نیلم سے جہلم تک:مظفرآباد کھنڈربن جائے گا؟

دریائے نیلم کی معلوم تاریخ اتنی ہی پرانی ہے ، جتنی ریاست جموں کشمیر کی وادی کشمیر کی. جنوری 2008 میں دریائے نیلم پر نیلم جہلم ہائیڈرل پراجیکٹ پر واپڈا نے کام شروع کیا ، مظفرآباد شہر سے 41 کلو میٹر وادی نیلم کی طرف نوسہری کے مقام سے دریا کارخ موڑ کر چھتر کلاس کے مقام پر پاور ہاؤس بنایا گیا ، اس پراجیکٹ سے 969میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی ، واپڈا کے اعداد وشمار کے مطابق ، اس پراجیکٹ کی سالانہ آمدن 55 ارب روپے ہے.

اپریل 2018 پراجیکٹ کے پہلے یونٹ نے کام شروع کیا اور اگست 2018 میں دریائے نیلم کا سارا پانی نیلم جہلم پراجیکٹ کے لئے استعمال ہونا شروع ہوگیا ، جس کے نتیجہ میں صدیوں سے بہتا ہوا دریائے نیلم نالے میں تبدیل ہوگیا یوں مظفرآباد ضلع کی 6 لاکھ 50 ہزارآبادی 2017 کی مروم شماری کے مطابق شدید ماحولیاتی اثرات کی زد میں ہے.

رواں سال اگست کے پہلے عشرے میں تاریخ کی بد ترین گرمی نے اس علاقے کے باسیوں کی زندگی مشکل کردی ، کیا واپڈا نے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے ساڑھے 6 چھ لاکھ لوگوں کی زندگیوں کو پراجیکٹ کی تعمیر سے پیدا ہونے والے مضراثرات سے بچاو کے لیے کچھ کیا؟

کیا آزادکشمیر کی موجودہ حکومت یا گزشتہ حکومتوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں؟ کیا اس خطے کے باشندوں نے پراجیکٹ کے نتیجے میں ماحولیاتی ڈیزاسٹر سے بچنے کے لیے کوئی مزاحمت کی ہے؟

ان تینوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے ، واپڈا نے حکومت آزاد کشمیر سے معاہدہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی اورنہ ڈیم کی فزیبلٹی بننے اور تعمیر کے عرصے میں حکومت آزاد کشمیر کا کوئی نمائندہ شامل ہوا اورنہ اسے شامل ہونے دیا گیا، اس پراجیکٹ کی تعمیرسے قبل ایک جذباتی فضا پیدا کی گئی کہ ہندو ستان کشن گنگا پراجیکٹ بنا رہا ہے، اگر تھوڑی سی تاخیر ہوئی توبہت بڑانقصان ہوجائے گا . ایسے ماحول میں پراجیکٹ کی تعمیر کے مضراثرات کے بارے میں اٹھنے والی کسی بھی آواز کوغدار کہا گیا.

کشیرنیشنل پارٹی سمیت آزادی پسند قیادت نے 2008 ،2009 میں اس انسان اور ماحول دشمن منصوبے کے خلاف آواز حق بلند کرتے ہوئے اس کے خطرناک اثرات سے عوامی آگاہی مہم شروع کی. درجنوں جلسے جلوس ، سیمنارز منعقد کیے ، پمفلٹ چھاپے گئے ، بین الاقوامی سطح تک آواز بلند کی گئی. شہر کے وہ ہزاروں لوگ جوآج دریائے نیلم کے ختم ہونے پر احتجاج کررہے ہیں، ماضی میں نہ صرف خاموش رہے بلکہ چند کنویں کے مینڈک احتجاج کرنے والوں کو ایجنٹ اور ترقی کے دشمن کہتے تھے . کل ہمیں ایجنٹ کہا جاتا تھا ، اگر وہی پیمانہ مد نظر رکھا جائے توآج ہر مظفرآبادی کہاں کھڑا ہے؟

سرزمین مظفرآباد کے چند ذی شعور افراد جن میں ڈاکٹر اعجاز کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ موصوف نے اس پراجیکٹ کے خطرناک ماحولیاتی مسائل پر بہت کام کیا اور ارباب اختیار کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی جس کی ڈاکٹر اعجاز کو بھی بھاری ”قیمت”چکانا پڑی،جبکہ فیصل جمیل کشمیری ، شوکت حنیف، زاہد القمر اپنے حصے کا کردار ادا کرتے رہے.سابق چیرمین ڈیم زاہد امین نے متعدد احتجاج کیے اور حکومتی سطح تک بھی کئ بار صدائے احتجاج بلند کی لیکن زاہد امین سمیت چار حکومتی سیکرٹریز کے حوالے سے واپڈا کا موقف ہے کہ دریا میں نو کیموک پانی چھوڑنے اور پراجیکٹ کی این او سی ان افراد کے کہنے پر ہی جاری کی گئی ہے.اگر واپڈا کا موقف درست ہے تو اس بدترین ظلم میں اپنوں کے اس عمل کو تاریخ انتہائی گھناونے کردار کے طور پر یاد رکھے گئی، یہ ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کا مسئلہ تھا اورہے ، یہ ساڑھے 6 لاکھ لوگوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے جن کے ماحولیاتی اعتبار سے متوازن خطے کو ایک دہکتے ہوئے تندورمیں تبدیل کردیا گیاہے.

خودساختہ حُب الوطنی کا نعرہ یا دشمن کے ایجنٹ کا الزام دو ایسےامور ہیں جس کے خلاف مزاحمت دل گردے کا کام ہے، الحمداللہ ہم نے مزاحمت کی اپنے حق کی شمع جلائی اور جلاتے رہیں گے ، یہ الگ معاملہ ہے کہ ہمارے لوگوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا لیکن ہم سرخرو ہیں کہ ہم نے حقائق سامنے رکھے مصائب برداشت کیے ، مقدمات اور قیدوبند کا سامناکیا، ہمارا مقدمہ کل بھی مضبوط تھا اور آج بھی مضبوط ہے ۔

ہم آج بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ علاقہ متنازع ہے ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق پاکستان کو اس علاقے کے دفاع، اندرونی سیکیورٹی ، رسل ورسائل اورکرنسی کے اختیارات حاصل ہیں ، اس سے ہٹ کر کوئی بھی معاہدہ یا اس کی آڑ میں اس خطے کے وسائل پر شب خون مارنے کا کوئی حق حاصل نہیں.

اس خطے کے تمام وسائل ہماری حق خوداداردیت سے مشروط ہیں ، کشن کنگا پراجیکٹ ہویا نیلم جہلم ہائیڈرل پراجیکٹ دونوں کی تعمیر، یو این کی قراردادوں کے مطابق ناجائز اور غیر قانونی ہیں لیکن ایک ظلم یہ ہوا کہ اس خطہ میں پاکستان کی اپنی بنائی ہوئی اورپاکستان ہی کے نزدیک تسلیم شد حکومت ہے( حکومت آزاد کشمیر کو پاکستان کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک تسلیم نہیں کرتا) اس حکومت سے رسمی معاہدہ کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، اقتدارکی مجبوریوں کی وجہ سے اس خطے کے حکمران بے بسی کی عملی تصویربنے نظر آئے ۔

مظفرآباد کے ساڑھے 6 لاکھ لوگوں اوران کی نسلوں سے زیادہ اہم اقتدار تھا ، 2008 میں سردارعتیق وزیراعظم تھے ، پاکستان کے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ مل کرانہوں نے اسلام آباد میں اس پراجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا ، بعدازاں سردار یعقوب اورپھر فاروق حیدر وزیر اعظم بنے ، فاروق حیدر کا ریاست کے وسائل کے حوالے سے جرات مندانہ موقف اس پراجیکٹ کی تعمیر کے وقت سے نقاب ہوجاتاہے ، بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود وہ عملاً کوئی اقدام نہ اٹھا سکے. 2010 میں سردار عتیق دوبارہ وزیراعظم بنے، 2011 میں چوہدری عبدالمجید اس خطے کے وزیر اعظم کے طور پر سامنے آئے، انھوں نے کچھ ماحولیاتی مسائل پربات کرنے کی جرات کی تو چیئرمین واپڈا کی دھمکی بعد ان کی معمولی آواز غیر معمولی طور پر خاموش ہوگئی.

فاروق حیدر کے دور حکومت میں یہ پراجیکٹ مکمل ہوا ہے.آج مظفرآباد شہر صدیوں سے بہتے دریائے نیلم سے تقریبآ محروم ہو چکا ہے. فاروق حیدر مکمل خاموش ہیں، ہمارے نام نہاد سیاستدانوں کی مجرمانہ غفلت ایک طرف لیکن واپڈا نے سرزمین مظفرآباد کے باسیوں کوانسان ہی نہیں سمجھا،واقفان حال جانتے ہیں مظفرآباد کی ضرورت کاپانی 15 کیومکس بتایا جارہا ہے ، ایک کیومکس سے مرادایک مربع میٹر پانی ایک سکینڈ میں کسی بھی جگہ سے مسلسل گزرے،دریائے نیلم کا سالانہ بہاؤ 465 کیومکس ہے، 40 فیصد پانی کے دخائر کم ہو چکے ہیں. یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دریائے نیلم میں اس وقت سالانہ بہاؤ 280 کیومکس ہے.

واپڈا کی ویب سائٹ کے مطابق نیلم جہلم پراجیکٹ کے پانی کا اخراج 280 کیومکس ہے، یوں آپ کے لیے اب اس دریا کا ایک فٹ پانی کا تعین کیا گیا ہےجبکہ نوسیری کے مقام سے چند فٹ پانی کا اخراج نظر آرہا ہے وہ دراصل ایسا پانی ہے جسے مکمل تکنیکی مہارت کے باوجود روکا نہیں جاسکتا ، مظفرآباد شہر میں دریائے نیلم ہمیں جو نالے کی مشکل میں نظر آتاہے ، یہ نوسیری سے مظفرآباد تک بھیڑی ، پٹہکہ، کہوڑی اوردیگر نالوں کا پانی ہے ، لیکن کیا یہ پانی ہمارے لئے پینے کی ضرورت اور ماحول کو متوازن رکھنے کے لئے کافی ہے؟یہ بنیادی سوال ہے .

جس وقت مظفرآباد کے لیے پانی کی ضرورت کی بات سامنے آئی تو مظفرآباد کی آبادی ڈیڑھ لاکھ ظاہر کی گئی اور آبادی کو اتنا دکھانے میں مظفرآباد کے ہی ”شرفا” کا کمال ہے، تاکہ ڈیم سے پانی نہ چھوڑا جائےاور صرف 15 کیومکس پانی مظفرآباد کی ضرورت بتائی گئی. 6 کیومکس نوسیری اور 9 کیومکس اس سے آگے کے نالوں کا لیکن اس وقت مظفرآباد میں 9 کیومکس پانی کا کوئی وجود نہیں.مظفرآباد کی آبادی ساڑھے 6 لاکھ ہے،اگر واپڈا کے معیار کو ہی سامنے رکھا جائے تو ڈیڑھ لاکھ کی آبادی کے لیے 15 کیومکس پانی ضروری ہے توساڑھے 6 لاکھ کی آباد ی کے لئے 65 کیومکس پانی بنتا ہے۔

کیا اس خطہ کی حکومت و انتظامیہ واپڈا سے اس پربات کرنے کی جرات کرے گی ؟ اور کیا اہل مظفرآباد اس کے کیلئے لڑیں گے؟ کیا ہم میں اتنی جرات ہے کہ غداری کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے اپنا حق لے سکیں؟اور کیا پانی کا ناگزیر بہاو برقرار رکھنے کیلئے آزاد حکومت اور واپڈا کے درمیان معاہدہ ہو سکے گا اور اس معاہدے پر عمل درآمد کیلے مشترکہ نگرانی کا کوئی فارمولہ طے ہو گا؟

افسوس یہ ہے کہ مفتوحہ قوم پر عذاب کا سلسلہ ابھی بھی تھم نہیں رہا، اب نیلم کے بعد دریائے جہلم کی جبری قربانی پر کام شروع کیا جا چکا ہے.کیا ہم پھر دس سال گزرنے کے بعد یہی رونا شروع کریں گے، نام نہاد قانون ساز اسمبلی میں بیٹھے گونگے بہروں کے اجتماع کو ادراک نہیں کہ اب بھی باوقار معاہدہ اور انسانی زندگی پر اس کے خطرناک اثرات کو دیکھے بغیر ، جہلم کا رخ بھی تبدیل کیا جا رہاہے . حکمران طبقات اس پراجیکٹ کی ذمہ داری سے خود کو مبرا ثابت کر دیں گے، اس لیے سرزمین مظفرآباد کو مٹنے سے بچانے کیلے اہل مظفرآباد کو ہی اپنی بقا کی چومکھی جنگ لڑنا ہو گی ورنہ کل کو ہماری صرف داستان ہی رہ جائے گی اور جہاں انسان خوداپنی بقا کا نہ سوچیں وہاں داستانیں بھلا کون یاد رکھتا ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے