنے اور بریک لگانے کے لیے ہدایات نہیں دی جاتیں۔ احتجاج ایک چیز ہے‘ مداخلت‘ جھوٹ اور افواہ سازی بالکل دوسری۔ حکومت نے حماقتیں کی ہیں۔ جرم اس سے کوئی سرزد نہیں ہوا۔ وفاقی وزراء کی اکثریت احسن اقبال جیسے دانشوروں سے بدرجہا بہتر ہے۔ جن کی دو زندگیاں اور دو شخصیات تھیں۔ جن کی متاع چرب زبانی اور کاسہ لیسی کے سوا کچھ نہیں۔

ممکن ہے نئی حکومت بھی ناکام رہے‘ مگر اس کا فیصلہ کم از کم بارہ ماہ گزرنے کے بعد کیا جا سکتا‘ بارہ دن کے بعد نہیں۔ اپوزیشن کی روش‘ خود اسی کو لے بیٹھے گی۔ عمران خان پہ‘ دونوں ہاتھوں سے فوائد سمیٹنے والے حضرت مولانا فضل الرحمن‘ جناب آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف مدظلہ العالی کو ترجیح کیسے دی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی پہ‘ آصف علی زرداری اور وحشی پراپرٹی ڈیلروں کے وکیل اعتزاز احسن کو کیسے ترجیح دی جا سکتی ہے۔ عارف علوی سے آج تک کون سا جرم سرزد ہوا؟

جو کچھ کسی نے بویا ہے وہ اسے کاٹنا ہے۔ چالاکی اور عیّاری سے انسانوں کو دھوکا دیا جا سکتا ہے‘ پروردگار کو نہیں… اور فیصلے اس کی بارگاہ میں صادر ہوتے ہیں۔ ”والی اللہ ترجع الامور‘‘ معاملات اس کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے