سعودی عرب اور کینیڈا کے اختلافات (پہلی قسط)

رواں صدی میں سوشل میڈیا کتنا موثر کردار ادا کر رہا ہے؟ اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔اسی سوشل میڈیا کے ایک ٹویٹ نے‘ دو ملکوں کے مابین کیا ہنگامہ برپا کیا؟ زیر نظر مضمون میں اسی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

”چند ہفتے قبل کینیڈا کی وزیر خارجہ‘ کرسٹیا فری لینڈ کی جانب سے کیا گیا ایک ٹویٹ‘ کینیڈا اور سعودی عرب کے مابین ایک بڑے سفارتی تصادم کا باعث بن گیا۔ اس ٹویٹ میں انہوں نے جیل میں بند دو فعالیت پسندوں ‘رائف اور ثمر بداوی کی رہائی کا تقاضا کیا گیا۔ کئی برسوں سے کینیڈا کے حکام سعودی عرب میں انسانی حقوق کے معاملات کے بارے میں اکثر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں اور سعودی حکومت اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کرکے ناقدین کو عمومی طور پر نظر انداز کر دیتی رہی ہے‘ لیکن اس ایک ٹویٹ نے ریاض کو مشتعل کر دیا اور اس کی جانب سے سخت سفارتی اور اقتصادی اقدامات کی دھمکی دی گئی۔ اب تک اس حوالے سے خاصے اقدامات کئے بھی جا چکے ہیں۔

سعودی عرب اب تک کینیڈا سے اپنے 8300 پوسٹ سیکنڈری طلبہ واپس بلا چکا ہے اور کینیڈا میں زیر علاج سعودی مریضوں کو بھی وہاں سے نکال لیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں سعودی عرب نے اپنی کینیڈین سفارت کار کو بھی ملک سے نکال دیا ہے۔ کینیڈا کے ساتھ نئے تجارتی تعلقات کو منجمد کر دیا ہے۔ اپنے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ سے کینیڈا کی لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو ڈمپ کر دیا ہے اور اپنی قومی ایئرلائن کی کینیڈا کے لئے پروازیں معطل کر دی ہیں۔

یہ سب کچھ صرف ایک ٹویٹ کے رد عمل میں کیا گیا ۔ اس صورتحال نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔ وہ کیا چیز تھی؟ جس نے سعودی عرب کو کینیڈا کے ساتھ سفارتی لڑائی شروع کرنے پر مجبور کر دیا؟ریاض سے اتنا جارحانہ ردعمل کیوں سامنے آیا؟ اور اسی حوالے سے ایک او ر اہم سوال یہ ہے کہ وزیرخارجہ کو اس طرح کا ٹویٹ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی؟ جس نے سفارتی سطح پر دو ممالک کے مابین‘ اس طر ح کی آگ بھڑکا دی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب اور کینیڈا کے درمیان‘ کئی حوالوں سے اختلافات موجود ہیں‘ جیسے سعودی عرب کی جانب سے یمن میں مداخلت پر کینیڈین کا شدیدردعمل کا اظہار کرنا۔ کینیڈا‘ ایران کے نیوکلیئر معاہدے کی جو حمایت کرتا ہے‘ سعودی عرب کی جانب سے اس کی نامنظوری۔ لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دونوں ملکوں میں اختلافات کے بجائے ‘اتفاق رائے کرنے کے سٹریٹیجک شعبے یا معاملات زیادہ ہیں۔ دونوں ملکوں کی تیل کی پیداوار کے بارے میں سوچ ایک جیسی ہے۔

دونوں ایک دوسرے کے لئے سیاحت کے حوالے سے خاصے مددگار ہیں۔ دونوں دہشت گردی کے خلاف پارٹنرز ہیں اور دونوں ہی امریکہ کے اتحادی ہیں۔ پھر اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے کہ ایک دوسرے کی مدد کے بغیر‘ دونوں ہی ملک معاشی طور پر خسارے کا سامنا کر رہے ہوں گے تو نہ تو فری لینڈ کا ٹویٹ اور نہ ہی سعودی عرب کا اس پر سخت رد عمل مخصوص تزویراتی چال نظر آتی ہے۔ لیکن کچھ ایسے طریقے ہیں‘ جن کو استعمال کرکے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان معاملات نے وہ رخ اختیار کیوں کیا کہ اتنے زیادہ اقدامات کرنا پڑے؟ ان میں سے ایک گیرٹ ہوفسٹیڈے کی کلچرل ڈائمنشنز تھیوری (Geert Hofstede’s cultural dimensions theory)ہے ۔ اس طرح ایک ٹویٹ کی وجہ سے سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین پیدا ہونے والے تنازع کو دو ملکوں کی ایک دوسرے سے متصادم قومی اقدار کی کہانی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

گیرٹ ہوفسٹیڈے کی کلچرل ڈائمنشنز تھیوری 1948ء میں پیش کی گئی تھی۔ یہ ایک فزیالوجسٹ گیرٹ ہوفسٹیڈے کے ذاتی تجربے کا نتیجہ اور نچوڑ تھی۔ وہ نیدر لینڈز سے برطانیہ چلا گیا تھا۔ اور یہ تھیوری اس ہجرت سے حاصل ہونے والے تجربے پر مبنی تھی۔ گیرٹ نے قومی اقدار کو ثقافت کی چھ مختلف جہتوں میں تقسیم کیا ہے‘ جو متعدد نوعیت کے رویوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایک بار یہ تھیوری سمجھ لی جائے تو پھر ہم ہر ملک کی اقدار کا آسانی سے ایک دوسرے کے ساتھ دوسرے ممالک کے ساتھ تقابل کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور عدم مساوات کی آسانی سے جانچ کر سکیں گے۔ آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ گیرٹ کی تھیوری کسی مخصوص فرد کی سرگرمی یا ایکشن کا تجزیہ کرنے کے بجائے بڑے گروپوں میں رجحانات کا پتہ چلانے کے کام آتی ہے۔ یہ فریم ورک بین الاقوامی سطح پر کاروبار کرنے والے اور تعلیمی ادارے استعمال کرتے ہیں تاکہ مختلف ثقافتوں کا ایک دوسرے سے تقابل کرنا اور ان کو مینیج کرنا سیکھ سکیں۔

لیکن اس کا جیو پولیٹیکل تعلقات پر انطباق ہمیں اس قابل بنا دیتا ہے کہ ہم اوٹاوہ اور ریاض کے حالیہ اقدامات کے پیچھے کارفرما مقامی عوامل کا گہرائی تک ادراک کر سکیں۔ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب کی داخلی صورتحال کے بارے میں ٹویٹ‘ ہوفسٹیڈے کلچرل ڈائمنشنز پر دو ایسے ممالک کو ظاہر کرتا ہے جو ایک دوسرے سے خاصی مختلف پوزیشنز پر ہیں۔ یہ تین ڈائمنشنز (جہتیں) ہیں: دی پاور ڈسٹینس انڈیکس (کوئی حکومت پاور یا طاقت کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟) انفرادیت بمقابلہ اجتماعیت (وہ افراد بمقابلہ گروپس کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں) غیر یقینی صورتحال سے بچائو کا انڈیکس ‘وہ مستقبل میں غیر یقینی صورتحال کو کس طرح لیتے ہیں؟ اب ان جہتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

کینیڈا میں فری لینڈ کا ٹویٹ ایک مثال ہے کہ وہاں سیاسی روایات ملک کی اہم اقدار کے ساتھ منسلک ہیں ‘ جن کا تعلق طاقت سے ہے اور اس معاملے کے ساتھ کہ خود مختاری کو کن نظروں سے دیکھا جاتا ہے؟ سعودی عرب میں اس کو اس طرح لیا گیا کہ طاقت و اقتدار اور خود مختاری کے حوالے سے طرز عمل کے بارے میں اس کی سوچ پر یہ براہ راست حملہ کیا گیا ہے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ سعودی عرب میں قوانین قدرے سخت ہیں۔ دوسری جانب کینیڈا میں وزیر اعظم ‘ عوام کے تقریباً برابر ہیں‘ جن پر وہ حکومت کرتے ہیں۔ کینیڈا میں کوئی بھی شخص‘ برسر اقتدار افراد پر تنقید کر سکتا ہے۔ افراد کا گروپوں کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اس بارے میں بھی دونوں ملکوں کی سوچ اور نکتہ نظر مختلف ہے۔

سعودی عرب میں گروپ کے حصے کے طور پر افراد کے حقوق اور ذمہ داریوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کینیڈا میں بہت سے مغربی ممالک کی طرح افراد‘ نہ صرف گروپ کو چیلنج کر سکتے ہیں بلکہ اس گروپ سے الگ بھی ہو سکتے ہیں تاکہ ان کی خود مختاری ہر حالت میں برقرار رہ سکے۔ کچھ ثقافتی تضادات بھی ہیں۔ کینیڈا اور سعودی عرب کی قومی ثقافتیں‘ مختلف حجم کی تبدیلی کیلئے کھلی ہیں۔کینیڈا میں ثقافتی تبدیلی کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ روایات کو کم اہمیت حاصل ہے۔ دوسری جانب سعودی کلچر میں اقدار و روایات کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ٹویٹ پر سعودی عرب کی جانب سے اتنا شدید ردعمل کیوں ظاہر کیا گیا اس لئے کہ اس میں یہ ذکر تھا کہ سعودی عرب میں فعالیت پسندوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ لیکن جو ممالک مذکورہ تین اقدار پر یقین نہیں رکھتے‘ ان کی جانب سے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ فعالیت پسندوں کی سرگرمیاں‘ سعودی حکومت اور کینیڈا کی حکومت تینوں ان اقدار کے چوراہے پر آن کھڑے ہوئے۔ جس کا نتیجہ ایک بڑے سفارتی تعطل کی شکل میں سامنے آیا۔ کینیڈا کی بات کریں تو وہاں فعالیت پسندوں کو بعض اوقات ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ فرد واحد بھی طاقت اور برسر اقتدار لوگوں کو چیلنج کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے جو خلل پیدا ہوتا ہے اس خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس کے باعث جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ‘معاشرہ انہیں قبول کرتا ہے‘‘۔ (جاری)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے