گدھ، عقاب یا مُردار، ہم کیا ہیں؟

گدھ عجب پرندہ ہے جس میں کئی خوبیاں ہیں، سیاہ چمکدار بڑے بڑے پر، اس کی چونچ بھی عقاب جیسی اور اڑان بھی اونچی ہے، مضبوط قوت مدافعت، نگاہ اس قدر تیز کہ دور تک۔۔ بہت دور تک دیکھ سکتا ہے، زبردست ہاضمہ کہ بڑے سے بڑے جانور کے گلے سڑے گوشت کو نگلنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں، تحقیق یہ بتاتی ہے کہ لاکھوں سال پہلے عقاب اور گدھ ایک ہی نسل سے تھے مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ گدھ اور عقاب الگ الگ ہو گئے۔

دونوں پرندوں میں ایک بہت نمایاں فرق ہے اور شاید یہی فرق عقاب کو گدھ سے بہت ممتاز کر دیتا ہے اور وہ ہے خود شکار کر کے کھانا جبکہ گدھ کسی اور کے شکار کے مردار پر گزارہ کرتا ہے۔

عالمی سامراجی نظام میں ہم ایک اہم جزو ہیں۔ پرواز کے لیے پر موجود ہیں، اڑان اونچی بھرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، عقاب سی نگاہ اور بلندی کا جنوں رکھتے ہیں لیکن اس تخیل سے دور کہ ہم عالمی سطح پر کس نام سے پکارے جائیں۔۔۔ وہ جو اپنا شکار خود کرتے ہیں یا وہ جو کسی کے مارے ہوئے شکار کو نوچتے ہیں۔

ہماری پالیسیوں کی صورتحال اس وقت کچھ ایسی ہی ہے۔ ہم آزاد معیشت کے دور میں قرضوں کی زنجیریں پہنے کبھی چین اور کبھی امریکہ کی پالیسیوں کے ہاتھوں اسیر اور کہیں مبہم خارجہ پالیسی اور وقتی فیصلوں کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ امریکہ بہادر کچھ اور، کچھ اور کے مطالبے کر رہا ہے اور وہ کچھ اور، ہمارے بس میں ہوتے ہوئے بھی بس میں نہیں ہے۔

عالمی گدھ ہمارے اردگرد منڈلا رہے ہیں اور ہمسائے ہمیں نوچنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ صاحب بہادر ایک طویل فہرست ہاتھ میں تھامے شاید حتمی فیصلے کرنے آ رہے ہیں تو دوسری جانب ہمارا بہترین دوست اس معاملے پر اُن کا ہمنوا ہے کہ اپنا گھر تو سیدھا کرنا ہو گا۔ ایسے میں نوزائیدہ سیاسی جماعت جو اقتدار تو رکھتی ہے، کیا اختیار بھی؟ اس کا جواب آنے والے دنوں میں مل جائے گا۔

خبریں بری نہیں کہ پنڈی کے بڑے گھر میں پشت پر ہاتھ رکھ کر ہر فیصلے کے پیچھے کھڑے ہونے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ بہت ہی خوش کن، بہت ہی سہانا اور دل کو لبھانے والا تصور کہ سویلین بالادستی ہی اصل وعدہ ہے مگر۔۔۔

سیاسی حکومت کے پاس آنے والوں کو دینے والے جوابوں میں کیا ہو گا، خالی نعرے؟ کیا ہم مطالبات کی فہرست پر عملدرآمد کو تیار ہوں گے؟ ہمیں آئندہ چند مہینوں میں نہیں دنوں میں مضبوط معیشت کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے ہیں، مضبوط دفاع کو یقینی بنانا ہے جس کے لیے نئی حکومت کو پیسے چاہییں۔ دمڑی نہ ملی تو چمڑی والی کیفیت سے دو چار یہ مملکت کیا کرے کہ ارباب خوش ہو جائیں۔ ایسے میں ہم محض مقبول فیصلے کر رہے ہیں۔

ہمیں یہ سوچنا ہے کہ شاہین بننے کے لیے کیا کرنا ہو گا۔ تحقیق تو بتاتی ہے کہ سفید پشت والے گدھ مردار پر سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ہماری معیشت کسی مردار کا گوشت بن جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے